ہفتہ عشرہ قبل سعودی عرب میں اچانک شہزادوں اور شاہی خاندان کی بعض اہم شخصیات کی گرفتاری‘ لبنان اور یمن کے خلاف سعودی حکومت کے اعلان جنگ‘ ایران کے حمایت یافتہ حوثی جنگ بازوں کی طرف سے ریاض پر مبینہ ناکام میزائل حملے اور اس کا انتقام لینے کی وارننگ سے پوری دنیا کچھ دیر کے لئے ہی سہی سکتے میں آگئی۔ سعودی عرب کے حالات ویسے بھی کچھ اچھے نہیں چل رہے۔ معاشی بحران، بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ اور ایک اسلام مملکت کو بتدریج اعتدال پسندی کے نام پر مغربی تہذیب سے ہم آغوش کرنے کے لئے سعودی ارباب اقتدار مجبور دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کے دورۂ امریکہ کی ’’برکت‘‘ سے قطر سے سفارتی تعلقات کو قطع ہوچکے ہیں ا ور ایک طرف یمن، لبنان، ایران سے بیک وقت مقابلہ دوسری طرف ملک کے اندرونی حالات پر قابو پانا موجودہ شاہ اور ولی عہد کے لئے سب سے زیادہ آزمائشی مرحلہ ہے۔ سعودی عرب کے دورہ پر آئے ہوئے لبنانی وزیر اعظم سعد حریری کے اچانک استعفیٰ نے حالات کو کچھ اور ہی موڑ دے دیا۔ یوں تو لبنان اور ایران دونوں نے ہی یہ الزام عائد کیا تھا کہ حریری‘ سعودی عرب میں نظر بند ہیں تاہم مصدقہ اطلاعات کے مطابق وہ متحدہ عرب امارات کے دورہ پر ہیں۔ حریری سنی مسلمان ہیں اور عرصہ دراز سے سعودی عرب کے حلیف ہیں۔ وہ مسلح شیعہ گروپ حزب اللہ کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت کی قیادت کررہے تھے ۔حزب اللہ کے ساتھ ایران کے قریبی روابط ہیں بلکہ بہت سارے معاملات میں اسے ایران کی سرپرستی حاصل ہے۔ حال ہی میں حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر ناکام میزائل حملہ نے جہاں سعودی عرب کے حلیفوں کو مشتعل کردیا، وہیں لبنان کے وزیر اعظم کو اس حملہ کے پس پردہ ایران کی سازش نظر آئی۔ انہوں نے ایران پر لبنان کے اندرونی معاملات میں بھی دخل اندازی کی شکایت بھی کی۔ بہرحال سعودی عرب جو آہستہ آہستہ کنگال ہوتا جارہا ہے اور ایک امریکہ کی دوستی یا اس کے دبائو میں بیشتر اسلامی ممالک سے دور ہوتا جارہا ہے، اب اُسے داخلی بحران کا بھی سامنا ہے۔ جن شہزادوں اور اہم عہدوں پر فائز شاہی خاندان کے ارکان کے خلاف اچانک کاروائی سے ایسا ہی کچھ ظاہر ہوتا ہے۔ ایک طرف ولی ٔعہد محمد بن سلمان کی شاہی خاندان اور ملکی امور پر گرفت مضبوط ہوگئی ہے تو دوسری طرف اس بڑی کاروائی کے نتیجہ میں شاہی خاندان کے وہ افراد جو کسی موقع پر کسی بہانے سے آواز بلند کرسکتے تھے‘ وہ وقتی طور پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں سب سے اہم پرنس ولید بن طلال ہیں جو دنیا کے امیر ترین افراد کی پہلی صف میں شامل ہیں جنہوں نے حال ہی میں اپنے اربوں ڈالر کی دولت چیاریٹی ٹرسٹ کو دیدی تھی اس کے باوجود وہ 17بلین ڈالر کے اثاثہ جات کے مالک بتائے جاتے ہیں۔ وہ ابن سعود کے پوترے ہیں تاہم انہیں مسند اقتدار پر فائز ہونے کے صرف خواب دیکھنے کی اجازت ہے۔انہوں نے اپنی کئی عالمی برانڈ میں سرمایہ کاری کی جن میں APPLE، سٹی گروپ، LYFT اور ڈزنی قابل ذکر ہیں۔ وہ بل گیٹس کے ساتھ فور سیزنس ہوٹلس کے مشترکہ مالک ہیں اور لندن کی مشہور ہوٹل SAVOY کے تن تنہا مالک ہیں۔ انہوں نے میڈیا کنگ روپرٹ مرڈوخ کی نیوز کاپوریشن کی تقسیم میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ وہ سعودی عرب کی کنگڈم ہولڈنگ کمپنی کے مالک ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات کے موقع پر انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کی مخالفت کی اور صدارتی انتخابات سے دستبردار ہوجانے کا مشورہ دیاتھا۔ وہ سعودی عرب میں خواتین کو بااختیار بنانے، ان کی آزادی کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ تمام شعبہ حیات میں خواتین کو کام کرنے کی انہوں نے حمایت کی ا ور ملک میں خواتین کمرشیل پائیلٹس کی ٹریننگ کا آغاز کروایا۔ ولید بن طلال کو اسرائیل میں سعودی سفیر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ ولید بن طلال مغربی تہذیب کے دلدادہ ہیں اور اسرائیل سے بھی ان کے قریبی روابط بتائے جاتے ہیں۔ انہوں نے سوشیل میڈیا جیسے ٹوئیٹر، فیس بک اور دیگر چیانلس میں سرمایہ کاری ہے۔
سعودی حکومت نے جن کے خلاف کاروائی کی ہے ان میں ایک اور اہم نام سعودی بن لادن کمپنی کے مالک اور اُسامہ بن لادن کے بھائی بکر محمد بن لادن ہیں۔ حال ہی میں بکر بن لادن نے ڈیڑھ ملین پائونڈ کی مالیت کا محل نما اپارٹمنٹ گلاسگو میں خریدا تھا۔ وہ ریپل اسٹیٹ کے بزنس سے وابستہ ہیں۔ حرمین شریفین کا منٹیننس ہوں کہ سعودی عرب کے تعمیری پر وجکٹس بن لادن کمپنی بہت بڑا مسلمہ نام ہے۔ تاہم حالیہ عرصہ کے دوران یہ گروپ شاہی حکومت کا معتوب سمجھا جارہا ہے۔ گذشتہ سال حج کے دوران کرین سانحہ کے بعد اس کمپنی کو دئے گئے ٹھیکے منسوخ کردیئے گئے جس کے بعد اَن گنت افراد روزگار سے محروم ہوگئے تھے۔ شاہی حکومت نے مصعب بن عبداللہ اور پرنس ترکی بن عبداللہ کو بھی گرفتار کیا۔ ترکی بن عبداللہ سونے سے بنی کار چلاتے ہیں‘ حال ہی میں غلط مقام پر اس گولڈن کار کی پارکنگ پر انہیں جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا تھا۔ وہ اور ان کے بھائی مصعب بن عبداللہ جو نیشنل گارڈ کے سربراہ تھے، انہیں بھی معزول کرکے دیگر شہزادوں اور سابق عہدیداروں کے ساتھ دارالحکومت ریاض کی کارلٹن رٹس ہوٹل میں نظربند رکھا گیا ہے۔ مصعب بن عبداللہ اور ترکی بن عبداللہ دونوں ہی سابق سعودی فرمانروا عبداللہ بن عبدالعزیز کے بیٹے ہیں جنہیں ولی عہد محمد بن سلمان نے بڑی آسانی سے اقتدار کی دوڑ سے ہٹادیا۔ نیشنل گارڈس شاہی خاندان کے علاوہ حرمین شریف کی سیکوریٹی پر مامور ہیں‘ انہیں معزول کرکے شاہی خاندان کے گمنام فرد کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ سابق وزیر فاینانس ابراہیم عساف، امر الدباغ صدر سعودی عرب جنرل انوسمنٹ اتھاریٹی‘ الولید الابراہیم مالک ایمبیسی سٹیلائٹ گرفتار کئے گئے افراد میں شامل ہیں۔ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ اُن افراد کے خلاف کاروائی کی گئی ہے جن کے ہاتھ میں میڈیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ سعودی حکومت کو ایسی کوئی اطلاع ملی ہوگی کہ ان افراد کو گرفتار کیا گیا وہ حکومت کے خلاف سازش میں ملوث تھے یا مستقبل میں شاہی حکومت کا تختہ الٹ سکتے تھے۔ اس کاروائی کو رشوت خوری، بدعنوانی کو ختم کرنے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ امریکی صدر نے سعودی حکومت کو مبارکباد دی اور کرپشن کے خلاف بن سلمان کی کاروائیوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔ محمد بن سلمان نے اعتدال پسند اسلام کا وعدہ کیا ہے۔ آج تک سعودی عرب کے بارے میں یہ سمجھا جاتا رہا کہ وہ اسلامی شعائر پر سختی سے کاربند ہیں ۔ تاہم آہستہ آہستہ سعودی عرب مغربی تہذیب سے ہم آغوش ہونے لگا ہے۔بہرحال سعودی عرب سے عالم اسلام کو اور ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو اس لئے ہمدردی اور جذباتی لگائو ہے کہ یہاں خانہ خدا بھی ہے اور تاجدار حرم صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک بھی۔ اسی لئے جب کبھی سعودی عرب میں کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو ہر مسلمان کا پریشان ہونا فطری ہے ۔ا گرچہ سعودی عرب کے حالیہ واقعات اس ملک کا اندرونی معاملہ ہے تاہم اس میں بیرونی طاقتوں کی سازشیں کارستانیاں واضح نظر آرہی ہیں۔ ادھر مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھاکر اغیار کے اشاروں پر اپنی توانائیاں ضائع کررہے ہیں‘ یہ سب دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اللہ رب العزت ارض مقدس کو اسلام دشمن طاقتوں اور ان کے آلہ کاروں سے محفوظ رکھے۔ آمین
رابطہ :ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔
فون9395381226
�������