سفرِ سعادت کی حکمتیں (قسط۔۲) ! عرش سے جن کو بُلاوا آگیا وہ جان لیں

File Photo

بشارت بشیر

بیت اللہ تو ایک شعائر اللہ ہے ،علامت ِ وحدت ہے ،مرکز ِ دِل اور مطلوب و مقصود تو صرف اللہ ہے اور مشیت الٰہی یوں بیان کی گئی ہے،ترجمہ:’’جو اللہ کے دامن کو مضبوطی سے تھامے گا وہی راہِ راست پائے گا ‘‘(آل عمران۱۰۱۔۳)۔

حاصل کلام یہ کہ مشتاقان ِدید کے قافلوں کے قافلے ارض مبارک کی جانب روں دواں ہیں ،منیٰ عرفات ،مزدلفہ میں قیام اور رمی جمار کا عمل ہمیں نفس کے بے لگام گھوڑے کو لگام دینے کچھ اختلافات کے باوجود اکٹھے رہنے اور ہر آن شیطانی شرور سے آگاہ رہ کر ان سے بچنے کا سامان کرنے کا درس زریں فراہم کرتے ہیں ،اس سفر میمون پر روانہ ہونے والوں کو یہ روانگی ہر لحاظ سے مبارک ہو اور ان کی واپسی بھی اس انداز سے ہو کہ سرتاپا سے ایمان کی انقلاب انگیز تبدیلیاں ان کی سیرتوں سے صاف جھلک جھلک رہی ہوں اور رمی جمرات کا عمل تو بس اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ شیطان جو ہمارا ازلی حریف ہے، اس سے بچائو کا ہر سامان کرنے کے ساتھ ساتھ تازیست اس کے خلاف نبر آزما رہیں گے اور واپسی پر پھر اس دشمن سے مقابلہ ہوگا ۔یاد رہے شیطا ن ِ مردود زاہد پہ زہُد کے طریقے سے ،عالم پر علم کے دروازے سے اور جاہل پر جہالت کے راستے سے چھپ کر وار کرتا ہے اور یوں اپنے اصل ہدف تک دل پسند طریقے سے پہنچتا ہے۔عالم عرب کے ایک نامور مفکر نے اس کے ہتھکنڈوں کو کس بھلے انداز میں بیان کیا ہے:

(۱)کہ یہ مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑے اور فتنے پیدا کردیتا ہے ،وہ بدگمانی پھیلاکربغض نفرت اور اختلاف پیدا کردیتا ہے(۲)وہ بدعات کو خوش نما بناتاہے ،وہ ’’جدید عبادت ‘‘کے نام پر مسلمانوں کو اُکساتا ہے۔(۳)تاخیر ۔وہ سنجیدہ اور با مقصد کام کرنے والوں کو تاخیر پر آمادہ کرتا ہے ،نیکی کرنے والوں سے کہتا ہے کہ بعد میں کرلینا ،وہ سستی اور کاہلی پر اُکساتا ہے۔(۴) تکبر و غرور، یہ شیطان کی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ جنت سے نکالا گیا ۔(۵)شک۔شیطان انسان کو شک میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ نیکی ترک کریں۔(۶)ڈرانا۔ اہل ایمان کو اپنے لشکروں ،پیرو کاروں اور ساتھیوں سے ڈراتا رہتا ہے ،وہ صدقہ،خیرات کرنے والوں کو ڈراتا رہتا ہے کہ تم نادار ہوجائو گے۔

شیطان کے طور طریقوں اور مکارانہ حربوں کے بارے میں علامہ ابن قیم ؒنے چھ تدریجی مراحل بیان کئے ہیں:٭ شیطان کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسان کفر اور شرک کرے ،اگر شکار مسلمان ہو تو پھر شیطان دوسرا مرحلہ اختیار کرتا ہے کہ وہ بدعت پر کاربند ہوجائے اور اگر مسلمان سنت پر سختی سے کاربند ہو تو شیطان اُسے گناہ کبیرہ پر اُکساتا ہے ۔اگر انسان اس سے بھی اپنے آپ کو بچالے تو شیطان مایوس نہیں ہوتا اب وہ اُسے چھوٹے گناہوںپر آمادہ کرتا ہے ،اگر وہ چوتھے مرحلے میں بھی اس کا شکار نہ بنے تو شیطان انسان کو زیادہ تر مباح کاموں میں مشغول رہنے پر اُکساتا ہے تاکہ وہ اہم اور سنجیدہ کاموں کو نظر انداز کردے۔چھٹا مرحلہ یہ ہے کہ وہ انسان کو افضل کے بجائے غیر افضل کام میں مشغول کردے مثلاًوہ سنت کا تو اہتمام خوب کرے لیکن فرض کو نظر انداز کردے۔نفلی نمازیں تو پابندی کے ساتھ ادا کرے مگر فرض نماز ترک کردے۔علامہ فرماتے ہیں:ہر عقل مند جانتا ہے کہ انسان پر شیطان تین جہتوں سے حملہ کرتا ہے:

٭ اسراف و زیادتی:انسان کو زائد از ضرورت سہولت حاصل کرنے پر اُبھارتا ہے ،اس کا توڑ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو مطلوب سہولیات مکمل طور فراہم کرنے سے بچے ،وہ غذا،نیند ،لذت ،راحت ہر ایک سہولت سے ضرورت کے مطابق ہی فائدہ اُٹھائے ،شہوات و ممنوعات سے دور رہے ،یوں وہ دشمن کی مداخلت سے محفوظ ہوجائے گا۔
٭غفلت:اللہ کو ہر وقت یاد کرنے والا گویا قلعہ بند ہوجاتا ہے ،جب انسان ذکر سے غفلت برتتا ہے تو قلعہ کا دروازہ کھل جاتا ہے ،دشمن اندر آجاتا ہے ۔
٭لایعنی امور میں مشغولیت :شیطان انسان کو لایعنی معاملات میں گھسیٹنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا انسان کو تمام فضول اور غیر تعلق امور سے الگ تھلک رہنا چاہئے۔ان سبھی ہتھکنڈوں اور شرور کو حدیث نبویؐمیں یوں سمیٹ لیا گیا ہے ۔’’شیطان فرزند آدم میں خون کی طرح دوڑتا ہے‘‘۔اُم المومنین سیدہ عائشہ ؒفرماتی ہے کہ آپؐ بہ کثرت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔’’اے دلوں کے پھیرنے والے !میرے دل کو اپنے دین اور طاعت پر ثابت و برقرار رکھ ‘‘۔(مسند احمد)

زائرین حرمین شریفین یہ بھی یاد رکھیں کہ حج نفوس انسان کی تربیت کا ایک عالمی مدرسہ ہے ۔اپنے نفس کو خوب صورت بنانے کا یہ زریں موقع ہے ۔یہ بخل سے دو ر رہنے اور انفاق و ایثار کا درس بھی دیتا ہے کیونکہ اس سف کے لئے اُسے مالی لحاظ سے بھی بہ طیب خا طر ایک قربانی کا اظہار کرنا ہوتا ہے ،اغرہ و اقارب سے ایک خاص مدت تک دوری اور سفر کی مشقت اُٹھا نے سے اُس کا عزم و ارادہ بھی مستحکم بن جاتا ہے اور اُسے صبر و برداشت کی تربیت بھی حاصل ہوتی ہے ۔میر و فقیر کے ایک ساتھ چلنے پھرنے اور سجدہ ریز ہونے سے مساوات و برابری کا درس بھی ملتا ہے اور تکبر کا بت ِپندار بھی پاش پاش ہوجاتا ہے۔اس مبارک سفر پر روانہ ہونے والے سعادت مند رخت سفر باندھ رہے ہیںلیکن خیال رہے کہ غرور و تکبر کہیں پاس بھی نہ پھٹکے، بیم و و رجا کے درمیان اس سارے عمل کی قبولیت کے لئے بہ دیدہ تر دست بہ دعا رہا جائے اور احباب و اقارب جو نمائشی دعوتیں سجاتے ہیں،اُن میں اپنا وقت صرف کرنے کے بجائے حج کے مناسک کی کلی تر بیت اور اس کے حکمت و فلسفہ سے آشنا ہونے کے لئے مستند علماء سے مستفید ہونے میں مشغول رہیں۔روانگی اور واپسی کے وقت کسی ایسے ریا کارانہ عمل کا ارتکاب کرنے کی کسی کو اجازت نہ دیں جو شریعت کی مطہر تعلیمات سے میل نہ کھاتا ہو۔جاتے وقت بے جا نعرے بازیوں اور تالیاں پیٹنے کے غیر شرعی افعال سے اجتناب ہو،اور اس موقع پر’’ وَنہ وُن‘‘ کی جس رسم قبیح کا کہیں کہیں اہتمام ہوتا ہے ایسا کبھی نہ ہونے دے،نہ واپسی پر خیر مقدم اور استقبال کے نام پر کسی ایسی حرکت کا ارتکاب ہو جو شیطان کی محبوب و مقصود تو ہولیکن رحمان کی رحمت سے دور لے جانے والی ہو۔اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو سوائے ماتم کے کیا کیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ اس مبارک سفر میں اپنے مولا کو پہچاننا اور اسی کو معبود ومسجود اور رازق و رزاق ماننے کے عہد کی تجدید کرکے ہی حاجی صاحبان کوواپس لوٹنا ہے اور اُس کے حدود شرعی کی پابندی کا اقرار ہی روحِ حج ہے ۔بندہ ٔحرص و ہوس اور مادہ ونفس نہیں بلکہ ہر ہر عمل سے مولا کی بندگی کا اظہار ہو ،نہیں تو لاکھوں اس سفر مبارک پر روانہ ہوتے ہیں لیکن حساس نظر وسنجیدہ فکر اقبال کو حرم ’’خالی ‘‘ہی نظر آتا ہے، کیوں !اُ سے تلاش اُن سعی و طواف کرنے والوں کی ایک بار پھر ہے،جو یہاں حاضری کا اعلان کرکے عہد بندگی کی تجدید کرتے ہوئے جا ں سے گزرنے کی قیمت پر بھی بندگی کا عہد نبھاتے رہیں۔ (ختم شد)
(رابطہ۔7006055300)