مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
حج بیت اللہ اسلام کے اہم فرائض میں داخل ہے، جس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماع امت ان تینوں سے ثابت ہے۔اس سلسلہ میں ارشاد ربانی ہے :اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ۹۶ۚ فِيْہِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِيْمَ۰ۥۚ وَمَنْ دَخَلَہٗ كَانَ اٰمِنًا۰ۭ وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۹۷ (سورۃ آل عمران ۹۶تا ۹۷)
’’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کیلئے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی اور تمام جہاں والوں کیلئے مرکز ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں،ابراہیم ؑکا مقام عبادت ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہوگیا۔ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکارکرے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘آیت کریمہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ کعبۃ اللہ کی کتنی بڑی اہمیت و عظمت ہے کہ سارے لوگوں کیلئے یہ پہلا مرکز توحید و ہدایت اور سراسر برکت کا مقام ہے،حضرت ابراہیمؑکا مقام عبادت بھی وہیں پر ہے، اللہ تعالیٰ کی ایک بے مثل عظیم نشانی زم زم کا کنواں یہیں پر ہے ، اس متبرک گھر کی خصوصیت یہ ہے کہ جو بھی اس کے اندر (حدودحرم میں ) داخل ہوگیا ،وہ امن پالیا، لہٰذ اب جو کوئی اللہ کے اس متبرک مقام تک پہنچنے کی طاقت رکھتاہو ،اُسے چاہئے کہ ضرور بہ ضرور اس کا حج کرے۔ ( یعنی ذوالحجہ کے ایام معین میں مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کی زیارت وطواف، وقوف عرفات اور دیگر مناسک’’سنت کے مطابق‘‘ ادا کرنا)۔ لہٰذ اب جو کوئی بھی اس حکم کی فرمانبرداری سے جی چرائے گا اللہ اس سے (بلکہ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے۔حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت ہے جس میں آنحضور ؐ کا ارشاد یوں آیا ہے، ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہےلہٰذ تم حج کرو ‘‘( بخاری و مسلم ) حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا،’’اسلام میں صیرورت نہیں ہے‘‘ (ابوداود) یعنی حج کی استطاعت کے باوجود حج کئے بغیر مر جانا نہیں ہے، اسی طرح حضرت عبدالرحمان بن سابطؓ کی روایت ہے جس میں نبی ؐ کا یہ ارشاد آیا ہے ’’جو شخص حج کئے بغیر مر گیا حالانکہ اس کے راستے میں نہ کوئی مرض، نہ کوئی ظالم حکمراں اور نہ کوئی واضح ضرورت حائل ہوئی، تو وہ چاہے یہودی ہوکر یا نصرانی ہوکر جس طرح چاہے مرجائے۔ اس ارشاد گرامی سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جو شخص،قوت و طاقت صلاحیت اور حالات کے ساز گار ہوتے ہوئے بھی اس عظیم فریضہ سے جی چراتا ہے تو مسلمان کی حیثیت سے مرے گا یا نہیں اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔درمنثور میں حضرت ابن عمر ؓ کے حوالے سے اور بھی زیادہ سخت وعید یں ہمیں ملتی ہیں۔الغرض مذکورہ بالا آیت کریمہ اور ارشادات نبیؐ سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ حج کی کتنی اہمیت ہے،لہٰذ ہمیں چاہئے کہ حج کی استطاعت پیدا ہوتے ہی اس فرض کو ادا کرنے میں عجلت سے کام کرنا چاہئے، جیسے نماز کا وقت شروع ہوتے ہی اذان کے ساتھ ہم مسجد کی طرف لپکتے ہیں ،اسی طرح حج بیت اللہ کی طرف بھی جلدی کرنی چاہئے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ اپنے بھائی حضرت فضلؓ سے یا حضرت فضلؓ اپنے بھائی حضرت عبداللہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہو، اسے جلدی کرنا چاہئے اسلئے کہ اسے بیماری آسکتی ہے،اس کی سواری گم ہوسکتی ہے یا اسے کوئی اور ضرورت پیش آسکتی ہے۔ (احمد، ابن ماجہ،بہیقی،دارمی)اسی طرح حضرت ابن عباسؓ سے ایک روایت ہے کہ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا ’’حج کی ادائیگی میں جلدی کرو اس لئے کہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ اسے کب کوئی رکاوٹ پیش آجائے۔ (احمد ابو داؤد)حضرت فاروق اعظمؓ کے نزدیک جو شخص باوجود استطاعت کے حج نہیں کرتا و مسلمان نہیں۔’’مسند سعید بن منصور میں ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا میرا قصد ہے کہ میں لوگوں کو مختلف شہروں میں بھیجوں وہ دیکھیں جو لوگ باوجود مال رکھنے کے حج نہ کرتے ہوں ،ان پر جزیہ لگادیں وہ مسلمان نہیں ہیں ( ابن کثیر ) اس بات پر تمام ائمہ کرام کا اجماع ہے کہ کسی بھی شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت حج کی فرضیت کیلئے پانچ چیزوں کی شرط لازمی ہے۔(۱)مسلمان کا ہونا ضروری، اس لئے کہ دین کے جتنے بھی احکام ہیں ان کے مخاطب صرف اہل ایمان ہی ہیں۔(۲ ، ۳) وہ عاقل و بالغ ہو کیونکہ جو بلوغ کو نہ پہنچے اور جن کی دماغی حالت ٹھیک نہ ہو وہ کسی شرعی حکم کے مکلف نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ نبی ؐ نے ارشاد فرمایا۔’’تین شخص مرفوع القلم ہیں یعنی کسی شرعی حکم کے مکلف نہیں ہیں، ایک سو یا ہوا یہاں تک کہ بیدار ہوجائے،دوسرا بچہ یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے، تیسرا مجنون حتی کہ وہ ہوش مند ہوجاے ‘‘ ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ۔(۴) وہ آزاد ہو یعنی وہ کسی کا غلام نہ ہو۔ (کیونکہ اس کے پاس اتنی استطاعت ہی نہیں رہتی کہ وہ خود سے کعبہ اللہ شریف تک پہنچ سکے) (۵) (پانچویں چیز یہ کہ ) خانہ کعبہ تک پہنچنے کی استطاعت۔ (حوالہ المغنی ج ۳ ص ۱۲۱ بحوالہ فقہ السنہ )لمحہ فکر محترم قارئین کرام ! قرآن حکیم و ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالوں سے ہمارے سامنے یہ بات صاف طور پر آرہی ہے کہ اسلام میں حج کرنے کی کتنی اہمیت ہے اور نہ کرنے سے کتنا خسارہ و بد نصیبی پیدا ہونے والی ہے۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے جو ہر وقت اہل ایمان کو نقصان پہنچانے کیلئے تیار رہتا ہے حج کے معاملہ میں بھی وہ دلوں میں طرح طرح کے وسوسہ ڈال کر بڑے بڑے مالداروں کو بھی اس اہم فریضہ سے غفلت میں ڈالدیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے درمیان بعض بھائی ایسے پائے جاتے ہیں جو حج کے معاملے میں ٹالم ٹولی کرتے ہوے بہانہ بناکر حج بیت اللہ کی فرضیت و سعادت کی نعمت سے محروم ہیں، رشتہ داروں، دوست احباب کی طرف سے توجہ دلانے کے باوجود حج بیت اللہ کا ارادہ نہیں رکھتے اور مختلف حیلے بناتے رہتے ہیں ایسے ہمارے بھائیوں کو اپنی غفلت سے فوری باہر نکلتے ہوئے اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ورنہ ہمارے پیارے نبیؐ کا وہ ارشاد جس میں یہ بات آئی ہے کہ جو لوگ استطاعت رکھنے کے باوجود حج کو نہیں نکلتے خواہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر جس طرح چاہئے مرجائے۔ نبی کریمؐ کایہ ارشاد ان لوگوں کیلئے ایک لمحہ فکر دے رہا ہے کہ حج فرض ہونے اور استطاعت حاصل ہونے پر بھی حج نہیں کرتے وہ سونچ لیں کہ اپنا خاتمہ کس گروہ کے ساتھ پسند کرتے ہیں! حالانکہ نبی کریمؐ نے اہل ایمان کو ایمان پر خاتمہ کی دعا سکھلائی ہے۔اَ للّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ۔ ’’اے اللہ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے تو موت دے ایمان پر موت دے۔‘‘ حقیقت یہ ہےکہ آدمی حج کے ذریعہ اپنی آخرت کو سنوار لیتا ہے کیونکہ حج بیت اللہ کے موقع پر حجاج جو کچھ بھی دعا مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے اور حاجی کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے مہمان کی سی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے وفد (مہمان ) ہیں۔اگر وہ اس سے دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی دعا قبول فرماتا ہے اگر اس سے بخشش طلب کرتے ہیں تو وہ انہیں بخش دیتا ہے۔ (نسائی،ابن ماجہ )یہ بات عین حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کسی کی بھی بخشش فرما دیا، وہ بڑا کامیاب آدمی ہے۔ لہٰذا اپنی بخشش طلب کرنے کیلئے حج جیسے فرض کی ادائیگی کیلئے ہمیں فکر مند ہوجاناچاہئے اور جن لوگوں سے اب تک جو کچھ غفلت ہوچکی ،اس سے جلد باہر نکل کر حج بیت اللہ کیلئے تیاری کرنی چاہئے۔ کوشیش کرنا ہمارا کام ہے اسباب کو پیدا کرنا اور کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اللہ کے ذمہ۔حج کا اصل توشہ دان تقویٰ کی کیفیت ہے ،جو ہمیشہ ساتھ رہنی چاہیے! جن لوگوں کو اللہ تبارک تعالیٰ نے حج بیت اللہ کرنے کی توفیق بخشی ہے ،وہ لوگ اللہ تعالی کے خصوصی مہمان اور انتہائی مبارکبادی کے مستحق ہیں۔ لیکن اس سلسلہ میں چند اہم اور ضروری باتیں ہیں جس کا پاس خیال رکھنا بے حد ضروری ہے جس کے بغیر حج کی برکتوں سے محرومی کا امکان باقی رہتا ہے۔(جاری)
رابطہ۔9849099228
[email protected]