پرویز احمد
سرینگر //جموں و کشمیر میں ہر سال اپریل اور مئی کے دو مہینے لوگوں کیلئے قیامت سے کم نہیں ہوتے۔ روسی سفیدوں سے نکلنے والے روئی کے گالوں کی وجہ سے لوگ الرجی کے مختلف امراض کے شکار ہوجاتے ہیں اور سب سے زیاہ متاثر سکولی بچے اور عمر رسیدہ لوگ ہوجاتے ہیں۔ان سفیدے کے درختوں کو جموں و کشمیر میں 1982میں متعارف کرایا گیا۔ان کی مقبولیت کی بنیادی وجہ ان کی تیز رفتار نشوونما ہے، مقامی کشمیری چنار کے مقابلے میںانکی 10-15 سال میں پختگی ہوتی ہے۔یہ لکڑی کی صنعت کے لیے ایک قیمتی وسیلہ ہیں، جو لکڑی کے ڈبوں، پلائیووڈ اور لکڑی کی دیگر مصنوعات بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔لیکن ان درختوں سے خارج ہونے والے پولن نے کشمیر میں الرجی اور سانس کے مسائل کے بارے میں خدشات کو بری طرح جنم دیا ہے۔اگرچہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صحت کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہیں، لیکن بڑے پیمانے پر پودے لگانے سے لوگوں کی صحت پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ 19مارچ 2015کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ پورے کشمیر میں غیر مقامی چنار گرائیں۔ عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ اس روسی نسل کے پولن سیڈز عام لوگوں کی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں جن میں زیادہ تر بوڑھے اور بچے شامل ہیں۔ عدالت نے متعلقہ تحصیلداروں سے کہا تھا کہ وہ وادی کشمیر میں روسی سفیدوں کو ہٹانے کے سلسلے میں ڈپٹی کمشنروں کی طرف سے جاری کردہ احکامات کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے ذاتی طور پر ذمہ دار ہوں گے۔حکام کو بتایا گیا تھا کہ ان درختوں کے پولن سیڈ نے کشمیر میں سینے کی بیماریوں کو جنم دیا ہے، جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے”۔لیکن 2020میں ہائی کورٹ نے اپنے ہی احکامات کو التوا میں رکھنے کے احکامات دیئے۔عدالت نے جموں و کشمیر کی انتظامیہ سے کہا کہ وہ ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے، تاکہ جنگی بنیادوں پر روسی چناروں کو کاٹنے کی خواہش کا پتہ لگایا جا سکے۔عدالتی ہدایت جموں و کشمیر سول انتظامیہ کی جانب سے 2015 کے حکم کا حوالہ دینے کے چند دن بعد آیا ہے اور ضلعی حکام کو اس درخت کی مادہ قسم کی بڑے پیمانے پر کٹائی کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جس کی تعداد پورے خطے میں 16-20 ملین کے درمیان ہے۔لیکن اس کے بعد نہ کوئی کمیٹی بنی نہ ماحولیاتی توازن کو لاحق خدشات کے بارے میں کوئی رپورٹ تیار کی گئی۔وادی میں ہر سال اپریل اور مئی کے مہینے میں سفیدوں سے نکلنے والے روئی کے گالے قیامت بپا کرتے ہیں۔ 2007میں کئی ماہرین صحت نے موسم بہار میں وادی میں الرجی اور چھاتی کے معاملات میں اضافہ کی بڑی وجہ ان سفیدوں سے نکلنے والے گالوں کو قرار دیا تھااور لوگوں کو موسم بہار میں ماسک لگانے کا مشورہ دیا تھا۔ مراض چھاتی کے ماہر ڈاکٹرپرویز احمد کول نے کشمیرعظمیٰ کو بتایا کہ سفیدوں سے نکلنے والا پولن چھاتی کے مختلف امراض کا سبب بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آنکھوں کی الرجی، اور دمہ اور دیگر چھاتی کے امراض کی بڑی سبب بن رہا ہے۔ 2020تک کشمیر صوبے کے مختلف اضلاع میں روسی سفیدوں کے67ہزاردرختوں میں سے 26ہزار کو کاٹنے کی ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی لیکن عدالت کی جانب سے اس پر روک لگانے کے بعدپہلے سے موجود42000سفیدوں میں اب اور زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ماہر امراخ چھاتی ڈاکٹر مدثر قادری نے بتایا ’’ موسم بہار میں پولن اور دیگر الرجی کی وجہ سے مریضوںکی تعداد میں 10فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پولن دمہ اور چھاتی کے دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کی حالت بگاڑنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پولن بچوں اور عمر رسیدہ افراد کو کافی متاثر کرتا ہے اور الرجی سے متاثر مریضوں کی حالت کو بگاڑتا ہے۔