مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
حج کا اصل توشہ دان تقویٰ کی کیفیت ہے ،جو ہمیشہ ساتھ رہنی چاہیے! جن لوگوں کو اللہ تبارک تعالیٰ نے حج بیت اللہ کرنے کی توفیق بخشی ہے ،وہ لوگ اللہ تعالی کے خصوصی مہمان اور انتہائی مبارکبادی کے مستحق ہیں۔ لیکن اس سلسلہ میں چند اہم اور ضروری باتیں ہیں جس کا پاس خیال رکھنا بے حد ضروری ہے جس کے بغیر حج کی برکتوں سے محرومی کا امکان باقی رہتا ہے۔اللہ تبارک تعالیٰ حجاج کرام کیلئے چند آداب بتائے ہیں ،اس کے عین مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ فرمایا : اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰت فَمَنْ فَرَضَ فِيْہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْہُ اللہُ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى وَاتَّقُوْنِ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ۔ (البقرہ آیت ۱۹۷)حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے،اسے خبردار رہنا چاہئے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزدنہ ہو۔ اور جو نیک کام تم کرو گے،وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفر حج کیلئے زاد راہ ساتھ لے جاؤ۔ اور سب سے بہتر زادِ راہ پر ہیز گاری ہے۔ پس اے ہوشمندو! میری نافرمانی سے پر ہیز کرو۔آیت مذکورہ بالا کے ذریعہ اللہ تبارک تعالیٰ حجاج کرام کو ۴ باتوں کی نصیحت فرماتا ہے کہ حالت احرام میں حاجی کو کس طرح رہنا چاہئے۔۱) حالت احرام میں میاں و بیوی کے درمیان تعلق زن و شو کو ممنوع قرار دیا گیا، ان کے درمیان گفتگو میں یہ احتیاط بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ وہ کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالیں جو شہوانی خواہشات کو ابھارتیں ہوں ’’رفث‘‘ کہتے ہی اس چیز کو ہیں کہ (الجماع والافعاش للمراۃ بالکلام) جماع کرنا یااس کے متعلق باتیں کرنا۔(۲) دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر وقت گناہوں سے بچتا رہے اللہ کی نافرمانی سے اپنے آپ کو بچائے رکھے اور یہ عمل پوری زندگی میں جاری رہے لیکن ایک حاجی کیلئے تو ظاہری و باطنی نافرمانیوں سے اجتناب کرنا بیحد ضروری ہے کیونکہ مناسک حج کا سارا عمل اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے ہےلہٰذ ہر وقت اللہ تبارک تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام بد سے ڈر کر ہمارے ایام حج گذریں۔’’فسوق‘‘ ایک ایسا جامع لفظ ہے جس میں (جمیع المعاصی کلھا) جس میں وہ تمام چھوٹے بڑے، ظاہر و پوشیدہ گناہ شامل ہیں،جس سے پر ہیز کرنے کی حجاج کرام کو تاکید کی گئی۔ علاوہ ازیں: (۳) تیسری چیز جس سے بچنے کی تائید فرمائی گئی وہ یہ ہے کہ لڑائی جھگڑے کی کیفیت حجاج کرام میں ہر گز پائی نہ جائے۔ حج بیت اللہ کا سفر حجاج کرام کیلئے ایک آزمائش سے کم نہیں ہے اس سلسلے کے لمحات بڑے صبر آزما ہوتے ہیں،گھر سے روانہ ہونے کے بعد سے لیکر گھر واپس لوٹنے تک صبر کا امتحان ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جنت و درجات جنت اللہ کی راہ میں صبرکرنے والے صابرین کیلئے مہیا کئے گئے ہیں شیطان تو چاہتا ہے کہ مومن بندوں کے درمیان جھگڑا ہو،چھوٹی چھوٹی باتوں میں آکر یہ ایک دوسرے کا گریبان پکڑیں اور اپنے اعمال صالحہ غارت کرلیں۔لہٰذ ایسے موقع پر جبکہ وہاں لاکھوں کا انسانی مجموعہ ہوتا ہے ہر ملک اور ہر خطہ سے لوگ وہاں جمع ہوتے ہیں،خواہ *لہذا اپنے ملک کا حج ٹرمنل ہویا جدہ کا ایر پورٹ بسوں میں چڑھتے وقت اترتے ہوئے،اپنی رہائش گاہوں میں قیام کے دنوں ، طواف کعبہ کے موقع پر،منیٰ میں قیام کے دوران یا عرفات میں ٹہرنے کے موقع پر جمرات میں کنکریاں مارتے ہوے غرض کہ ہر کٹھن لمحات کے موقع پر حجاج ایک دوسرے کا احترام کریں تکلیف نہ پہنچائیں سخت الفاظ اپنی زبان سے ہر گز نہ نکالیں یہاں تک کہ اپنے خادمین کے ساتھ بھی بھلائی سے پیش آئیں۔ دراصل سفر حج اہم تربیت ہے ایک مجاہدہ ہے،لہذا لڑائی جھگڑا تربیت نفس کو ضائع کر کے رکھ دیتا ہے صبر وتحمل کے ساتھ اس سے بچے رہنی کی پوری پوری کوشیش کرنی چاہئے۔(۴)اس سلسلے میں سب سے بڑی اور اہم بات جو ساری باتوں پر بھاری ہے اس کی طرف نشاندہی فرمائی گئی جس میں اس بات کو واضح انداز میں بیان فرمایا کہ حج بیت اللہ کے سفر میں تم اپنا توشہ دان ساتھ رکھو یعنی کھانے پینے کیلئے اس کے اخراجات تمہارے ساتھ ہونے چاہئے ورنہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانہ پڑے گا جسے اسلام پسند نہیں کرتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اصل توشہ دان کی طرف اللہ تبارک تعالیٰ حجاج کرام کو متوجہ فرماتا ہے جو ساری باتوں کا اصل ہے وہ یہ کہ ’’سب سے بہتر توشہ تو پر ہیز گاری ہے۔‘‘عرب کے اکثر لوگ خصوصاً اہل یمن کا دستور تھا کہ جب حج کی نیت سے گھروں سے نکلتے تو سفر خرچ ساتھ نہ لاتے اور اس کو توکل کے خلاف سمجھتے اور راستہ میں لوگوں سے بھیک مانگا کرتے۔ مسلمانوں کو اس غیر انسانی طریقہ سے روک دیا گیا او رحکم دیا کہ زاد راہ لے کر چلا کرو۔ کسی کی خدمت نہ کرسکو تو کم از کم دوسروں پر بوجھ تو نہ بنو۔ ساتھ ہی فرمادیا بہترین توشہ تقویٰ ہے جو سفر آخرت میں کام آتا ہے۔(ضیا القرآن)حقیقت یہ ہے کہ تقوی کی بنیاد پر ہی انسان صراط مستقیم کی راہ پر گامزن رہتا ہے قرب خدا وندی گناہوں سے بچ کر نکلنا بندگان خدا کا احترام اللہ کی فرمابرداری وغیرہ یہ صرف اور صرف تقوی والی زندگی سے ممکن ہے۔اصل خوبی خدا کا خوف اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے اجتناب اور زندگی کا پاکیزہ ہونا ہے۔ جو مسافر اپنے اخلاق درست نہیں رکھتا اور خدا سے بے خوف ہوکر برے اعمال کرتا ہے، وہ اگر زادِ راہ ساتھ نہ لے کر محض ظاہر میں فقیری کی نمائش کرتا ہےتو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ ذلیل ہوگا اور اپنے اس مذہبی کام کی بھی توہین کرے گا جس کیلئے وہ سفر کررہا ہے لیکن اگر اس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور اس کے اخلاق درست ہوں،تو خدا کے ہاں بھی اس کی عزت ہوگی اور خلق بھی اس کا احترام کرے گی، چاہے اس کا توشہ دان کھانے سے بھرا ہوا ہو۔ (تفہیم القرآن )لہذا تمام حجاج کرام کو چاہئے کہ وہ جہاں پر اب سامان سفر اہتمام کے ساتھ باندھ رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ خدا کا خوف بھی اپنے ساتھ رکھیں جس کے ذریعہ سے ان شاء اللہ تبارک تعالیٰ حج کی برکات اور اس کے مقصد کے حصول میں کامیابی ضرور مل سکتی ہے، حج کی قبولیت کا دارومدار اس کے مناسک کو کتاب اللہ و سنت رسولؐ کے عین مطابق ادا کرنے میں ہے جس کا خاص طور پر خیال رکھنا چائے ، مختصر یہ کہ اللہ جل شانہ کا ذکر ہمیشہ زبان پر رہنا دل ودماغ پر حاوی رہنا اور مرکز توحید کے اثرات اپنے عمل سے بھی ظاہر ہوں تو سمجھ لیجے کہ یہ حج مبرور ہے۔ ایک اہم چیز اپنے لیے اپنے اپنے والدین کی صحت اور خاندان والوں کے علاوہ اپنے ملک کی ترقی امن وسلامتی کےلیے اللہ تبارک تعالیٰ سے خوب دعائیں بھی کرتے رہنا چاہئے۔پھر جب مسجد نبوی صل اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے کا شرف حاصل ہو تو وہاں پر اپنی آواز کو انتہائی پست رکھتے ہوے بہت ہی ادب و احترام کے ساتھ ایک ایک لمحہ کی قدر کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی حیات طیبہ کے واقعات پر غور کریں ،خلفاء راشدین وصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمین وسلف صالحین کے طریقہ پر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرآداب کو ملحوظ رکھتے ہوے سلام پیش کریںاور جب تک مدینے میں رہنے کا موقع ملے قرآن کی تلاوت غور فکرو تدبر کےساتھ کریں اور مسنون ذکر وازکار کے ساتھ ساتھ درود وسلام کی کثرت اپنی زبان پر جاری رہے۔
(رابطہ۔9849099228)
[email protected]