شہرسری نگر تاریخ ِکشمیر کا مرکزی موضوع رہ چکاہے ۔ ا س شہرنے دہر کے سردوگرم ا ور زمانے کے نشیب وفراز دیکھے ہیں ۔ یہ شہر گزشتہ ستائیس سال کی خون آشام افراتفری اور سیاسی بے چینی کے دوران سے جس برق رفتاری سے پھیل رہاہے، اُسی تناسب سے یہاں کے مسائل گھمبیرتا اختیار کر تے جا رہے ہیں ۔ آج کے سری نگر کی کہانی یہ ہے کہ ایک طرف آبادی میں متواتر اضافہ ہورہا ہے ، دوسری طرف شہری زندگی کی سہولیات کا فقدان ہے ، تیسری طرف حکومتی پلاننگ ناپید ہے ،ایسے میںشہر باشوں کا گو ناگوں مشکلات میں مبتلا ہوناایک قابل فہم حقیقت ہے ۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ بجائے اس کے حکمران وسیاست دان سری نگر کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں، یہ اکثرو بیشتر اس بارے میں بیا ن بازیاں کر کے ا س سلسلے میں ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرا کر آپس میں پگڑیاں اچھا لتے ہیںاور یہ بھول جاتے ہیں کہ پیچ درپیچ مسائل کے گردآ ب میں اُلجھے شہر سری نگر میں کہیں بجلی ندارد ، کہیں پانی مفقود، کہیں سڑک خستہ حال ، کہیں گلی کوچے خراب ، کہیں نالیاں ٹوٹی پھوٹیں، کہیں کوڑے کرکٹ کے پہاڑ ، کہیں سڑکوں پر تجاوزات کی بھرمار ، کہیں پرآوارہ کتوں کے جھنڈ کے جھنڈ پل رہے ہیں یہ سارے مسائل عوام کی پریشانی کے باعث ہی نہیں بلکہ حکومت کی ناکامی کے منہ بولتے ثبوت بھی ہیں۔ بلاشبہ دیگر گنجان آبادی والے شہرو ں میں بھی شہری عوام کو مختلف النو ع مسائل کاسامنا رہتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ وہاں حکومتیں مسائل کے حل میں نہ بے رُخی سے کام لینے کی روادار ہو تی ہیں اورنہ بے مروتی سے انہیں نظر انداز کر لیتی ہیں جیے یہاں کی ریاستی سر کا ریں کچھ عا دتا ً اور کچھ ارادتاً شہر سر ینگر کو نظرا نداز کر تی چلی آ رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ سری نگر کے چپے چپے پر ہماری تاریخ کے اوراق بکھرے پڑ ے ہیں ۔ معاشی ‘ تمدنی اور مذہبی نقطہ نظر سے بھی سر ی نگر کو ایک امتیازواختصاص حاصل ہے ، نیز سری نگر کشمیر کا دار لحکو مت ہی نہیں بلکہ اس خطہ ٔ ار ض کی آن بان اورشا ن ہے۔ با شعور قومیں اپنی تاریخ کے ورثے اورانمول اثا ثوںاور عظمت ِرفتہ کا سکہ دلو ں میں بٹھا نے والے نشانات اور یادگاروں کو کو ئی گز ند پہنچا نا گنا ہ عظیم سمجھتی ہیں ۔ اس کے بالکل اُلٹ میں آ ج تک یکے بعد دیگرے ریا ستی حکو متوں سمیت عام لوگوں نے سر ینگر کے تاریخی، معا شی اور تمدنی تشخص کے تحفظ کے تئیں غفلت شعا ری بر تنے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑی۔ دُکھ بھری سچا ئی یہ بھی ہے کہ باشعور اہا لیان ِ سری نگربھی اپنے شہر ناپرسان کی بربادیوں کا خا مو ش تما شائی بنے چلے آ رہے ہیں۔انہو ں نے کبھی اُن ناہنجار لو گو ں کا گر یبا ں نہ پکڑا جنہو ں نے اپنے حقیر مفادات کے لئے شہر سرینگر کے سا تھ کھلے عام سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا ۔ بہر صورت اس حما م میں اگرچہ سب حکو متیں ننگی ہیں لیکن طعنہ بازیوں کی سیا ست کر نے والی اپو زیشن پارٹی این سی گلا پھا ڑ پھا ڑ کر سر ینگر کے اسقام وعیوب کا سارا ملبہ حکمرا ن پی ڈی پی کے سر ڈال رہی ہے ، جو ابا ً حکمرا ن ٹولہ اس موضوع پر لب کشائی کر کے اپنے سیاسی حریف کو ہی تما م برا ئیو ں کی جڑ قرار دینے میں پیچھے نہیں۔ یہ دوطرفہ تلخ نوائیاں مخا لفت برائے مخا لفت قرار پاتی ہیں۔ اس نا قابل تر دید حقیقت کی اَن دیکھی نہیں کی جا سکتی کہ آ ج کا سر ی نگر گھمبیر مسا ئل کا چیستاں بنا ہوا ہے اور اس صورت حال پر ہر با شعور شہری انسان انگشت بدندا ں ہے ۔ ڈل جھیل کی نا قدری کا معا ملہ ہی لیجئے۔ لا وڈ ا ا س شہرۂ آ فا ق جھیل کو بچا نے کے لئے معرض وجود میں لا یا گیا تھامگراس ادارے کی ما یو س کن کا رکردگی یا منفی کارکردگی دیکھ کر اگر یہ کہا جا ئے کہ اس سے کسی خیر کی امید کر نا پتھر سے دو دھ ما نگنے کے برابر حما قت ہے، تو با ت خلا ف حقیقت نہ ہو گی۔ یہی بُرا حال شہر کے مخصو ص آ ثار قدیمہ ، دست کا ریو ں اور رو ایتی علوم و فنو ن کا ہورہا ہے جو وادیٔ کشمیر کو انفرادیت عطاکر تے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ سر ی نگر میں تعلیم یا فتہ بے روزگاری کا تذکرہ کرتے ہو ئے قلم کی آنکھ اشک بار اور اظہا ر کی زبا ن گنگ ہو تی ہے۔ شہر سری نگر کے اکثر تعلیم یا فتہ نوجوانو ں اور ان کے مایوس والدین کو اس دن کا انتظار بے قرار رکھے ہوئے ہے کہ کب وہ اپنا آذوقہ عزت وآ برو کے ساتھ کما سکیںلیکن قیامت خیز انتظار ہے کہ ختم ہو نے کا نا م ہی نہیں لیتا۔محسوس یہ ہورہا ہے جیسے سری نگر کے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ چھا پڑی فروش بننے یا آٹو ڈرائیور ہونے کی طرف دھکیلا جا ر ہا ہو ۔گرچہ دیہی علا قو ں میں بھی روزگار کے حو الے سے معاملہ دودھ کی ندیو ں اور شہد کے چشمو ں جیسا نہیں مگر بہ حیثیت مجموعی شہر میں بودوبا ش رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا خدا ہی حا فظ ہے۔ اس بارے میں حکمران طبقہ کم تو جہ نہ دینے کاگویا وعدہ بند ہے ۔ حق یہ ہے کہ ہمہ پہلو بے روزگاری کے چلتے اگر شہر ی عوام کو بھی بیک ورڈ ایئر یا کے زُمرے میں لایا جا ئے تو شاید قرین انصاف با ت ہو گی۔ اب رہی بات شہر کے تما م فٹ پاتھوں اور مصروف شاہراؤںپر جابجا چھا پڑ ی فروشو ں و ریڑ ھی با نو ں کے مستقل قبضے کی اور چھوٹے بڑے دوکانداروںکے تجاوزات کی‘ اس سے ایک ہاتھ شہر کی شکل وصورت ہی مسخ ہوچکی ہے، دوسرے ہاتھ جابجا راہ گیروں کی چلت پھرت میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں ، علاوہ ازیں ٹریفک جام جیسی مشکلات شہری آبادی کے لئے ہر اعتبار سے سوہان ِ رُوح بن رہی ہے ۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اس صورت احوال سے سے چونکہ متعلقہ حکام کی اوپر ی آمدنی چلتی ہے ،اس لئے یہ سب ان کی نظر میں کو ئی مسائل ہیں ہی نہیں۔ مختصر اًیہ کہ سر ی نگر کو ہر معا ملے میں نظر انداز کر نے کی جو خُو اور وضع عرصہ دراز سے اقتدار کے ایوانوں کی روشِ کار بنی ہوئی ہے، اس سے کلیجہ منہ کو آنا فطری بات ہے ۔ سر ی نگر کے ان سلگتے مسائل کے بارے میں کسی بھی مکتب ِخیال کی جانب سے حکومت کی تعمیری تنقید کو جھٹلا نا آفتاب کی روشنی کی تردید کرنے کے مترادف ہے ۔ اور یہ حالات کی یہ کریہہ الصورت تصویر یںاس وقت بر قرار رہیں گی تا وقتیکہ حکومت سر ی نگر کی شا ن ِرفتہ لفظاً و معناً بحال نہیں کر تی کہ جس سے سری نگر کی انفرا دیت کاپر چم پھر سے فضا میں لہرا ئے ،بالخصوص شہر خاص سمیت اس شہرکے تاریخی ، معاشی ، مذہبی، سیاحتی اور ثقافتی پہلوؤں کی حفاظت کو اولیت نہ ملے۔