سوال یہ ہے کہ جدت اورمعاشی ترقی کے نام پرسعودی معاشرے کو اخلاقی انحطاط کی راہ پرڈالاجارہاہے ؟حجازکی سرزمین دینی اورروحانی اعتبارسے مرکزومنبع ہے لیکن بدقسمتی سے گذشتہ دوبرسوں سے ہم لگاتاردیکھ رہے ہیں کہ ہرنئے دن کے ساتھ سعودی ولی عہدایسے اقدمات اٹھارہاہے کہ جس سے عالم اسلام لرزہ براندام ہے ۔گذشتہ دوہفتوں کے دوران کئی اعلانات وبیانات سے صاف لگ رہاہے کہ سعودی معاشرے کوانحطاط کی راہ دکھائی جارہی ہے اسے ایسی قعرمذلت میں پھینکنے کے لئے پیہم کوششیں جاری ہیںکہ جسکے پاتال کی کوئی پیمائش نہ ہوگی ۔پچھلے دنوںمکہ مکرمہ میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کمیٹی کے سابق ڈائریکٹرجنرل قاسم الغامدی نے عرب ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویلنٹائن ڈے یا محبت کے عالمی دن کو منانے میں بھی کوئی شرعی پابندی نہیں۔ الغامدی کاکہناتھاکہ ویلنٹائن ڈے ایک سماجی تہوار ہے، اس تہوار کے موقعے پر ہم ایک دوسرے کے لیے محبت کے جذبات کا اظہار کرتے ہیںجبکہ اسی دوران سعودی عرب کے ایک اور عالم اورسعودی عرب کی کونسل آف سینئیر سکالرز کے رکن شیخ عبداللہ مطلق کاکہناہے کہ خواتین کو اعتدال والے لباس پہننے چاہییں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عبایہ پہنیں۔شیخ مطلق کاکہناتھاکہ دنیا کی 90 فیصد سے زیادہ نیک مسلمان خواتین عبایہ نہیں پہنتی ہیں چنانچہ ہمیں لوگوں کو عبایہ پہننے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔واضح رہے کہ سعودی خواتین کے لیے قانونی طور پر عبایہ پہننا لازم تھا۔خیال رہے کہ سعودی عرب کے سینئیر عالموں کی جانب سے پہلی بار ایسے بیانات سامنے آئے ہیںجسے یہ اخذ کرنامشکل نہیں کہ ولی عہدمحمدبن سلمان اپنے وژن کی کامیابی کے لئے سرکاری عالموں سے خوب کام لے رہے ہیںکیوںکہ سعودی عالموں کی جانب سے یہ جسارت اس وقت سامنے آئی ہے جب ملکی معاشرے کووژن 2030کے تحت بدلانے کے لیے خواتین پر عائد پابندیوں کو نرم کیا گیا ہے۔
عبایاکے حوالے سے اب تک سعودی عرب کی ایسی خواتین جو عوامی مقامات پر عبایہ نہیں پہنتیں اور جہاں انھیں غیر مطلقہ مرد دیکھ سکتے ہیں کو مذہبی پولیس کی جانب سے سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور 2016 میں ایک سعودی خاتون کو دارالحکومت ریاض کی ایک سٹرک پر اپنا عبایہ اتارنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔سعودی عالم کے عبایاکے حوالے سے ریمارکس پرسعودی خواتین میں ملاجلاردعمل پایاجارہاہے اکثرخواتین کاکہناہے کہ عبایاچھوڑنے کے لئے ا گر ایک سو فتوے بھی جاری کر دیے جائیں تو رب کی قسم کبھی بھی عبایہ پہننا نہیں چھوڑیں گی۔ ایسا کرنے کے لیے ہماری لاشوںسے گزرنا ہو گا۔سعودی خواتین کے ردعمل سے اس امرکی نشاندہی ہورہی ہے کہ سعودی حکومت اورسرکاری اوردرباری علماء کی کوششوں کے باوجودسعودی عرب میں پردے اور عبایہ کی کہانی ختم نہ ہو گی۔ یہ کہانی ایک ایسے آئینے کے طور پر باقی رہے گی جو معاشرے میں خواتین کے لباس کے حوالے سے عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح ’’عبایہ کی نفسیات‘‘بھی اپنے پیغامات دیتی رہے گی۔سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے ھدی الصباح اپنے ایک تجزیے میں رقمطرازہیں کہ سعودی معاشرے میں جہاں ایک طرف پہلے سے کہیں زیادہ کشادگی اور روشن خیالی سامنے آئی ہے ،وہاں خواتین کے حوالے سے ’’عبایہ‘‘کی صورت ایک پہلو سے پیچیدہ بھی بن گئی ہے۔خواتین کی جانب سے ملبوسات میں تبدیلی کی خواہش خواہ وہ کسی بھی حوالے سے ہو، اس نے عرب اور اسلامی معاشروں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
سعودی عرب کی خواتین میں پہلے سر پر سے برقع لیا کرتی تھیں، عبایہ کا ایک نیا نمونہ سامنے آیا ہے تو اسے ’’خمار‘‘کا نام دیا گیا اور یہ اپنی ہیئت میں شامی اور ترکی لباس سے ملتا جلتا ہے۔ خمار کی صورت یہ ہوتی ہے کہ خواتین اس میں سیاہ رنگ کا عبایہ کندھوں پر سے لیتی ہیں اور پھر سر پر سے ایک دوسرا سیاہ طویل کپڑا پائوں تک یا پھر آدھی پنڈلیوں تک آتا ہے۔ اس میں چہرہ مکمل طور پر چھپا ہوتا ہے۔سر پر سے عبایہ لینے والی خواتین کی جانب سے ظاہری تبدیلی کی یہ پہلی کوشش نہیں۔ دیگر خواتین کو دیکھ کر اور معمولات زندگی کے لیے باہر نکلنے میں نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے اس طرح کی تبدیلیاں وقت کی ضرورت بھی سمجھی جاتی ہیں۔سعودی عرب میں عبایہ کی شکلوں میں نمایاں ترین تبدیلی اسلامی بیداری کی تحریک ’’الصحوہ‘‘(جس کے حوالے سے میں کشمیرعظمیٰ کے 2017کے ایک شمارے میں تفصیلات بتاچکاہوں) اس زمانے میں خواتین کی جانب سے ’’زرق برق لباس ‘‘ یابھڑکیلی زیبائش کے خلاف جنگ کا نعرہ لگایا۔ اس دوران عبایہ نے وہ شکل اختیار کر لی جو 1970 کی دہائی میں اور اس سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ عبایہ میں ریشم کی جگہ بھاری کپڑے نے لے لی اور ساتھ ہی دستانوں کا استعمال بھی شروع ہو گیا۔ 1990 میں عراق نے کویت پر حملہ کیا تو سعودی عرب نے کویتی خاندانوں کا استقبال کیا۔ کویتی خواتین کے نقاب کا طریقہ کار اور دیگر رجحانات سعودی خواتین میں منتقل ہوئے۔ اس کے نتیجے میںالصحوہ تحریک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور اسے ’’زرق برق لباس ‘‘یابھڑکیلی زیبائش پھیلانے کا اقدام قرار دیاگیا۔
سعودی عرب میں نجد کے علاقے کی خواتین سیاہ عبایہ کے استعمال سے قبل بڑی چادر سے خود کو ڈھانپا کرتی تھیں اور اسی سے اپنا چہرہ بھی چھپاتی تھیں، اس طرح کہ راستہ دیکھنے کی غرض سے تھوڑا سا حصہ کھلا رکھتی تھیں۔ اس کے بعد برقع متعارف ہوا جس کو دیہی علاقوں کی خواتین نے اپنایا۔ کم سن بچیاں سر پر اسکارف رکھنے پر اکتفا کرتی تھیں جس کو ’’القحفیہ‘‘کہا جاتا ہے۔ بعد ازاں یہ معاملہ ارتقا کی منازل طے کرتا ہوا کاٹن ، ریشم ، اون اور نائیلون کے درآمد شدہ کپڑے سے تیار کردہ عبایہ تک جا پہنچا۔سر کو ڈھانپنے کے لیے استعمال ہونے والا کپڑا مختلف ناموں سے جانا گیا۔ ان میں ام ریشہ، تریز، الحسا، مرضوفہ اور بور سعید شامل ہیں۔اس کے علاوہ سر پر پہننے والا مثلث شکل کا اسکارف متعدد رنگوں میں متعارف ہوا۔ یہ اس بات کا پتہ دیتا کہ لڑکی غیر شادی شدہ ہے۔اگرچہ عبایہ نے اپنا روایتی سیاہ رنگ برقرار رکھا تاہم وقت کے ساتھ مختلف رنگوں کے کپڑوں میں سلے عبایہ بھی پھیل گئے۔ اس موقع پرالصحوہ تحریک نے بازاروں سے رنگین عبایوں کو ہٹا لینے کا مطالبہ کر دیا۔
الجزیرہ اخبار کے لیے کالم لکھنے والی سعودی خاتون رقیہ الہویرینی کاکہناہے کہ الصحوہ تحریک کے نجد کے علاقے میں منتقل ہونے سے پہلے تک خواتین کے حلقوں میں نقاب متعارف نہیں تھا۔ البتہ الصحوہ تحریک کے بعد مردوں اور خواتین کے عام لباس کے نمونوں میں تبدیلی آئی۔ خواتین کے لیے عبایہ لازم ہوو گیا۔ اس کے علاوہ دستانے پہننے کاحکم بھی دیا گیا جس کو اسکولوں ، یونی ورسٹیوں اور بازاروں میں پہننا لازم کر دیا گیا۔مملکت سعودیہ میں 1985 سے 1995 کے دوران بازاروں میں حجاب ، سر کے رومال اور نقاب کی مختلف شکلیں سامنے آئیں۔ اس حوالے سے’’الاسواق‘‘ جریدے کی جولائی 1995 کی اشاعت میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ 1985 سے 1990 کے دوران پردے سے متعلق درآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ یہ حجم 1985 میں 1864 ٹن تھا۔ بعد ازاں 1990 میں یہ حجم بڑھ کر 2582 ٹن اور پھر 1993 میں 2815 ٹن تک جا پہنچا۔اعداد و شمار کے مطابق 1994 میں مملکت سعودیہ میں سر کے اسکارف اور نقاب کی طلب بڑھ کر 4.8 کروڑ تک پہنچ جانے کے باوجود ان اشیا کو تیار کرنے والی صرف ایک فیکٹری ریاض میں تھی۔ اس کے نتیجے میں مذکورہ اشیا ء کی درآمدات پر انحصار کیا گیا۔اس طرح بھارت سعودی منڈی میں سر کے رومال درآمد کرنے والے ممالک میں سرفہرست بن گیاجبکہ پاکستان ، جنوبی کوریا اور چین کا نمبر تھا۔
ولی عہد محمدبن سلمان سعودی عرب کوکہاں اورکس جانب لیناچاہتاہے اس کے خدوخال واضح ہیں۔یاد رہے کہ حال ہی میں سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار شہر جدہ میں خواتین شائقین کو سٹیڈیم میں جا کر مردوں کے فٹبال میچز دیکھنے کا موقع ملا ہے۔خیال رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے خواتین کے حقوق اور اختیارات پر پہلے سے موجود عائد پابندیوں کو کم کرنے کا آغاز گذشتہ برس سے کیا ہے جس کے تحت بغیر محرم کے سعودی عرب میں داخلے کی اجازت اور خوانین کو تفریح کے لیے گھر کی بجائے کھیل کے میدان میں جانے اور سینیما گھروں میں جانے کا موقع تاریخ میں پہلی بار مل رہا ہے۔اس کے علاوہ حال ہی میں شعودی عرب میں ایک گازیوں کا شو روم کھولا گیا تھا۔ دسمبر2017 میں سعودی عرب میں ٹریفک قوانین میں ترمیم کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت خواتین کو گاڑی کے ساتھ اب موٹر سائیکل اور ٹرک تک چلانے کی اجازت ہو گی۔سعودی عرب میںمارچ 2018 سے سینما گھروں کو کھولنے کی اجازت دیا جانا طے پایاہے حالیہ عرصے میں کیے جانے والے اعلانات میں سے ایک بہت بڑا اور غیر معمولی اعلان ہے۔ انتظامی امور میں تبدیلیاں تو پچھلی چار دہائیوں میں بھی دیکھی جاتی رہی ہیں لیکن اس طرح کے اقدامات نہایت ہی غیر معمولی اقدام ہیں۔11دسمبر 2017سوموار کو سعودی حکومت نے ایک تحریری بیان میں بتایا ہے کہ مارچ2018 میں ملک میں پہلا سینما گھر کھول دیا جائے گا اور 2030 تک ملک بھر میں 300 سے زائد سینما ہائوسز اور 2000 سے زائد سکرینز ہوں گی۔۔سلمان حکومت نے ایک تحریری بیان میں بتایا ہے کہ مارچ 2018میں ملک میں پہلا سینما گھر کھول دیا جائے گا اور 030 تک ملک بھر میں 300 سے زائد سینما ہائوسز اور 2000 سے زائد سکرینز ہوں گی۔اسے قبل سعودی عرب میں قانونی طور پر کوئی سینما گھر موجود نہیں۔1980 سے قبل وہاں سینما گھر موجود تھے لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا اور سینما گھروں کو بند کر کے ممنوع قرار دے دیا گیا۔گذشتہ 26 برس سے سعودی فلم اور ٹی وی سے وابستہ اداکارہ شیریں باوزیر کہتی ہیں کہ جب آج میں نے یہ خبر سنی تو مجھے یقین نہیں آیا اور تصدیق کے لیے میں نے اپنی دوست سے رابطہ کیا۔
یعنی کل تک جوحرام تھااسے محمدبن سلمان حلال قراردے رہاہے اسی طرح کل تک جوناجائزقرارپایاتھااسے اب جائزٹھرایاجارہاہے ۔،عورتوں کواسی طرح بازاری جنس قراردینے کی کوشش ہورہی ہے جس طرح اہل یورپ کے ہاں اس کی قدروقیمت ہے۔یعنی اسے مادرپدرآزادچھوڑنے کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔اس کے لئے اب سینماہال کھل رہے ہیں۔فیشن شوکرائے جارہے ہیں۔محرم کے بغیراسے سفرکرنے کی اجازت مرحمت کی جارہی ہے ۔ہوٹلزمیں اکیلے وہ اب قیام کرسکنے کے لئے آزادہے ۔ ہمارے قارئین کے لئے یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ مغربی میڈیاکے ساتھ ساتھ عرب میڈیاسعودی حکومت کے ان اقدامات کی بڑے پیمانے پرتشہیرکررہاہے جس کے نتیجے میں سعودی عرب میں بدلائوآرہاہے یاجواسلامی نقطہ نظرسے انحطاط کہلاتاہے ۔اس کے برعکس یہ پورامیڈیاشام کے ’’الغوطہ ‘‘میں ہورہے انسانی المیے پہ گونگاشیطان نظرآرہاہے ۔ گذشتہ ہفتے بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کردی جس میں بتایاگیاکہ دارالحکومت ریاض آئندہ ماہ سعودی عرب کی تاریخ کے پہلے فیشن شو کی میزبانی کرے گا۔اس بات کا اعلان شہزادی نورا بنت فیصل نے لندن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کیا۔ شہزادی نورا بنت فیصل عرب فیشن کونسل کی اعزازی صدر ہیں۔شہزادی کاکہناتھاکہ عرب فیشن کونسل کے زیرِ اہتمام یہ فیشن شو 26 مارچ سے 31 مارچ تک جاری رہے گا۔بی بی سی کے مطابق یہ فیشن شو سعودی عرب میں ثقافتی جدت لانے کی حالیہ کوششوں کی ایک کڑی ہے۔ بی بی سی اپنی اس رپورٹ میں بڑے شوق وذوق سے لکھتاہے کہ سعودیہ کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ملک کو روایتی قدامت پسندی سے علیحدہ ایک نئی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا مقصد سعودی نوجوانوں کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ ان کا مستقبل روشن ہے۔
23فروری 2018کوبی بی سی پرایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں کہاگیاکہ سعودی عرب تفریح کی صنعت پر 64 ارب ڈالر خرچ کرے گا۔سعودی عرب نے کہا ہے کہ ملک میں تفریحی صنعت کی ترقی کے لیے آئندہ دس سال میں 64 ارب امریکی ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کا کہنا ہے رواں سال تقریبا 500 تقریبات کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جن میں امریکی پاپ بینڈ مرون 5 اور کینیڈین پرفارمرز سرک ڈو سولیل کے پروگرامز بھی شامل ہیں۔ملک کے پہلے اوپرا ہائوس کی تعمیر دارالحکومت ریاض میں شروع ہو چکی ہے۔32سالہ ولی عہد ملکی معیشت کا انحصار تیل کے ذخائر پر کم کرتے ہوئے متنوع معیشت چاہتے ہیں، جس میں گھرانوں کی جانب سے ثقافتی اور تفریحی پروگراموں میں خرچ بڑھانا بھی شامل ہے۔جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے سربراہ احمد بن عقیل الخطیب کا کہنا تھا کہ ماضی میں، سرمایہ کار کام کی تیاری کے لیے ملک سے باہر جاتے تھے، اور اس کے بعد سعودی عرب واپس آکر اس کی نمائش کرتے تھے۔ آج تبدیلی آرہی ہے اور انٹرٹینمنٹ سے متعلقہ ہر کام یہیں ہوگا۔ملک میں سیاحت کے فروغ کو مدنظر رکھتے ہوئے دارالحکومت ریاض کے قریب تقریبا لاس ویگس کے برابر کے ایک بڑے تفریحی شہر کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ سعودی عرب میں جوکچھ ہورہاہے ، کیانرم نوالہ سمجھ کرسعودی شہری اسے نہایت آسانی کے ساتھ ہضم کرسکیں گے ؟سرکاری سطح پردھونس اوردبائوکودیکھاجائے توجدت اورمعاشی ترقی کے نام پرانحطاط کے خلاف سعودیوں کی ہمت جواب دے رہی ہے ۔ ����