سعودی مہاجر جمال خاشقجی جو ۲ ؍اکتوبر کو ترکی میں سعودی سفارت خانے میں پُر اسرار طو ر قتل کئے گئے ، کئی دن سے عالمی شہ سرخیوں میں ہیں ۔ گزشتہ دنسعودی عرب نے جمال خاشُقجی کے قتل کا اعتراف کرلیا اور کہا کہ استنبول میں سعودی سفارت خانے میں ان کے اور عملے کے مابین ہوئی تو تو میں میں جمال کا خون ہو ا۔ اس سلسلے میں سعودی بادشاہت کے چند اعلیٰ عہدیداروں اور ایک شاہی مشیر کو سبکدوش بھی کیا گیا ۔ مقتو ل شخص جمال خاشقجی سعودی عرب کے ایک معروف صحافی، تجزیہ نگار اور ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے ایک صحافی کے طور پر انیس سو اسی کی دہائی میں اپنے کریئر کا آغازکیا۔ یمن میں سعودی عرب کی مداخلت کی شدید مخالفت کی اور بعد ازاں ۲۰۱۷ کو وہ سعودی عرب چھوڑ کر امریکہ منتقل ہوئے اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی۔جمال خاشقجی 1958میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم سعودی عرب سے، جب کہ 1982میں امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی۔ ایک صحافی کے طور پر 1980ء کی دہائی میں اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے ایک مقامی اخبار میں سوویت روس کے افغانستان پر حملے کی رپورٹنگ سے اپنی صحافت کی شروعات کی۔ سعودی امور پر ماہرانہ رائے رکھنے کی حیثیت سے جمال خاشقجی بین الاقوامی سطح پر مختلف نیوز چینلز کو مستقل طور پر اپنی خدمات فراہم کرتے رہے۔امریکہ کی مہاجرت پر انہوں نے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ اخبار کے ساتھ اپنی وابستگی شروع کی، تاہم رواں ماہ 2؍اکتوبر کو اچانک منظر عام سے غائب ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق وہ طلاق کے سرکاری دستاویز لینے کے لیے استنبول میں سعودی قونصل خانے جاتے دیکھے گئے، وہ ایک ترکی خاتون سے شادی کرنا چاہتے تھے، جس سے اُن کی منگنی ہوئی تھی۔خاشقجی کا آخری کالم 11؍ستمبرکو شائع ہوا۔ 5 ؍اکتوبر کو ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اُن کی گمشدگی کو اُجاگر کرنے کے لیے ’’ 'دی مسنگ وائس‘‘ یعنی 'گمشدہ آواز کی شہ سرخی کے ساتھ کالم کی جگہ خالی چھوڑ دی تھی۔
امریکی اخبار کی جانب سے مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کا آخری کالم بھی شائع کیا گیا۔ جمال خاشقجی نے آخری کالم میں عرب ملکوں میں اظہار آزادی رائے سے متعلق خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اپنے کالم میں جمال خاشقجی نے لکھا کہ عرب ملکوں میں سرکاری میڈیا کی جانب سے غلط معلومات فراہم کی جاتی ہیں،عربوں کو خود اُن کی زبان میں آزاد میڈیا کی ضرورت ہے، عرب اسپرنگ سے امید کی کرنیں جلد ہی دم توڑ گئیں بلکہ اندھیرا اور گہرا ہوگیا ہے، میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن پر کوئی عالمی رد عمل نہ آنے پر عرب ملکوں میں کریک ڈاؤن کا عمل اور تیز ہو رہا ہے۔۲؍اکتوبر کو لاپتہ ہونے والے جمال خاشقجی کا یہ کالم ان کے مترجم نے3 ؍اکتوبر کو امریکی اخبار کو بھیجا تھا۔سعودی حکام کی جانب سے جمال خاشقجی کے قتل کی تصدیق سے قبل ترکی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے مبینہ قتل کی تحقیقات کرنے والی پولیس نے تلاش کا دائرہ بڑھاتے ہوئے ان کی لاش کو جنگلوں میں بھی تلاش کیا، تاہم کوئی سراغ نہ مل سکا۔ترک حکام کا کہنا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ان کی لاش کو قریبی جنگل یا کھیتوں میں ٹھکانے لگایا گیا ہو۔ اس سے قبل بار بار سعودی عرب کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی کہ ان کا قتل ہوگیا ہے۔ سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے بارے میں لاعلمی کا بھی اظہار کیا جاتا رہالیکن ترک حکام کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے سعودی قونصل خانے اور قونصل جنرل کی رہائش گاہ سے حاصل کئے گئے نمونوں کا موازنہ جمال خاشقجی کے ڈی این اے سے کیا جائے گا۔ دوسری جانب میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے صحافی کے مبینہ قتل کی ایک آڈیو ریکارڈنگ سنی ہے۔ترکی کا اس سے پہلے کہنا تھا کہ اس کے پاس جمال خاشقجی کے قتل کے آڈیو اور ویڈیو ثبوت موجود ہیں، تاہم تاحال یہ سامنے نہیں لائے گئے، جب کہ آڈیو کی خبروں پر اپنے ردعمل کے اظہار میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مائیک پومپیو نے ایسی کسی آڈیو کو نہ سنا اور دیکھا ہے، یہ ایک جھوٹی خبر ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جمال خاشقجی کا شمار سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کے بڑے ناقدین میں ہوتا تھا۔جمال خاشقجی نے محمد بن سلمان کی یمن جنگ سے متعلق پالیسیوں پر بھی تنقید کی تھی۔ جمال خاشقجی گزشتہ سعودی حکومت میں مشیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ رواں سال 13 ؍اکتوبر کو ان کی 60 ؍ویں سالگرہ تھی۔ وہ ممکنہ گرفتاری سے بچنے کیلئے گزشتہ ایک سال سے امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہے تھے۔قبل ازیں بلومبرگ کو دئے گئے انٹرویو میں سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی قونصلیٹ کے اندر جانے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترک پولیس چاہئے تو قونصلیٹ کی عمارت کی تلاشی لے سکتی ہے، جو کہ ایک خودمختار جگہ تصور کی جاتی ہے۔ بالآخر اُن کے قتل کی خبر کو سعودی اداروں کی طرف سے تصدیق سےترک حکام کا یہ عندیہ دُرست ثابت ہو اکہ جمال کاکام سعودی قونصلیٹ کے اندر تما کیا گیا جس کے لئے باضابطہ طور ایک پندرہ رُکنی ٹیم استنبول میں پُر اسرا طور وارد ہوئی اور واپس چلی گئی ۔ اب یہ معاملہ زیر بحث کہ ان کی لاش کہاں دفنائی گئی اور انہیں کن مقاصد کے تحت جان سے مار ڈالا گیا۔