سرینگر/قانون دانوں،سیاست دانوں ، دانشوروںاور جیلوں میں نظر بند نوجوانوں کے اہلخانہ نے یک آواز میں ’’سزائے موت‘‘ کو ختم کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس سے مسائل حل ہوتے تو’’ بھگت سنگھ کو پھانسی دینے بعد بھارت کی جدوجہد آزادی ختم ہوتی اور محمد مقبول بٹ و افضل گورو کو تختہ دار پر چڑھانے کے بعد کشمیری عوام نے ’’حق خود ارادیت کا نعرہ‘‘ ترک کیا ہوتا۔سرینگر کے ایک مقامی ہوٹل میں ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید کی سربراہی والی عوامی اتحاد پارٹی کی طرف سے مرحوم محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کی برسیوں کے موقعہ پر’’ کیا سزائے موت ہی حل ہے‘‘ کے موضوع پر سمینار منعقد کیا۔ مختلف طبقہ ہائے فکر سے وابستہ لوگوں نے سمینار میں شرکت کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں اس بات کو واضح کیا کہ سزائے موت سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔اس موقعہ پر انجینئر رشیدنے بندوق اور سنگبازی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے بندوق ہاتھوں میں اٹھائی ہے،انکا اپنا نظریہ ہے۔انہوں نے کہا’’ جن لوگوں نے بندوق اٹھائی ہے،انہیں شائد لگ رہا ہے کہ انجینئر رشید سمینار منعقد کرانے کی طاقت نہیں رکھ سکتا،مسئلہ کشمیر کیا حل کریں گے‘‘۔تاہم انہوں نے کہا کہ مزاحمتی جماعتوں اور کارکنوں کی سیاسی مکانیت کو ختم کرنے سے بندوق کی طرف زیادہ سے زیادہ نوجوان مائل ہو رہے ہیں۔ انجینئر رشید نے یہ بات دہرائی کہ کشمیری لوگ بھارت کے دشمن نہیں ہیں بلکہ بھارت اور پاکستان کے بیچ صلح ہو تو اسکا سب سے بڑا فائدہ کشمیریوں کو ہی ملے گا۔سزائے موت کو ایک ظالمانہ اور بے ثمر سزا بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر سزائے موت ہی کسی مسئلے کا حل ہوتی تو پھر مقبول بٹ کو سولی چڑھائے جانے کے بعد کسی کو بندوق اٹھانے کی ہمت ہی نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن زمانے نے دیکھ لیا ہے کہ مقبول بٹ اور پھر افضل گورو کی پھانسی کے بعد کشمیر کے حالات نے کس طرح پلٹا کھایا جس سے یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ سزائے موت کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی ہے ۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسئلہ کشمیر کی بنیاد قرار دیتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا جب تک قراردادیں زندہ ہیں،مسئلہ کشمیر بھی زندہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حریت کانفرنس چونکہ جذبات اور قربانیوں کی ترجمان ہے لہٰذا اسکی قیادت کو ہر کسی کو اپنا مخالف اور دشمن گرداننے کی بجائے تحریک کیلئے دوست اور اچھا چاہنے والے پیدا کرنے چاہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی لڑائی بہت بڑی ہے اور نئی دلی کشمیریوں کو تقسیم کرنے،ان میں ابہام پیدا کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت کو ٹالنے کیلئے ہر طرح کے حربے آزمارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کشمیری قوم متحد ہوکر مناسب اور قابل عمل حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت سمجھنے میں ناکام رہی تو قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور قیادت اپنے ایجنڈا ،وہ جو کچھ بھی ہو،کی تشہیر کیلئے مواقع کا انتظار کرتی رہے گی جبکہ کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ افضل گورو کی بیگم نے جو سوالات وقت وقت پر اٹھائے ہیں انہیں یونہی ٹال دینا ممکن نہیں ہو سکتا ہے بلکہ سبھی کو اپنا محاسبہ کرکے ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا چاہے۔اس دوران جسٹس(ریٹائرڈ)حسنین مسعودی نے کا مراسلہ بھی سمینار پرھا گیا۔سمینار سے ڈاکٹر عامر،ایڈوکیٹ عنایت،ایدوکیٹ نور شہباز اور دیگر لوگوں نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سزائے موت کو ختم کیا جانا چاہے۔