رئیس صِدّیقی
یہ کہانی اسکاٹ لینڈ کے ایک گائوں میں جنم لیتی ہے۔
ہوا یوں کہ فلیمنگFlaming) ( نام کا ایک کسا ن اپنا کھیت جوت رہا تھا کہ اس کے کان میں کسی کے زور زور سے چیخنے کی آواز پڑی۔ وہ اس طرف بھاگا جس طرف سے آوازآرہی تھی ۔ وہ جب اس آواز کے قریب پہونچا تو اسے کسی بچہ کی بچائو بچائو کی پکار سنائی دی۔ جب وہ دوڑ کر اس آواز کے قریب تر ہوا تو وہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک بچہ دلدل میں پھس گیا ہے۔ اس کے جسم کاآدھا دھڑ باہر نکلا ہوا ہے اور آدھا زمین کے اندر ہے۔ وہ بہت ہمت سے باہر نکلنے کی جد و جہد کر رہا ہے لیکن وہ باہر نہیں نکل پا رہا تھا۔
کسان فلیمنگ لپک کر اس بچہ کے پاس پہونچا اور اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ بچہ نے فوراً کسان کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اب کسان بچہ کو باہر نکالنے کے لئے اپنی پوری طاقت لگا رہا تھا ۔ ادھر بچہ بھی بڑی ہمت سے دلدل سے باہرآنے کے لیے جی توڑ کوشش کر رہا تھا ۔ آخر کار، کسان بچہ کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔بچہ کیچڑ میں لت پت تھا۔ کسان نے اپنے کندھے پہ پڑے ہوئے انگوچھے سے اسکا بدن صاف کیا اور اپنے ساتھ اسے گھر لے گیا۔
وقت کا سفر جاری تھا ۔
کسان کی بیوی نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور بہت ممتا سے اسکے جسم پر لگے کیچڑ کو ایک سفید کپڑے سے پوچھنے لگی ۔اس لڑکے کو ایسا لگا کہ جیسے وہ عورت کوئی اجنبی نہیں ،اسکی ماں ہو۔
کسان کی بیوی نے نہا نے کے لئے اسے گرم پانی دیا اور پہننے کے لئے اسے اپنے بیٹے الیکزینڈر (Alexander) کے کپڑے دیئے۔پھر گرما گرم کافی پلائی۔
اب بچہ کے چہرے پرمسرت آمیز جذبات نظر آرہے تھے ۔ کسان کے پوچھنے پراس بچہ نے اپنا نام بتایا ۔ ونسٹن چرچل۔
وقت کا سفر جاری تھا۔
دوسرے دن ،کسان کے چھوٹے سے گھر کے آگے ایک بہت بڑی اور مہنگی کالے رنگ کی کار آکر رکی۔ اس کار میں سے اپنے منھ میں سگار لگائے ہوئے برطانیہ کا ایک مشہور تاجر اورسیاست داںاُترا ۔ اُس نے اپنے سر سے ہیٹ اتارا اور بہت ادب و تعظیم کے ساتھ کہا۔
سر، میرا نام لارڈ رنڈولف چرچل (Lord Randolf Chirchill) ہے۔ ونسٹن میرا بیٹا ہے۔ آپ کی مہربانی اور مدد سے میرا بیٹا آج زندہ ہے ۔ میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔
میں آپ کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔میں آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں؟
اِس پر کسان بولا کہ میں نے جو کچھ کیا ، وہ انسانیت کے ناطے کیا۔ ہر انسان کو مصیبت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ آپ یہاں آئے ، میرے لئے یہی بہت عزت کی بات ہے۔
ابھی لارڈ چرچل التجا بھرے لہجہ میں کچھ اور کہنا ہی چاہتا تھا کہ کسان کے گھر سے اس کا بیٹا الیکزینڈر با ہر آیا۔ اس کو دیکھتے ہی لارڈ چرچل نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ آپکا بیٹا آج سے میری ذمہ داری ہے۔ میرا بیٹا جہاں پڑھے گا، وہیں آپکا بیٹا بھی پڑھے گا۔
وقت کا سفر جاری تھا ،
مختلف بڑے اسکولوں میں ونسٹن چرچل کے ساتھ کسان کا بیٹاالیکزینڈر فلیمنگ نے بھی تعلیم حاصل کی۔ بعدمیں ، الیکزینڈر فلیمنگ نے لندن کے سب سے بڑے اور مشہور، سینٹ میری میڈیکل کالج سے تعلیم مکمل کی۔ کچھ دن وہاں پڑھایا بھی۔
وقت کا سفر جاری تھا ۔
اب، ونسٹن چرچل (Winston Chirchill) برطانیہ میں ایک مدبر سیاست داں کی حیثیت سے مشہور ہونے لگا۔
یہی ونسٹن چرچل (Winston Chirchill) برطانیہ کا دو بار وزیر اعظم بنا۔بر طانیہ کی جمہوریت میں وزارتِ عظمٰی کا طویل عرصہ اسی کے حصہ میں آتا ہے۔اسی نے اپنے جنگی ہوا بازوں کے درمیان ایسی پر جوش تقریر کی کہ ہٹلر کی طرف سے برطانیہ پر جنگی حوائی حملہ کو ایسی شکست ملی کہ ہٹلر دوبارہ ہمت نہ کر سکا ۔
وقت کا سفر جاری تھا۔
الیکزینڈر فلیمنگ کو طبی سائنس میں تحقیق کرنے کا بھی بہت شوق تھا۔ اُس نے پہلی جنگ عظیم میں مشاہدہ کیا کہ بہت سے فوجی زخموں کے انفیکشن کی وجہ سے مر گئے۔ وہ کوئی ایسی دوا یا پینسلین (penicillin)کی کھوج میں مصرف تھا جو اینٹی بائیٹکس ) (Antibiotics کا کام کرے یعنی جسم میں موجود تمام انفیکشنس کو ختم کر دے ۔
وقت کا سفر جاری تھا۔
الیکزینڈر فلیمنگ جنون کی حد تک ، پہلی جنگ عظیم کے دوران انفیکشن سے ہونے والی موتوںکے خلاف پینسلین کی ایجادمیں رات دن لگا رہا۔ آخر کار، وہ پہلا اینٹی بائیٹکس پینسلین ایجاد کرنے والا میڈیسن سائنس داں بنا۔ اسکا با قاعدہ اعلان اس نے ۲۸؍ ستمبر 1928کو کیا۔
وقت کا سفر جاری تھا ۔
کہتے ہیں کہ ایک بار ونسٹن چرچل نمونیہ بخار کی وجہ سے بہت سخت بیمار پڑا اور وہ مرنے کے قریب تھا کہ الیکزینڈرنے اسے اینٹی بائیٹکس پینسلین دی اور وہ صحت یاب ہو گیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ الیکزینڈر فلیمنگ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران، تقریباً پچیس سے تیس لاکھ زخمی فوجیوں کو اپنی ایجاد کردہ اینٹی بائیٹکس پینسلین دے کر انہیں موت کے منھ سے بچا لیا تھا۔
وقت کا سفر جاری تھا۔
الیکزینڈر فلیمنگ کو انفیکشن سے نجات دینے والی زندگی بخش اینٹی بائیٹکس پینسلین جیسی اہم ایجاد کے لیے1945 میں نوبیل پرائز(Nobel Prize) سے نوازا گیا۔
وقت کا سفر جاری تھا ۔
کہتے ہیں کہ طبی تاجروں نے اینٹی بائیٹکس پینسلین کو اپنے تاجرانہ مفاد کی خاطر پیٹینٹ کرنے کے عوض میں اسے لاکھو ں ڈالر کی پیشکش کی تاکہ وہ اسکی تجارت سے نفع کما سکیں۔
اس موقع پر الیکزینڈر فلیمنگ شش و پنج میں پڑ گیا۔ وہ غریب کسان کا بیٹا تھا۔ اسے بھی ونسٹن چرچل کی طرح عیش و عشرت بھری زندگی کی آرزو تھی ۔ تاہم ، وہ زندگی کی اصل حقیقت پر غوروفکر کرنے لگاَ۔ اُس نے جنگ کے دوران درد سے کراہتی، زندگی کی بھیک مانگتی آوازیں سنی تھیں۔
فلیمنگ نے دونوں جنگوں کے دوران مشاہدہ کیا تھا کہ بعض سیاسی حکمرانوں کی انا اور طاقت کے مظاہروں کے سبب یہ کرئہ ارض کروڑوں ٹن بارود کے ڈھیر پر کمزور سانسیں لے رہی ہے اور ہتھیاروں کے تاجروں کے قسم قسم کے جان لیوا مہلک ہتھیار انسانی زندگی کو تار تار کرنے کے درپہ ہیں ۔
اس نے سوچا کہ ایسے موقع پر تمام ذی روح کی حفاظت کے لیے امن و سلامتی کی خصوصی تدابیر کی اشد ضررت ہے ۔
وقت کا سفر جاری تھا ۔
ایک دن الیکزینڈر فلیمنگ نے پر عزم فیصلہ کیااور یہ اعلان کرتے ہوئے تاجروں کی طرف دولت کی پیش کش ٹھکرا دی:
میں ایک کسان کا بیٹا ہوں۔ میرے والد کا کہنا تھا کہ انسانیت کی خدمت کرنا زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہونا چاہئیے ۔کسی نے میرے ساتھ ہمدردی اور نیکی کی۔مجھے پڑھایا لکھایا اور میں اس لائق بن گیا کہ مجھے نوبیل انعام سے نوازا گیا اور اس طرح مجھے آدم زاد کی خدمت کا بیش بہا قیمتی انعام ملا۔
اب بنی نوع کی خدمت جاری رکھنے کی میری باری ہے۔میری دلی تمنا ہے کہ یہ نیکی کا سفر ہر دور میں جاری رہنا چاہیے۔
اسطرح، ظالم اور مظلوم ،حق و باطل ، نیکی اور بدی ، انا اور خلوص، امن اور سکون، امید اور مایوسی،
خود غرضی اور ذاتی مفاد ، نا انصافی اور بے حسی کی کش مکش اور کربلائی جنگ و جدل کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے وقت کا سفر ازل سے آج بھی جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا !
���
ائرپورٹ روڑ، بھوپال
موبائل نمبر؛9810141528