انیس سال کا سکندرزندگی کی سنجیدگیوں سے بے نیاز تھا۔یہی وجہ تھی کہ بڑی مشکلوں سے وہ میٹرک کا امتحان پاس کر سکا۔دوستوں کے ساتھ ایودھیا کی مست ہوائوں میں مدہوش رہتا تھا۔اس کے والدفرقان اس کی شرارتوں سے نالاں تھے لیکن اکلوتی اولاد ہونے کے سبب فرقان کی والدہ اس کی ہر شرارت پر اپنے بیٹے کا ہی ساتھ دیتی۔
وہ اس دن کی بات تھی جب سورج سوا نیزے پر تھا،ا یودھیا شہر اندھیرے میں ڈوب گیا۔بابری مسجد شہید ہو گئی اور رام کا ایودھیا انسانی خون سے لالہ زار ہو گیا۔یہ وہی ایودھیا تھا جہاں دشرتھ کی ایک زبان پر انکا سب سے پیارا اور سب سے لائق بیٹا بالکل بے گناہ ہوتے ہوئے بھی چودہ برس کے لئے جلا وطن ہو گیا۔
اس دن خون کا منظر دیکھ کر سکندر پر لرزہ طاری ہو گیا۔اس نے اپنے معمولی گھر میں پناہ لی۔اس کا والد سیٹھ رام اوتار کی فیکٹری میں ساڑھی چھپائی کا کام کرتا تھا اور اپنی قابلیت ، محنت اور ایمانداری کے سبب فیکٹری کے تمام مزدوروں میں بہت مقبول تھا اور سبھی اس کا احترام کرتے تھے۔اس دن سیٹھ اوتار سنگھ نے فیکٹری کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔
’کچھ دنوں کے لئے فیکٹری مت آنا‘
فرقان ہکا بکا رہ گیا۔وہ جب گھر پہنچا تو بیوی اور بچے کو بہت خوف زدہ پایا اور انہیں تسلی دیتے ہوئے یہ بھی نہ بتا سکا کہ اب وہ کچھ دنوں کے لئے ہی سہی لیکن بیروز گار ہو چکاہے۔اس رات سارا شہر آنسوئوں کی آہ و بقا میں ڈوبا ہوا تھا ۔تینوں کی آنکھوںسے نیند غائب تھی ،فرقان کو اپنے بھائی عنایت کی یاد آئی جو اس سے اکثر کہا کرتا تھا۔
’بھائی ممبئی چلے آئو یہاںتمہاری محنت کی اتنی قدر نہیں ہے جتنی ہونی چاہئے۔یہاںتم جتنا کماتے ہو،اس سے چار گنا زیادہ کمائو گے۔ایسی جادو نگری ہے ممبئی۔‘
’میں یہاں جتنا کماتا ہوں اپنے گھر میں کماتا ہوں،جہاں میری پیدائش ہوئی ہے ۔مجھے یہیں کی مٹی میں دفن ہونا ہے۔ایودھیا کی سر زمین ہی میرے لئے جادو نگری ہے۔‘
’اے جی ،اب کیا ہوگا؟‘
اس کی بیوی کی آواز نے اس کے خیال کو منتشر کیا۔’رات ہی میں سارے ضروری سامان باندھ لو ہم صبح تڑکے ہی ممبئی کے لئے روانہ ہو جائں گے۔‘
سورج نکلنے میں ابھی کافی وقت تھا لیکن ریلوے اسٹیشن پرمیلے کی طرح بھیڑ تھی وہاں موجود ہر کوئی جلد از جلد ایودھیا چھوڑ دینا چاہتا تھا۔فرقان کی آنکھوں سے چند قطرے ٹپک پڑے جو اس نے اپنے رومال میں جذب کر لئے۔
دادر اسٹیشن پر اس کا بھائی استقبال کے لئے منتظر تھا۔ٹیکسی سے اس نے باہر کا نظارہ دیکھا۔اونچی اونچی عمارتیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔لیکن جب وہ ایک چال میں پہنچے تو اسے وہ تمام عمارتیں بے معنی لگیں۔کئی دنوں تک وہ عنایت کی کھولی میں ہی رہا گھر سے باہر نہیں نکلا،اس کی بیوی نے کہا ’۔جینا ہے تو کچھ کام دھام کرنا پڑیگا۔کب تک اپنے بھائی پر بوجھ بنے رہوگے۔ایودھیا چھوٹ گیا تو کیا ،ہم یہاں بھی خوش رہ سکتے ہیں۔‘
’کیا ہم ایودھیا چھوڑ کر کہیں بھی خوش رہ سکتے ہیں؟‘ اس کی بیوی خاموش ہو گئی۔اس دن شام کو اس نے اپنے بھائی عنایت سے کہا۔
’بھائی ،کل میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا کہیں کوئی کام دلوا دینا۔‘
’بھائی یہاں تم جیسے محنتی اور ایماندار لوگوں کے لئے کام اور اچھی زندگی کی کوئی کمی نہیں ہے۔میرے سیٹھ ہیروں کے بڑے کاروباری ہیں۔بہت بھلے آدمی ہیں۔میری محنت اور ایمانداری سے بہت خوش بھی رہتے ہیں۔امیدہے وہاں آپ کو بھی کام مل جائے گا ۔‘ فرقان کو اپنا سیٹھ رام اوتار یاد آ گیا۔
صبح ہوتے ہی دونوں چرچ گیٹ کے لئے روانہ ہو گئے۔
’یہاں چرچ کہاں ہے؟‘ اور اس کا گیٹ۔۔۔۔
’بھائی یہاں چرچ نہیں ہے۔نہ ہی اس کا گیٹ ہے ۔یہ تو اس جگہ کا نام ہے۔‘عنایت اس سوال سے تھوڑے سے سٹپٹا سے گئے۔وہاں سے وہ انڈیا گیٹ گئے۔وہاں عنایت نے اس کی تاریخ بتائی۔’انگریزوںکے راج اور ہماری غلامی کی نشانی‘سامنے تاج ہوٹل تھا۔عنایت نے صرف یہ بتا یا کہ اسے ٹاٹا نے بنایا ہے جو دنیا کے بہترین ہوٹلوں میں شمار ہوتا ہے۔راستے میں دوسرے کئی مقامات اور اونچی اونچی عمارتیں دیکھتے ہوئے وہ گھر واپس آئے۔
’بھائی آپ کو ممبئی شہر پسند آیا؟‘
’ہاں لیکن اپنا ایودھیا۔۔۔۔۔۔
’دوسرے دن کچھ وقت پہلے ہی عنایت اسے لیکر اپنے دفتر آ گیا تھا اور اپنے کام میں لگ گیا تھا۔دھرمندر سیٹھ بھی آج جلدی آ گئے۔اسے کام کرتے دیکھ کرمسکراتے ہوئے اس کے پاس آئے۔
’کیوں بہادر،کل جو مال بھجوانا تھا۔۔۔‘
’وہ کل شام کو ہی چلا گیا سیٹھ جی،کل ہی ان سے چیک وصول کرکے منیم جی کو دے بھی دیا۔ان کے دوسرے آرڈر کا خاکہ بھی بن گیا ہے ۔ملازم آ جائیں توکام شروع کروا دوں۔‘
گڈ۔تم جلد ہی ترقی کروگے میری نظر تم پر ہے۔یہ کون۔۔
’سر۔ یہ میرے بھائی ہیں ۔بہت محنتی اور ایماندار ۔ایودھیا سے آئے ہیں۔وہ۔۔۔۔‘
’اچھا اچھا۔تمہارے بھائی ہیں تو تمہاری طرح محنتی تو ہوں گے ہی۔‘
’نہیں سر۔میں ان کے جیسا محنتی اور ایماندار بننے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔‘
’تو پھر انہیں منیجر سے ملوا دو۔اور ان کے لائق جو کام ہو۔۔۔‘
’بہت بہت شکریہ سیٹھ جی۔‘سیٹھ جی کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی اس نے ہاتھ جوڑ دئے۔زندگی اب معمول پرآنے لگی تھی۔سکندر بھی اپنے چاچا کے بیٹے رفاقت کا دوست بن گیا تھا۔وجہ یہ کہ دونوں کی عمر میں بہت کم فرق تھا۔رفاقت پڑھنے میں بہت تیز تھا ہمیشہ کلاس میں اول آتا تھا۔اس کا اثر سکندر کی پڑھائی پر بھی پڑا تھا۔وہ بھی پہلے سے بہتر ہو گیا تھا لیکن فرقان اور اس کی بیوی کے دل کوایودھیا کی یاد منتشر کئے رہتی۔وقت گزرتا رہا۔ایک دن فرقان نے رفاقت سے کہا۔’میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایودھیا جائوں۔ ‘
’لیکن بھائی ،وہاں کے حالات۔۔۔۔۔اور پھر یہاں آپ کا کام بھی اچھا چل رہا ہے۔ترقی کا بھی موقع ہے۔سیٹھ آپ سے بہت خوش ہے۔پھر۔۔۔‘
’ارے یار میں ہمیشہ کے لئے تھوڑی جانے کو کہہ رہا ہوں۔در اصل ان حالات میں وہاں سے آنا ہوا کہ مجھے وہاں کے اپنے ملنے جلنے والوں،رشتہ داروں،دوست و احباب ،اپنے سیٹھ ،اس کی فیکٹری سب کی فکر لگی ہوئی ہے۔ایک بار جاکر وہاں سب لوگوں کو ٹھیک ٹھاک،سلامت دیکھ لوں،پھر تو یہیں رہنا ہے اب۔‘
’یہ اچھی بات ہے ۔تو پھر آج ہی سیٹھ کو چھٹی کی عرضی دے دوگے تو ایک ہفتہ بعد چھٹی مل جائے گی۔پھر کیا ایودھیا خالی ہاتھ جائوگے۔جانے کے ایک دن پہلے وہاں کے دوستوں ،رشتہ داروں کے لئے کچھ خریداری بھی کر لینا۔‘
کل کی ٹرین سے ایودھیاجانا تھا ،اس لئے آج فرقان ،عنایت ان دونوں کی بیویاںاور عنایت کی بیٹی زویر ی بازار میں خریداری کر رہے تھے۔سکندر اوررفاقت گھر پر تھے۔رفاقت نے کہا۔
’بھائی آپ یہاں آ گئے تو مجھے بڑا سہارا مل گیا ۔میں بہت خوش ہوں۔اب مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائوگے نا۔‘
’نہیں یار۔بھلا بھائی بھی بھائی کو چھوڑ کر کہیں جاتا ہے۔جاتی تو بہنیں ہیں،وہ بھی شادی کے بعد۔ہمیں تو یہیں رہنا ہے،ساتھ ساتھ۔ایودھیا میں تو میرا پڑھائی میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔اب یہاں تو لگتا ہے کہ اگر تم ڈاکٹر بن گئے تو میں کم سے کم تمہارا کمپائونڈر تو بن ہی جائوں گا۔‘اس کا جملہ پورا ہوتے ہی دونوں زور زور سے ہنسنے لگے۔
زویری بازار گاہکوں سے بھرا ہوا تھا۔وہ سب کپڑے کی دوکان پر تھے۔فرقان اپنے مالک رام اوتار کے لئے شال اور ٹوپی پسند کر رہا تھا۔باقی لوگ بھی دوسرے کپڑوں کو پسند کر رہے تھے کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا۔عنایت نے فرقان ،اس کی بیوی اور اپنی بیٹی کو گرتے دیکھا،پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔فرقان نے آخری سانس لیتے ہوئے عنایت کی بیوی کو زمین پر پڑے دیکھا اور پھر۔۔۔۔۔۔۔
چال کا پہریدار گلی میں سب سے کہہ رہا تھا۔زویری بازار میں بہت بڑا بم پھٹا ہے۔ کئی لوگ مارے گئے ہیں، بہت سے زخمی ہیں۔ممبئی کے دوسرے علاقوں میں بھی ایسے کئی دھماکے ہوئے ہیں۔ہر جگہ سے لوگوں کے مرنے کی اور زخمی ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔‘
’زویری بازار ۔ْ وہاں تو ہمارے امی ابا خریداری کرنے گئے ہیں۔اور اب تک تو انہیں آبھی جانا چاہئے تھا۔‘
’کیا۔؟ گھبرائو نہیں بچو ،میں ابھی تمہارے ساتھ زویری بازار چلتا ہوں۔‘
زویری بازار کو چاروں جانب سے پولیس نے حصار میں لے رکھا تھا۔تینوں کو ایک حولدار نے روک لیا ۔’کہاں جا رہے ہو۔‘
دونوں نے روتے ہوئے کہا۔’ہمارے ماں باپ۔۔‘
اچھا۔ اچھا۔ بچو یہاں سے سارے لوگوں کو ممبئی اسپتال لے جایا گیا ہے۔آپ لوگ وہاں جائیے۔‘
جب زخمیوں کے درمیان ان کو اپنے گھر والے نہ ملے تو انہوں نے مردہ گھر کی جانب رخ کیا۔ایک ساتھ پانچ لاشیں دیکھنے کی تاب چال میں کسی کو بھی نہ تھی۔چال کی ہر آنکھ نے روتے ہوئے ان کی آخری رسومات انجام دیں۔سپردخاک کرنے کے بعد سب نے یہی کہا کہ وہ خود کو یتیم نہ سمجھیں، چال کے لوگ ان کے اپنے ہیں۔رات میں روتے روتے رفاقت سو گیا ،لیکن سکندر کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔اس کا ذہن آنے والے مستقبل کا خاکہ تیار کر رہا تھا۔صبح چال والوں کی دوبارہ ہر طرح کی تسلی کے باوجود کہ وہ دونوں خود کو یتیم نہ سمجھیں ،جب تک وہ پڑھ لکھ کر کچھ قابل نہیں ہو جاتے ،ان کا کھانا پینا غرض سارا خرچ چال والے مل کر اٹھائیں گے،سکندر نے خود کو یتیم ہی سمجھا۔اب اس کے لئے پڑھائی جاری رکھنا ممکن نہ تھا،لیکن بھائی کو ہر حال میں اونچے سے اونچا مقام دلانا تھا۔دس بجے وہ اپنے والد کے سیٹھ دھرمندر کے پاس تھا۔
’بیٹا مجھے بہت افسوس ہے،بتائو میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں۔تم چاہو تو میں تم دونوں کے لئے ماہانہ کچھ رقم مقرر کر دیتا ہوں،جس سے تمہاری پڑھائی لکھائی اورکھانے پینے میں کافی حد تک سہولت ہو جائے گی۔تمہارے باپ اور چاچا اس کمپنی کے دو مضبوط ہاتھ تھے۔ان کی ایمانداری اور محنت۔۔۔یہ کہتے کہتے سیٹھ کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔
’سیٹھ جی ،زندگی کے حالات بدل گئے ہیں۔اب تو ایک ہی مقصد باقی رہ گیا ہے۔اپنے بھائی کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا۔میں آپ سے یہ التجا کرنے آیا ہوں کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام دیںجو میرے باپ اور چاچا دونوں کی تنخواہ کے برابر ہو۔بھلے مجھے روز دوگنا کام کیوں نہ کرنا پڑے۔مجھے اپنے بھائی کو اچھے سے اچھا ماحول اوراچھی سے اچھی زندگی دینی ہے۔‘
سیٹھ دھرمندر اس کی باتوں کو سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔اتنے میں چائے آ گئی۔دونوں چائے پینے لگے۔سیٹھ کی نظر برابر سکندر کے چہرے کے تاثرات پڑھ رہی تھی۔چائے ختم ہونے پر سیٹھ نے منیجر کو بلایا۔
’سکندر کو ہیروں کی فیکٹری میں ان کی جانچ پرکھ ہیرے تراشنے اور اس کی ڈیزائن بنانے کا کام سیکھنے پر لگا دو۔اور سکندر تم لگن سے ہیرے کے متعلق ہر باریکی کو سیکھو۔میرے خیال میں اگر کڑی محنت کروگے تو تین چار ماہ میں کچھ نہ کچھ سیکھ لوگے،اپنی تنخواہ کی فکر نہ کرو۔تمہاری دوگنی تنخواہ تمہیں ہر مہینے ملتی رہے گی۔
سکندر کا جنون سیٹھ کی قیاس آرائی سے بھی بہت آگے نکلا۔وہ اپنے والد اور چاچا کی طرح ہنس مکھ اور ملنسار نہ تھا۔کسی نے بھی اس کی زبان سے ہوں ہاں کے علاوہ دوسری کوئی بات نہیںسنی۔سب نے ہمیشہ اسے کام کرتے ہوئے ہی پایا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے تین مہینے کا کام ایک مہینے میں اور ایک سال کا کام چار مہینے میں سیکھ لیا۔ایک سال گزرا تھا کہ اس کا شمار ہیرے کے ماہرین میں ہونے لگا۔
رفاقت آشیانہ بلڈنگ کی بارہویں منزل پر واقع اپنے فلیٹ سے سامنے کی چال کو دیکھ رہا تھاکہ سکندر نے کہا۔
’کیا بات ہے یار ۔بڑی حسرت سے سامنے دیکھ رہے ہو۔؟‘
’دیکھ رہا ہوں بھائی،وہ چال جہاں ایک عرصہ گزارا۔اور اب یہ بہترین فلیٹ۔آج چال کو دیکھ کر پتہ نہیں کیوں یہ خیال آیا کہ واپس چال میں جاکر رہوں۔آپ کو کبھی یہ خیال نہیں آیا۔‘
’مجھے تو ہر روز یہ خیال آتا ہے کہ ممبئی ہی چھوڑ کر ایودھیا چلا جائوں۔لیکن تمہارا مستقبل ۔۔۔۔‘
’آپ ایودھیا کو اب تک نہیں بھولے‘
’ایودھیا میری روح ہے رفاقت۔جس ڈر سے ہم ایودھیا چھوڑ کر بھاگے تھے،وہ حادثہ تو یہاں بھی ہو گیا۔میں سوچتا ہوں کہ اگر ابا ایودھیا چھوڑ کر نہ آئے ہوتے تو شاید ہمارے تمہارے سب کے گھر والے زندہ ہوتے۔‘
’لیکن وہاں تو بہت خطرہ تھا۔‘
’جہاں خطرہ ہوتا ہے وہاں تحفظ کی راہیں بھی ہوتی ہیں۔اب میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں وہیںرہ کرحالات کا سامنا کرنا تھا ۔سب اپنے ہی تو تھے۔وہ تو حالات کی ستم ظریفی تھی۔لیکن کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہو گیا
’آپ نے کہا تھا کہ میرا ساتھ نہ چھوڑوگے‘
’اسی لئے تو۔ورنہ ابا کہا کرتے تھے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے ۔اور جب مرنا ہی ہے تو کیوں نہ اپنی مٹی جہاں جنم لیا ہے،وہیں دفن ہوا جائے۔ابا شاید خوف میںاپنی ہی کہی ہوئی یہ بات بھول گئے تھے ۔۔۔
خیر رات بہت ہو گئی ہے ۔تمہیں کل کالج جانا ہے اور مجھے بھی کل سیٹھ جی نے جلدی بلایا ہے۔‘
’کیوں۔؟
’پتہ نہیں یار ۔کوئی اہم کام ہوگا۔ممکن ہے کچھ تنخواہ بھی بڑھ جائے۔‘
یعنی ترقی۔مبارک ہو بھائی۔‘
’سکندر،جیسا کہ تمہیں علم ہے کہ کچھ مغالطے کے سبب میں نے اور میرے بھائی پارس نے اپنے خاندانی کاروبار کے دو حصے کر لئے تھے۔اب ہم بھائیوں کے درمیان کی دوریاں مٹ گئی ہیں اس لئے ہمارا کاروبار پھر ایک ہو گیا ہے۔اور کاروبار ایک ہو جانے کے سبب ممبئی میں ہم سے بڑا ہیروں کا تاجر اب کوئی نہیں رہا۔باہر کے ملکوں میں جو ہماری برانچز ہیں،اب ان کی طرف بھی زیادہ توجہ دینا ضروری ہے،اس لئے میں امریکہ جا رہا ہوں اور میرے بچے میں چاہتا ہوں کہ تم بلجیم والی برانچ سنبھالو۔وہاں کا کام زیادہ کٹھن ہے۔ ہیروں کی پہچان،اُن کی تراش خراش اور لین دین ،نفع و نقصان کو تم اچھی طرح انجام دے سکتے ہو۔میرے بچے میں تمہارے باپ اور چاچا کو اس سے بھی اونچے مقام پر دیکھنا چاہتا تھاجو کہ وہ یقینا حاصل کرتے اگر زندہ رہتے۔ویسے یہ میری ایک تجویز ہے ۔اگر تم اپنے بھائی کو ساتھ لے جانا چاہو تو وہ بھی ٹھیک ہے۔اور اگر اس کی محبت میں نہ جانا چاہو اور یہیں کام کرنا چاہو تو تم پر کوئی دبائو نہیں۔تم میرے بچے ہو۔جیسی تمہاری مرضی۔‘سکندر کچھ پل خاموش رہا،پھر بولا۔
’سیٹھ جی،آپ نے ہم یتیموں پر اتنی مہربانی کی ہے کہ۔۔اگر کوئی نالائق بیٹا بھی ہوتا تو باپ کا نقصان نہیں سہہ سکتا تھا ،پھر میں تو آپ کا لائق بیٹا ہوں۔میں اپنے باپ کا مالی نقصان یا پھر کاروبار میںپریشانی کیسے برداشت کر سکتا ہوں۔میں بلجیم جائوں گا۔رفاقت یہیں رہے گا ۔اسے بھی تو زندگی میں تنہا اپنے بل پر کھڑا ہونے کا ہنر آنا چاہئے۔حکم کیجئے،کب روانہ ہونا ہے۔‘
’شاباش میرے بچے۔پرسوں ہم دونوں باپ بیٹے ایک ساتھ ائرپورٹ نکلیں گے ۔اور اب تم کمپنی کے ملازم نہیں ہو بلکہ بلجیم کی برانچ کے منافع میں دس فی صد کے حصہ دار ہو۔‘یہ کہہ کر سیٹھ دھرمندر نے اسے گلے سے لگا لیا۔واپس گھر آنے پر اس نے رفاقت کو بھی زندگی کے فلسفے اور تجربوں کی کئی کہانیاں سنا کر راضی کر لیا۔بلجیم میں اس نے اپنے ہنر کا خوب مظاہرہ کیا ۔اس برانچ نے اس کی رہ نمائی میں کافی ترقی کی اورمنافع کمایا۔ایک دن پارس سیٹھ یکایک بلجیم میں اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔
’ارے سیٹھ جی آپ ‘
’کہاں کا سیٹھ بے۔جب تو میرے بڑے بھائی کو بابا کہتا ہے تو مجھے چاچا کہنے میں شرم آتی ہے،نالائق۔‘یہ کہتے ہوئے سیٹھ پارس اس کے گلے لگ گیا۔سکندر کو محسوس ہوا کہ جیسے اس کے چاچا عنایت نے اسے گلے سے لگا لیا ہو۔ادھر ادھر کی اور دوسری کاروباری باتوں کے بعد سیٹھ پارس مدعے پر آیا۔
’بیٹا۔تم نے اخباروں میںپڑھا ہوگا کہ اس وقت افریقہ کے حالات بہت خراب ہیں۔وہاں جو ہمارے تاجر بھائی ہیں،انہوں نے پیشکش کی ہے کہ اگر ہم ایک ساتھ ان کے تمام ہیرے خرید لیں اور نقد پیسہ ان کے نیویارک والے اکائونٹ میں جمع کر دیں تووہ اپنا سارا مال آدھی قیمت میں ہمیں دے دیں گے۔تم نے یہاں اور بھائی صاحب نے امریکہ میں جو کاروباری ترقی کی ہے۔اس کی بدولت ہم ان کا سارا مال نقدی میں خرید سکتے ہیں۔لیکن چونکہ وہاں خون خرابہ،گولی باری،بم دھماکہ عام بات ہے،ہر وقت دہشت کا ماحول ہے،اس لئے ایک تو وہاں جانا خطرناک ہے،دوسرے ہیرے اصلی ہیں یا نقلی اس کی پہچان اور پھر اصلی ہیروں کو لیکر وہاں سے سیدھے نیویارک جانااور درمیان میں اتنے سارے ہیروں کے پاس رہنے سے نیت کا نہ خراب ہونا،یہ سب اسی سے ہو سکتا ہے جواپنا ہو،ایمانداری کا خون اس کی رگوں میں بہتا ہو اور بہاد ربھی ہو۔تم نے جس طرح نا مساعد حالات کا سامنا بہادری سے کیا ہے ۔باقی دونوں خصوصیات تو۔۔۔۔۔۔‘
’کب نکلنا ہے چاچا جی‘۔سیٹھ پارس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے سکندر بول اٹھا۔
’شاباش میرے بہادر بھتیجے۔‘
جب وہ سیرا لیون کے ائر پورٹ پر اترا تو عجب ماحول تھا۔وہاں سے ہوٹل تک دکانیں بند تھیں،ایک دو جگہ دھماکے اور گولی باری اور نعروں کی آواز بھی سنی گئی۔سکندر نے من ہی من کہا۔’یہاں بھی ایودھیا اور ممبئی ،۔
ہوٹل پہنچنے کے بعد اس نے تمام تاجروں کو بلایا ۔سب کے چہروں کا رنگ اڑا ہوا تھا۔سودا طے ہو گیا۔پروگرام یہ بنا کہ ائرپورٹ کے پاس والے ہوٹل جس کا دروازہ پیچھے گلی میں بھی کھلتا تھا، میں تمام تاجراپنا مال لیکراس کی اوپری منزل پر اکٹھا ہوں گے،وہیں ہیروں کی جانچ ہوگی ۔وقت مقررہ پر سب حاضر تھے۔سکندر نے سارا مال چیک کرنے کے بعدسیٹھ پارس کو فون کیا۔آدھا گھنٹہ انتظار کے بعدتمام تاجروں کے نیویارک کے اکائونٹ میںپیسے جمع ہو گئے،تو سب نے ہیرے سکندر کے حوالے کر دئے۔اس نے پانچ منٹ کے لئے تاجروں کو وہیں روکا اور سارے ہیرے اور اپنا سوٹ کیس لیکرباتھ روم میں چلا گیا۔دروازہ اندر سے بند کرنے کے بعد اس نے سو ٹ کیس سے بنا بانہ والی ایک چمڑے کی جیکٹ نکالی جس کے چاروں طرف چین لگی ہوئی مضبوط جیبیں تھیں۔اس نے جلدی جلدی تمام جیبوں کو ہیروں سے بھر دیا اور اس کے اوپر شرٹ پہن لی پھر کوٹ اور اسکے اوپر سردی سے بچنے کے لئے اور کوٹ۔پھر اس نے سوٹ کیس سے ایک چمڑے کے بیگ کو نکالا اور اس میں دوسرے کپڑے بھرے۔سوٹ کیس میں اس نے صرف ڈالروں کی دو گڈیاں اور کچھ کاغذات رکھے اور باہر آ گیا۔سارے تاجر اسے دیکھ رہے تھے۔ایک نے مشورہ دیا۔
’آپ نے جو ہیرے سوٹ کیس میں رکھے ہیںتو میرا مشورہ ہے کہ پیچھے کی گلی سے ائرپورٹ جائیے۔اگر مین روڈ پر پولیس نے بھی آپ کو چیک کیا تو سارے کاغذات ہونے کے باوجود وہ آ پ سے کم از کم آدھا مال لے لیں گے۔اگر آپ پیچھے سے جائیں گے تو گلی سنسان ضرور ہے،لیکن آپ سیدھے ائرپورٹ پہنچ جائیں گے ۔ہمارے پاس چونکہ کچھ ہے نہیں،اس لئے ہمیں لٹنے کا کوئی خطرہ نہیں ہم سب مین سڑک سے نکل جائیں گے۔‘
’میرے خیال میں گلی میں کوئی چور اچکا بدمعاش یا کوئی لٹیرا گر مل گیا توپورا مال بھی جائے گا اور جان بھی جا سکتی ہے۔اس لئے مین سڑک سے جانا ہی ٹھیک رہے گا۔‘دوسرے تاجر نے کہا۔
’آپ درست کہتے ہیں۔آپ ہمارے ساتھ ہی ہوٹل سے مین سڑک تک نکلئے۔‘تیسرے تاجر نے کہا۔
’لیکن اس گلی میں ایسی کوئی واردات ادھر تو سننے میں نہیں آئی۔‘ایک اور تاجر نے کہا۔
’لیکن آگے بھی نہ ہوگی ،اس کی گارنٹی کون لے سکتا ہے۔آپ ہمارے ساتھ نکلئے۔مین روڈ پر اگر پولس نے روکا بھی تو آپ ائر پورٹ جلدی پہنچنے کا بہانہ کرکے کچھ روپئے انکے سامنے رکھ دینا ممکن ہے وہ سوٹ کیس اور اس بیگ کی تلاشی نہ لیں۔‘
مین سڑک پر آکر اس نے سب سے ہاتھ ملا کر ان کو رخصت کیا۔منیجر نے ٹیکسی بلانے کے لئے کہا تو اس نے منع کر دیا اور تھوڑی ہی دور کھڑی پولیس کی ایک بڑی ٹاٹا سومو جیسی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔وہاں پہنچ کر اس نے بڑے ہی خوف زدہ لہجے میںپولیس افسر اور اس کے پانچ ساتھیوں سے کہا۔میں ہندوستانی ہوں۔بلجیم سے یہاں کاروبار کے سلسلے میں آیا تھا،لیکن یہاں کے حالات نے مجھے دہشت زدہ کر دیا ۔جن کاروباریوں سے میں یہاں کاروبار کرنے آیا تھا ،انہوں نے بھی منع کر دیا۔ابھی ابھی وہ مجھے تنہاچھوڑ کر یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ بہت ہوشیاری سے ائرپورٹ جائیے گا۔یہاں قدم قدم پر جان کا خطرہ ہے۔میرے پاس کچھ روپئے اور کپڑوں سے بھرا بیگ ہے ۔آپ لوگ پولیس والے ہیں،مہربانی کرکے مجھے ائرپورٹ پہنچا دیجئے تاکہ میں نیویارک صحیح سلامت پہنچ جائوں۔‘یہ کہتے ہوئے اس نے کپڑوں سے بھرا بیگ الٹ دیا اپنی اوور کوٹ کی جیب سے ویزا اور ٹکٹ نکال کر دکھایا اور سوٹ کیس بھی کھول دیا جس میں ڈالر کی دو گڈیوں کے علاوہ کچھ کاغذات تھے۔پولیس والے اس کی بات سے ہکا بکاہ رہ گئے۔
کچھ لمحے بعد پولیس افسر نے خود کے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا ۔
’آپ ہمارے ملک میں ہمارے مہمان ہیںلیکن حالات تو آپ کے سامنے ہیں ۔ہمیں بھی پچھلے ماہ کی تنخواہ ابھی تک نہیں ملی ۔ہم اپنے بچوں کو کیا کھلائیں،کہاں سے کھلائیں۔اس لئے اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو ہم ڈالروں کی ان دو گڈیوں میں سے ایک اپنے پاس رکھ لیں۔‘یہ سنتے ہی سکندر نے جذباتی ہونے کی کامیاب اداکاری کرتے ہوئے فوراً ایک گڈی اس افسر کے ہاتھ میں رکھ دی اور غمگین لہجے میں بولا۔
’یہ میری طرف سے آپ کے بچوں کے لئے تحفہ ہے۔آپ اپنے بینک اکائونٹس مجھے لکھوا دیں۔میں نیویارک جاکر فوراً کچھ رقم آپ کے اکائونٹس میں ڈال دوں گا اور جب یہاں حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو میں آئوں گا ۔آپ لوگ مجھ سے ضرور ملنا۔اور اگر کبھی انڈیا،بلجیم یا نیویارک کا پروگرام بنے تو مجھے ضرور اطلاع دینا۔آپ وہاں میرے مہمان ہونگے۔‘ ترکیب کام کر گئی سارے پولیس والے جذباتی ہو گئے ۔ایک اس کے کپڑوں کو بیگ میں بھرنے لگا ،دوسرااسے اکائونٹ نمبر لکھوانے لگااور باقی اس طرح مستعد ہو گئے گویاکسی وزیر کو ائر پورٹ چھوڑنے جا رہے ہوں۔افسر بہ حفاظت اسے ائر پورٹ کے اندر تک چھوڑنے آیااور اسے گلے لگاکر رخصت کیا۔نیویارک کے جان۔ایف۔کینیڈی ائرپورٹ پرسیٹھ دھرمندر نے اس کا والہانہ استقبال کیااور گھر پہنچ کر تمام ہیروں کے منافع کا بیس فی صدی اسے دے دیا اب وہ نیویارک کی برانچ سے ہونے والے منافع کا بھی بیس فی صدی کا حصہ دار تھا۔اس نے اپنے بھائی رفاقت کو فون کیا۔
’کیا بھائی ،آپ اتنے سنگین حالات کے بعد بھی افریقہ چلے گئے اورمجھے بتایا تک نہیں۔‘
’یار خراب حالات سب جگہ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔چاہے وہ ایودھیا ہو،ممبئی ہو یا پھر سیرالیون۔خیر میں بالکل ٹھیک ہوں۔تم نے بھی اپنی پڑھائی پوری کر لی۔ڈاکٹر بن گئے۔مجھے بڑی خوشی ہے ۔اب میں سمجھتا ہوں ہمارے لئے اپنی مٹی کا قرض ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔تم اپنا ایک بڑا اسپتال بنائو۔پیسوں کی فکر نہ کرنا۔جتنا بھی لگے۔لیکن یہ اسپتال ممبئی میں نہیں ایودھیا میں کھولنا ہے ،کیا تم ممبئی چھوڑ سکوگے۔‘
’بھائی کا حکم اور میرا سر ۔میں کل ہی ایودھیا جاتا ہوں اور اسپتال کی لوکیشن دیکھ کر آپ کو اطلاع دوں گا۔‘
امریکہ کے اس کے دفتر میں ایک خوبصورت لڑکی شہانہ کام کرتی تھی جس کے والدکافی دنوں سے امریکہ میں تھے اور اب امریکن ہو گئے تھے۔شہانہ بڑی ذہین اور شرمیلی لڑکی تھی۔سیٹھ دھرمندر نے اپنے تجربے سے جب اچھی طرح سمجھ لیا کہ سکندر کا دل شہانہ کے لئے دھڑکتا ہے،تو انہوں نے اس کے والد سے بات کی۔انہیں کیا انکار ہوتا۔وہ دلہن بنکر
اس کے گھر آ گئی۔سکندر کی زندگی خوشیوں سے بھر گئی۔ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ایودھیا میں زمین خرید لی گئی۔اسپتال تیزی سے بننا شروع ہو گیا۔سکندر کے بیٹے آفتاب کی پہلی سال گرہ پر اس اسپتال کا افتتاح رکھا گیا۔وہ بیوی اور بچے کے ساتھ اپنے وطن پہنچا۔افتتاحیہ تقریر میں اس نے کہا۔’میں ایودھیا کا ایک معمولی خادم ہوں۔میرا فرض ہے کہ اپنی سر زمین کے لئے کچھ کروں۔میں نے اپنی آنکھوں سے رام کی اس زمیں پر انسانوں کا خون بہتے ہوئے دیکھا ہے۔خوف اور دہشت دیکھی ہے۔وہ گزری ہوئی بات ہے ۔ہم سب ایک ہیں۔سب اپنے ہیں کوئی غیر نہیں۔یہ خیراتی اسپتال جسے میرا بھائی آپ کی رہنمائی اور اپنی نگرانی میں چوبیسوں گھنٹے رکھے گا،اپنے باپ، داد اور چاچا کی دعائوں کے طفیل ایودھیا کے بوڑھے بزرگوں، مائوں اور بہنوں کی خدمت کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔
آگے بھی جیسا ہم سے ہو سکے گا ،آپ کی خدمت کرتے رہیں گے۔
ایک ماہ اپنی سر زمین کی خدمت کرنے کے بعد وہ واپس امریکہ لوٹ گیا اورکاروبار میں مصروف ہو گیا ۔ہر سال ارادہ بنتا کہ اپنی سر زمین کی کچھ دنوں خدمت کرے لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی ضروری کام آجاتا۔اسی میں آٹھ سال نکل گئے۔اس دوران وہ کبھی بھی افریقہ کے پولیس والوں کو نہیں بھولا اوروقت وقت پر ان کو کچھ نہ کچھ رقم بھیجتا رہتا تھا۔
ایک دن صبح جب سارا نیویارک دہل گیا تو اس کا اثر سکندر کی زندگی پر بھی پڑا۔اس کی بیوی اور بچہ کار سے آ رہے تھے کہ بلوائیوں کے حملہ میں گھر گئے۔پولیس نے مشکل سے دونوں کی جان بچائی۔ایک خاص طبقہ پر اس طرح حملہ ہوتے دیکھ سیٹھ دھرمندر نے اسے اور اس کے زخمی بیوی بچے کو اپنی گجرات کی سورت والی فیکٹری کو سنبھالنے کے لئے بھیج دیا۔اب سکندر کی نظروں میں ایودھیا،ممبئی،سیرالیون اورنیویارک کا منظر گھومتا رہتا۔اب وہ زیادہ غم زدہ رہنے لگا تھا۔اس کی بیوی اور بچے کو اسپتال سے فارغ ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ گجرات میں فساد برپا ہو گیا۔اس کی کار بھی اس کی زد میں آگئی۔وہ شدید زخمی ہوا۔رفاقت بھاگا بھاگا اپنے بھائی کے پاس پہنچا اور اسکی تیمار داری میں لگ گیا ۔جب اسے پہلی بار ہوش آیا تو اس نے ایودھیا جانے کی تمنا کی۔پھر جب جب بھی ہوش آیا اس کی زبان پر ایودھیا جانے کی خواہش آ جاتی۔کبھی وہ نیند میں بڑبڑاتا۔’شہانہ میں رہوںیا نہ رہوں،تم اور آفتاب ایودھیا سے دور مت رہنا ۔ہمارا شفاء اسپتال سب کی خدمت کے لئے ہے۔ہم بھی وہاں جاکر اپنوں کی خدمت کریں گے۔‘ رفاقت نے ڈاکٹروں سے بات بھی کی کہ وہ خود ایک ڈاکٹر ہے ۔وہ اپنی ذمہ داری پر اپنے بھائی کو ایودھیا لے جانا چاہتا ہے،لیکن اجازت نہیں ملی۔پھر ایک دن اس کاجسم زخموں کی تاب نہ لا سکااور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔اس کے مردہ جسم کو ایودھیا لایا گیاجہاں پورے علاقے اور قرب وجوار سے آئے جم غفیر نے آنسوئوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اسے سپرد خاک کیا۔وصیت کے مطابق اس کی بیوی شہانہ اسپتال میں ہی مریضوں کی خدمت کر رہی تھی ۔لیکن اس کا بیٹا جب اپنے باپ کو یاد کرتے ہوئے اس کی شفقت بیان کرتا تو سب کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔اس کے باپ نے ایسا کیا جرم کیا تھا جس کی سزا اسے دی گئی؟۔اس کے اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ٭
رابطہ؛ سرینگر،موبائل نمبر؛9419012800