ان دنوں ۲؍اکتوبرکوسعودی سفارت خانہ استنبول میں وحشیانہ اندازمیں قتل ہونے والےسعودی صحافی جمال خاشفجی کی خوف ناک خبرنے تہلکہ مچایا ہوا ہے۔غورطلب بات یہ ہے کہ امریکااوراس کے ساتھ پوری مغربی دنیاکیوں تڑپ اٹھی ہے اورمشرق و مغرب میں اس کی گمشدگی کی دہائیاں کیوں دی جارہی ہیں؟لگتاہے کہ’’عرب اسپرنگ ‘‘کے دوسرے حصے کاآغازہوگیاہے جس سے قصرسفیدکافرعون اوراس کے مغربی ہم نواؤںنے فیصلہ کرلیا ہے کہ امریکی ورلڈ آرڈرکوایک نئے اندازسے آگے بڑھانے کاوقت آن پہنچاہے جس کیلئے جمال خاشفجی کے لرزہ خیزقتل کواستعمال کرنے کافیصلہ کرلیاگیا۔یہاں سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ دو ہفتے قبل آخرٹرمپ کوکوئی لگی لپٹی رکھے بغیر یہ کڑواسچ بولنے کی کیاضرورت پیش آگئی کہ سعودی بادشاہت امریکی بیساکھیوں کے بغیردوہفتے بھی نہیں چل سکتی،ٹرمپ کی یہ بڑھک کسی مذاق پرنہیں بلکہ اس صداقت پرمبنی تھی جسے ساری دنیا کے علاوہ خودسعودی بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ ورلڈآرڈرکے خالق امریکی یہودی ہمیشہ ایسےتارکینِ وطن کی ٹوہ میں رہتے ہیں جن میں اوپر جانے کے جراثیم اورمستقبل میں ان کے آلۂ کاربن کران کے مفادات کی تکمیل میں کام آسکتے ہیں توان کوفوری مارک کرلیاجاتاہے اوران پرنوازشات کاایساسلسلہ شروع ہوجاتاہے کہ ان کامحبوب ان کے چنگل سے نکل نہیں سکتا۔ خاشفجی جب بزنس ایڈمنسٹریشن کی اعلی تعلیم کیلئےامریکاپہنچے توامریکی صیادکوموٹی موٹی آنکھیں اورفربہ جسم و جاں کے حامل،عام عربی شہزادوں سے الگ تھلگ شخصیت جوخالص عربی نژادبھی نہ تھے،عرب حکمرانوں کے حلقے میں ان کے دادا،والداوردوسرے افرادِ خاندان کی بہت تکریم بھی تھی اورترکی،عربی اورانگریزی فرفربولنے والاشکارکہ’’جس کوپیاچاہے سوسہاگن‘‘ایساپسندآیاکہ فوراً امریکی یعنی یہودی اشرافیہ کی نگاہوں نے اپنے ہدف کی تکمیل کیلئے منتخب کرلیااور’’امریکی پیا‘‘کی مہربانی اورعنایات سے جمال تیزی سےکئی معروف عرب اخباروں کے رپورٹر،پھرایڈیٹراورپھرچیف ایڈیٹرکے اعزازات کے اہل ٹھہرے اورسعودی بادشاہت میں ان کی دوستیوں کے چرچے شروع ہوگئے۔
خاشفجی پرنٹ میڈیاسے الیکٹرانک میڈیا میں آئے تواپنے حلقہ ٔاحباب اورآلِ سعودمیں حکمران سطح کے درجنوں شہزادوں میں ان کی رسائی عام ہوگئی۔جمال کے مربّیوں کویہ علم تھاکہ اُن کاتراشیدہ ہیرابالآخرایک دن ان کے مفادات کے تاج میں ہی کام آئےگااوروہ دن اس وقت آیاجب شاہ سلمان سعودی فرمانروابن گئے، تواگلے فرمانرواکیلئےمجوزہ بادشاہی نظام کے تحت جو چند نام شاہ سعود کے بیٹوں میں زندہ تھے،ان کی عمریں 85 برس سے اوپرتھیں، اس لئے شاہ سلمان کے فرزندوں نے فیصلہ کیاکہ اب تختِ شاہی اگلی نسل کومنتقل ہوناچاہیے ،سو انہوں نے اپنے والدِ محترم کو صورت حال سے آگاہ کیااورشاہ نےمجوزہ شاہی نظام کوپس ِپشت ڈالتے ہوئے اپنے سب سے چھوٹے بیٹےمحمد بن سلمان کواپنا ولی ٔعہد مقررکردیا۔ ولیٔ عہد محمد نے آتے ہی بھانپ لیا کہ ان کی والد کی کابینہ میں کون کون لوگ ایسے ہیں جو ان کی تاج پوشی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں ،چنانچہ انہوں نے ایک گرینڈ پلان تیارکیا اور ان تمام شخصیات کواچانک ایک شب گرفتارکرکے ان سےپوچھاکہ انہوں نے اتنی بے بہا دولت کہاں سے اکٹھا کی؟ان کے اثاثے ان کی آمدنی سے اتنے زیادہ کیسے ہوگئے؟ان کے فلاں فلاں سرکاری ٹھیکوں میں کرپشن کے جوالزامات ہیں،ان کویاتوغلط ثابت کیاجائے یاپھر قانون خوداپناراستہ بنا لے گا۔یادرہے کہ ان دنوں یہ خبربھی عام ہوئی کہ ولیٔ عہدکے اس پلان کی تیاری میں قصرسفیدکےفرعون ٹرمپ کایہودی نژاددامادجیراڈکوشنرکادماغ کارفرماتھاجوان دنوں ولی عہدکے خصوصی مہمان کے طورپراس کے ذاتی محل میں قیام پذیرتھا۔ولی عہدکے ان انقلابی اقدام نےسعودی عرب کے نوجوانوں میں پہلی مرتبہ بڑی پذیرائی حاصل ہوئی جس کی وجہ سے پہلی مرتبہ بادشاہت میں مجوزہ نظام سے ہٹ کرہونے والی تبدیلی ولی عہدکی تبدیلی سے سب کی توجہ ہٹ گئی کیونکہ اس عمل سے سعودی خزانے میں بے بہادولت بھی جمع ہوگئی اورولی عہدنے اس کے فوری بعد سعودی عرب میں ایک اورانقلابی ترقی کااعلان کرتے ہوئے ایک اورایسے نئے شہرکی تعمیرکا اعلان کردیاجو مجوزہ سعودی مذہبی پابندیوں سے آزادسیاحتی آلائشوں سے مزین ہوگا،جہاں دنیابھر کے سیاحوں کووہ تمام آسائشیں میسرہوں گی جوامریکا اور مغرب کے نائٹ کلبوں اورکیسینومیں میسرہیں۔
ولی عہدنے جب سعودی نوجوانوں میں اپنی پذیرائی دیکھی توانہوں نے پھرایک اورانقلابی قدم اٹھانے کافیصلہ کیاکہ تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنادانش مندی نہیں۔سعودی بادشاہت میں یہ پہلاموقع آیاکہ اکتوبر2017میں سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز اورروسی صدر ولادی میر پوٹن نے ماسکو میں اپنی سربراہ ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کومزید مضبوط بنانے کے عزم کانہ صرف اظہارکیابلکہ اربوں ڈالرکےاسلحہ خریداری کے سودوں پربھی دستخط کیےگئے، پھرجاپان گئےاورچین کے صدرشی جن پنگ کے مہمان ہوئے۔ آل سعود کی ان ملاقاتوں کے پیچھے نوجوان ولی عہد کاہاتھ تھا۔سعودی حکومت نے توازن برقراررکھنے کیلئے ٹرمپ کوبھی سعودی عرب کے دورے کی دعوت دی اورٹرمپ نے بھی اپناپہلاغیر ملکی دورہ سعودی عرب سے شروع کیا ،جہاں بشمول پاکستان مسلم دنیاکے اکثرتاج دارآکرجمع ہو ئے اورامریکیوں اور سعودیوں کواپنی طرف داری اورجاں نثاری دکھانے کااہتمام کیا۔امریکاکے ساتھ 250/ارب ڈالر کے اسلحہ خریداری کے سودوں پردستخط ہوئے جس سے امریکی اسلحہ سازی کے کارخانے جودیوالیہ ہونے جارہے تھے،دوبارہ چلنے شروع ہوگئے لیکن اس کے باوجودامریکانے اپنے دیرینہ اور وفادار کھرب پتی دوست کواس نئی راہ کامسافر بنتے دیکھاتوچونک اٹھااورسعودی فرمانراؤں کو ان کااصل چہرہ دکھانے کافیصلہ کرلیا۔
ہم سب کومعلوم ہے کہ امریکااوربرطانیہ نے آڑے وقتوں میں کام آنے کیلئے اپنے پاس کئی ایسے مہرے رکھے ہوتے ہیں۔ان حالات میں امریکی آقاؤں نے خاشفجی نے اپنے قلم کوخوب فعال کرلیا، حالانکہ ان کے تعلقات ولی عہد محمد اوردوسرے اراکین سلطنت کے ساتھ بہت دوستانہ اورگہرے تھے لیکن سی آئی اےکی ایماءپرجمال نے سعودی حکومت پرتنقیدشروع کردی اورپھرجب امریکیوں نے اس کوخبردارکیا کہ اس کے خلاف ایکشن لیاجانے والاہے تواس نے گزشتہ برس چپکے سے امریکاکی راہ لی۔ جمال امریکی شہری بھی تھے، وہاں جاکرانہوں نے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں ولی ٔعہد محمد کے خلاف مسلسل کالم لکھے اورسعودی عرب کی یمن پالیسی کے خلاف بھی شدیدتنقیدکی۔چونکہ وہ آل سعود کے خفیہ اسرارورموزسے آگاہ تھے اس لئے کہاجاتاہے کہ سعودیوں نے اس کو ٹھکانے لگانے کافیصلہ کرلیا۔
سوال یہ ہے کہ اگراب سعودی حکومت کوبراہِ راست کوئی خطرہ ہواتو کیا پاکستان اپنے اس وعدے کوپوراکرنے کی پوزیشن میں ہوگاکہ جس میں سعودی حکومت کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ وہ اپنے دفاع اورسلامتی کیلئے پاک فوج پرانحصار کرسکتی ہے؟عالم اسلام میں واحد جوہری ملک پاکستان ہے اوراس کے عدم استحکام کیلئے بھی الطاف جیسے اوربھی کئی مہرے ان کے اشارہ ابروپرکام کرنے کیلئے ہمہ وقت موجودہیں۔کیاان حالات میں پاکستان ایک نئےامتحان کیلئے تیار ہے؟اسی طرح اس خطے میں ایک دوسرااسلامی ملک جو روبہ ترقی ہے اور جس کی معیشت قابلِ رشک حد تک پھل پھول رہی ہے اور ساتھ ہی اس کی دفاعی صنعت بھی فروغ پارہی ہے،اس برق رفتارترک گاڑی کوروکنے کیلئےاردگان کوٹھکانے لگانے کا کھیل توہم ملاحظہ کرچکے ہیں کہ کس منظم طریقے سے فوجی بغاوت کے ذریعے اس کوٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی جس کووہاں کے عوام نے بروقت سڑکوں پرآکر ناکام بنایا۔فتح اللہ گولن کوابھی تک امریکیوں نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے ،حالانکہ ترکی کی ایک عدالت نے اس امریکی پادری کورہاکرکے واپس امریکاجانے کی اجازت دے دی ہے جس کا مطالبہ ایک عرصے سے ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کر رہی تھی۔
یادرہے کہ گزشتہ دوسالوں میں یورپ میں رہنے والے تین سعودی شہزادے لاپتہ ہوچکے ہیں۔یہ تینوں شہزادے ماضی میں سعودی حکومت کوتنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اوران کی گمشدگی کے بارے میں ایسے شواہد ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اغواکر کے سعودی عرب لے جایا گیا اور اس کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔12 ؍جون 2003 کوشہزادہ سلطان بن ترکی بن عبدالعزیزکوان کے رشتے دار سوئٹزرلینڈ کےشہر جینوا سے باہرایک محل لے جایا گیاجوسعودی عرب کے سابق حکمران شاہ فہدکی ملکیت ہے، یہیں سلطان بن ترکی بن عبدالعزیزکو شاہ فہد کے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز بن فہد نے ناشتے پر مدعو کیا،جہاں سے عبدالعزیز بن فہد نے سلطان بن ترکی سے درخواست کی کہ وہ سعودی عرب واپس لوٹ جائیں تاکہ سعودی حکمرانوں کے خلاف ان کی جانب سے کی گئی تنقیداورخدشات کودورکیاجاسکے مگرسلطان بن ترکی نے یہ درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا۔اس موقع پر عبدالعزیزبن فہد فون کرنے کے بہانے سے کمرے سے باہرگئے اورکمرے میں موجود دوسرے فرد،سعودی عرب کے وزیر برائے اسلامی امور شیخ صالح الشیخ بھی باہرچلے گئے۔ان دونوں کے جاتے ہی چند افراد کمرے میں داخل ہو گئے اورسلطان بن ترکی کوزدوکوب کیااوراس کے بعد انھیں ہتھکڑی پہناکران کی گردن میں انجکشن لگادیا۔اس بے ہوشی کی حالت میں سلطان بن ترکی کوجینوا ایئر پورٹ لے جایاگیا جہاں سے انھیں جہازپرسوارکرادیاگیا۔یہ تمام قصہ سلطان بن ترکی نے اغواہونے کے کئی سال بعد سوئس عدالت میں بیان کیا تھا۔اُس وقت سلطان بن ترکی کیلئے کام کرنے والوں میں سے ان کے افسربرائے اطلاعات ایڈی فریرا نے بعدمیں بتایا کہ جس روز سلطان ناشتے کیلئے گئے تھے،وہ دن بتدریج مشکل ہوتاچلا گیا۔ ہم سلطان کی سیکورٹی ٹیم سے رابطہ کرنے میں ناکام رہے جس سے ہمیں شک پڑا کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے شہزادے سے رابطہ کرنے کی باربارکوشش کی لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔ اسی دن دوپہرمیں دوغیرمتوقع لوگ سلطان بن ترکی کے ہوٹل پہنچے۔سوئزرلینڈ میں متعین سعودی سفیراورہوٹل کے جنرل مینجرہمارے پاس آئے اورکہاکہ کمرے فوراًخالی کردیے جائیں کہ شہزادہ سلطان اب ریاض چلے گئے اورہماری اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔شہزادہ سلطان بن ترکی نے ایسا کیاکردیاتھاجس کی وجہ سے ان کے اپنے خاندان والوں نے انہیں نشہ آورانجکشن لگایااوراغواکر لیا؟شائداُن کاقصوریہ تھاکہ ایک سال قبل شہزادہ سلطان علاج کرانے کی غرض سے یورپ آئے تو وہاں پہنچ کر انھوں نے سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کاذکرکیااورشاہی خاندان کے افرادپربدعنوانی کے الزامات لگائے اورملک میں مختلف نوعیت کی تبدیلیوں کامطالبہ کیا۔
1932ء میں شاہ عبدالعزیز نے سعودی عرب کی بنیاد ڈالی اوراس وقت سے اب تک ملک میں خاندانی بادشاہت قائم ہے اورملک میں اختلاف رائے کے اظہارکوبرداشت نہیں کیاجاتا۔شہزادہ ترکی بن بندرسعودی پولیس میں اہم مقام رکھتے تھے اورسعودی خاندان پرنظررکھناان کی ذمہ داری تھی لیکن وراثت کے معاملے پرجھگڑے کی وجہ سے ان کوجیل جاناپڑاجہاں سے انھیں 2012 میں رہائی ملی۔ رہائی کے فوراً بعد وہ پیرس چلے گئے جہاں سے انھوں نے انٹرنیٹ پریوٹیوب کی ویب سائٹ پر سعودی عرب میں تبدیلیوں کی مطالبے کی ویڈیوزشائع کرنا شروع کردیں۔
(بقیہ جمعرات کے شمارے میںملاحظہ فرمائیں)