رحیم رہبر
ایک ضروری اعلان
’’معروف فلسفی عفان کئی دِنوں سے لاپتہ ہے!‘‘
یہ خبر آج سے کوئی تیس برس قبل نشر کی گئی تھی۔ لیکن وہ فلسفی ہنوذ لاپتہ تھا۔ عفان خود میں ایک انجمن تھے۔ وہ ایسے فلسفی تھے جن کے پاس ہر سوال کا جواب تھا۔ وہ ایک چلتا پھرتا کُتب خانہ تھے۔ ’’حیاتِ آدم، اُن کی مشہور تصنیف تھی۔ نقطہ دانی میں اُن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
وہ ملاقات آج بھی میرے سوچ کے سمندر میں مؤجزن ہے۔ جب تیس برس قبل عفان سے ملنے میں اُن کے دولت خانے پر گیا تھا۔ آج بھی وہ لمحات میری آنکھوں کے سامنے ہیں جو میں نے اس فلسفی کے ساتھ گذارے تھے۔ وہ اُس وقت بھی اپنے کتب خانے میں لکھنے میں مصروف تھے۔ میں نے ان فلسفی سے پوچھا تھا۔۔۔
’’حضرت! عفان صاحب کیا لکھ رہے ہیں؟‘‘
’’زندگی۔۔۔!‘‘ انہوں نے دفعتاً جواب دیا۔
’’جناب میں سمجھا نہیں‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’’میں زندگی کا قرضہ چکا رہا ہوں‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ اُس کے بعد وہ پھر لکھنے میں محو ہوگئے۔
وہ فلسفی نان شبینہ کے محتاج تھے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُنکی خوبصورت بیوی خطیجہ اُ ن سے خفا رہتی تھی۔ مجھے اُن کے وہ الفاظ آج بھی اچھی طرح یاد ہیں۔ جب انہوں نے تھوڑی دیر کے لئے قلم روکا تھا۔
’’یہان چند سِکوں کے عوض قلم بِکتا ہے۔ زندگی نے قلم کو گروی رکھا ہے۔۔۔ یہاں علم پر جہالت کو ترجیح دی جاتی ہے!
یہاں مفکر کو دیوانہ سمجھاجاتا ہے۔۔۔ وقار، عزت، جناب ، معزز جیسے الفاظ یہاں اس شخص کے لئے بولے جاتے ہیں جس کے پاس روپیہ ہے، دولت ہے۔ دولت حاصل کرنے کے لئے اس دنیا کے لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے عالم و فاضلِ لوگ اَن پڑھ اور جاہل لوگوں سے زندگی کی بھیک مانگتے ہیں۔ اِس پر طرہ یہ کہ عالم انہی غنڈوں کے لئے قصیدے لکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں!‘‘۔
’’یہ اس قوم کا المیہ ہے‘‘۔
’’شکر ہے کہ آپ نے سمجھا‘‘۔
میرا جواب سُن کر انہوں نے ایک سرد آہ بھرلی۔
’’دنیا کو میرے فلسفے سے کیا لینا دیناہے؟‘‘ غالباً اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا یا میں خود غرض اور مکار تھا جس کی وجہ سے میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔
’’میں نے گھر جانا ہے۔ رات نے آپکے آنگن میں ڈیرہ ڈال دیا ہے۔‘‘
مُجھے رخصت کرنے کے لئے عفان فلسفی نے اپنا دایاں ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ میں نے اُن کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
وہ میری طرف دیکھتے رہے یہاں تک کہ میں اُن کے کُتب خانے سے باہر نکلا۔۔۔۔!
اِس مُلاقات کے چند سال بعد اُس فلسفی کی تخلیق ایک امیر شخص نے اپنے نام سے شائع کی، جس کو اس تخلیق میں شامل مواد کے ساتھ دُور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ کتاب ہزاروں کی تعداد میں بِک گئی۔ اس کے بعد اس کتاب کے دوچار ایڈیشن بھی چھپ گئے پر کسی نے بھی اس کتاب کے جُملہ حقوق پر سوال اُٹھانے کی جرأت نہیں کی!
اُس دن جب میں اپنا اکسٹھواں جنم دن منا رہا تھا تو مجھے کچھ اشیاء خریدنے کے لئے خُود بازار جانا پڑا۔ اس بھرے بازار میں ایک شاپنگ مال کے متصل لوگ دائرے کی شکل میں جمع تھے۔ اس دائرے کے اندر کیا ہورہا ہے؟ یہ جاننے کے لئے میں بھی اس دائرے میں شامل ہوا۔
دائرے کے اندر ایک ایسا بزرگ تھا جس کے لمبے بال تھے۔ اُس کی جھیل جیسی آنکھیں سُکڑ گئی تھیں۔ وہ رِدائے غم میں بھی ہنس رہا تھا!
اچانک میری نگاہیں اُس کے بائیں بازُو پر پڑ گئیں جس پر ’عفان‘ رقم تھا۔ میں چونک گیا۔۔۔!
���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ، بیروہ بڈگام
موبائل نمبر؛9906534724