محمد ہاشم القاسمی
سلطنت ِ مغلیہ کے زوال کے بعد اسلام کی ڈوبتی نیّاکو پار لگانے کے لیے ہندی مسلمانوں کی دینی، علمی و فکری رہنمائی کے لئے جن بندگانِ خدا نے توجہ اور فکر کی، ان اکابرین کی روحانی بصیرت میں مدارس ہی ایک ایسا فکری کارخانہ تھا، جن کا باز آباد کاری تحفظ اسلام کے لئے تسلسل کے ساتھ افرادی قوت فراہم کرنے کا واحد ذریعہ تھا، جو اسلام کی ترجمانی اور دفاع کا فریضہ پوری قوت اور دینی غیرت وحمیت کے ساتھ انجام دینے کے اہل تھے ،اور یہ مدارس حکومت کے تعاون کے اثر سے آزاد ہونے کے باعث پُر یقین تھے کہ کوئی طاقت ان کے ضمیر کا سودا نہیں کر سکیں گے، اُسی جذبہ کے تحت دارالعلوم دیوبند اور مختلف مدارس کا قیام عمل میں آیا، چونکہ اس کوشش کے پیچھے ان اکابرین کا بھر پور اخلاص کا جذبہ کار فرما تھا، اس لئے یہ پودے تناور ہوتے گئے اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی اس کے اثرات محسوس کئے جانے گئے۔
برِصغیر ہند و پاک میں خاص طور پر 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد حکمران برطانوی سامراج نے مدارس ومساجد کو ویران کرنے کی کوشش کی تو یہی علماء اور صوفیاء آگے بڑھے، انہوں نے مدارس و مساجد کو آباد کیا اور صاحبِ حیثیت اور با ثروت مسلمانوں نے انہیں مالی اعانت کی۔
ان دونوں طبقوں کے جہاد بالنفس اور جہاد المال کی بدولت فروغ علم دین اور اشاعتِ اسلام کا کام جاری رہا ۔ جبکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی بقا کا واحد ذریعہ مدارس اسلامیہ ہی ہیں۔ مدارس سے مساجد آباد ہیں، پوری دنیا میں دعوت و تبلیغ کا نظام مدارس کے دَم سے قائم ہے۔ مدارس سے ہی ملی جماعتیں اور تنظیمیں ہیں، مدارس سےہی یونیورسٹیوں اور کالجوں تک میں دین زندہ ہے ۔ بغور دیکھا جائےتو اس ٹوٹے پھوٹے نظام کے ساتھ بھی مدارس اسلامیہ ملت کا سب سے بڑا اور قیمتی اثاثہ ہیں ۔ جس دن ملک میں ان مدارس کا وجود ختم ہوا تو کفر والحاد کی آندھیوں سے اپنی نسلوں کو محفوظ رکھ پانا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ ہر محاذ پر اسلام دشمن طاقتوں کی آنکھوں میں مدارس اسلامیہ شہتیر کی طرح چبھ رہے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سوسال میں ان مدارس نے درس و تدریس کا کام جاری رکھا ، جب کہ حالت فقر و فاقہ میں مدارس اسلامیہ کے علماء کرام اپنا ایمان بھی بچاتے رہے اور اپنی ذات سے وابستہ سیکڑوں افراد کے ایمان کی سر حد پر جواں مردی کے ساتھ پہرے بھی دیتے رہے۔
دنیا کا سب سے مشکل ترین کام دوسرے کی جیب سے مال نکال کر بے یار و مددگار ملت اسلامیہ کے نونہالوں اور مستقبل کے رازی و غزالی کے لیے کام کرنا ہے۔ یہاں سب سے پہلے اپنے نفس کو مارنا پڑتا ہے، جذبات کو دفنانا پڑتاہے، غصہ کو پینا پڑتا ہےاور اپنی غیرت کو کچلنا پڑتا ہے۔ تب جا کر اس سلسلے میں اہل مدارس عوام کو ذمہ دار مانتے ہوئے شکوہ کرتے ہیں کہ سفراء مدارس کی خستہ حالی کے ذمہ دار مسلم عوام ہیں۔ لیکن دراصل ان کی اس بد گمانیوں کی اصل وجہ کچھ غیر مصدقہ مدارس کے سفرا کی بد دیانتی اور بے اصولی رہی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر عوام نہ صرف سفراء مدارس کے قدر دان ہیں بلکہ تاجروں کی بڑی تعداد عملی طور پر بھی ہر زمانے میں مدارس، مکاتب، مساجد، مقابر، دینی مجالس کے تعاون میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہے اور سچائی یہ ہے کہ ہندوستان میں تمام رفاہی کام انہی مسلم تاجروں، دنیا داروں اور خیر خواہوں کی ہی مرہون منت ہیں۔
دیانت و امانت کے سلسلے میں اہل مدارس کی طرف سے اس غلط فہمی کے سلسلے میں راقم السطور ایک با ت اکثر عرض کیا کرتا ہے کہ یہ حقیر سال کے شب و روز سفر میں گزارتا ہے اور یہ سفر اکثر اہل مدارس کے حکم پر مدرسوں میں حاضری کے عنوان سے ہی ہوتے ہیں۔ کسی مدرسے میں حاضری ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر ایک پلاٹ لے کر چھپر یا ٹین کے شیڈ ڈال کر شروع کردیا گیا ہے، دوسری بار حاضری ہوئی تو معلوم ہو تا ہے کہ بلڈنگ بن گئی ہے اور دوسرے پلاٹ کا بیعانہ دے دیا گیا ہے، تیسری بار حاضری ہوئی تو معلوم ہوتا ہے کہ استنجا خانہ اور مطبخ وغیرہ بن گئے ہیں، غرض سینکڑوں میں کوئی ایک دو مدرسے ایسے ہوتے ہیں، جو سالوں سال اپنی حالت پر باقی رہتے ہیں۔مسلسل بڑھتی مہنگائی کے دور میں سالانہ اخراجات پورا کرنے کے بعد، مدرسوں میں یہ ترقی اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ مدرسے میں جو چندہ دیا جاتا ہے وہ دیانت کے سا تھ لگایا جاتا ہے۔
رمضان المبارک کے پُر بہار موقع پر صاحب ثروت، علم دوست اور دینی درد رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ سفراء مدارس کا احترام کریں، سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکیں، تمام مکاتبِ فکر کے دینی مدارس کے سفراء کے ساتھ جو حقیقی معنوں میں مدارس اسلامیہ کی خدمت کرتے ہیں، مہمانوں جیسا سلوک کریں۔ تجربہ شاہد ہے کہ جب تک آپ مدارس میں چندہ دیتے ہیں سفراء آپ کے یہاں حاضری دیتے ہیں، کل دینا بند کردیں کوئی نہیں جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ اپنی زکوٰۃ خود ہم تک پہنچا دیتے، لیکن سستی اور کوتاہی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پاتا۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے بیس پچیس سال ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے مزید مشکلات بھرے ہو سکتے ہیں۔ بہرحال ہر صاحب ایمان کو معلوم ہے کہ اسلام کے روز اول سے آج تک متعدد اوقات میں مختلف طریقوں سے ظاہری اور باطنی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی ناگفتہ بہ حالات کا مسلمانوں کو سامنا رہا ہےاور مسلمانوں و علماء نے ان کا مقابلہ کیا اور حالات سے نکل کر آگے بڑھتے رہے۔ آج ہندوستان کے مسلمان مسائل کے شکار ہیں لیکن مجموعی طور پر دنیا بھر میں دین اسلام کا بول بالا ہے۔ واضح رہے کہ مدارس کے لئے عوام کا چندہ یا مسلمانوں کے سماجی اور رفاہی کاموں کے لئے مسلمانوں کے صدقات، عطیات اور زکوٰۃ ہی اصل ذرائع آمدنی ہیں، جس کی وجہ سے یہ تمام ادارے اور تنظیمیں اپنی خدمات انجام دے پاتے ہیں۔ ہمیں یہ اچھی طرح سے سمجھنا پڑے گا کہ مسلم مخالفین مائکرو پلانگ کے ساتھ منصوبہ بندی کے ذریعہ مدارس اور مسلمانوں کے غیر سرکاری اداروں کے ذرائع آمدنی پر مستقل ضرب کاری کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اسلامی تشخصات کو نقصان پہنچانے کی سعی سیاسی پارٹی ہی نہیں بلکہ خود حکومت کی طرف سے اعلانیہ طور پر کی جا رہی ہے۔ مسجدوں کو صنم خانوں میں بدلنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے، اسلامی شعار کے خلاف آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں، شہروں، محلوں اور سڑکوں کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں، ملک کی تاریخ از سر نو لکھی جا رہی ہے۔ افسوس کہ جس قوم نے ملک کی آزادی کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں، اُن سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ مانگا جا رہا ہے، علماء ومدارس جو آزادی کی لڑائی میں پیش پیش تھے، اُن کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کئے جا رہے ہیں ۔ اس لئے یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں مدارس کی جو ضرورت واہمیت تھی، آج اس سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے مدارس کا تحفظ، ان کا استحکام اور ان کو مفید تر بنانے کی کوشش پوری ملت اسلامیہ ہند کا فریضہ ہے۔
(رابطہ ۔9933598528 )
[email protected]>