سری نگر کو اگرریاست کا قلب کہئے تو کوئی مبالغے کی بات نہ ہوگی۔ اسے گرمائی دارالحکو مت ہو نے کا اعزاز بھی حاصل ہے مگر حق بات یہ ہے کہ ان دونوں حیثیتوں کے باوجود شہر سری نگر سالہال سے ہر معاملے میں نظر انداز ہو تا جارہاہے ۔ بھلے ہی سیاست کاراس کے لئے ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہراتے رہتے ہیں لیکن کڑواسچ یہ ہے کہ بلا کسی استثنیٰ کے ریاستی حکومتوں نے سری نگر کو ہمیشہ ترقیاتی امور میں پش پشت ڈالے رکھا اور ہر ایک حکومت نے ا س میںاپنا حصہ ڈالا ۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت سری نگر گھمبیر مسائل کے گردآ ب میں ہچکولے کھاتا ہواشہر بنا ہوا ہے۔ دیگر گنجان آبادی والے شہرو ں میں بھی شہری عوام کو مختلف النو ع مسائل کاسامنا رہتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ وہاں حکومتیں مسائل کے حل میں اس قدر بے رخی یا سہل انگا ری سے کام لینے کی روادار نہیں ہو تیں جتنی یہا ں کی سر کا ریں عا دتا ً اور ارادتاً شہر سر ینگر کے تعلق سے دکھائی دیتی رہی ہیں۔ شہر سری نگر کے چپے چپے پر ہماری تاریخ کے اوراق بکھرے ہو ئے ہیں ۔ سیاسی ،معاشی ‘ تمدنی اور مذہبی نقطہ نظر سے سر ی نگر کو ایک امتیازواختصاص حاصل ہے جوباور کراتا ہے کہ شہر اس خطہ ٔ مینو نظیر کی آن بان اورشان ہے۔ با شعور قومیں اپنی تاریخ کے ورثے اورانمول اثا ثوںاور عظمت ِرفتہ کا سکہ دلو ں میں بٹھانے والے نشانات اور یادگاروںکو متا عِ گراںمایہ کو کو ئی گز ند پہنچا نا گنا ہ عظیم سمجھتی ہیں ۔ اس کے بالکل الٹ میں آ ج تک یکے بعد دیگرے ریا ستی حکو متوں نے سر ینگر کے تا ریخی، معا شی اور تمدنی تشخص کے تحفظ کے تئیں غفلت شعا ری بر تنے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑی۔ دکھ بھری سچا ئی یہ ہے کہ اہا لیان ِ سری نگر اپنی اس ہمہ گیر بربادی کا خا مو ش تما شائی بنے چلے آ رہے ہیں۔انہو ں نے کبھی اُن با اختیا ر لوگوں کا گریبا ن نہ پکڑا جنہو ں نے اپنے حقیر مقا صد کے لئے کشمیر کے قلب شہر سرینگر کے سا تھ کھلے عام سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا ۔ بہر صورت اس حما م میں اگر چہ سب حکو متیں ننگی ہیں لیکن گزشتہ کئی برسوں سے طعنہ بازیوں کی سیا سی ہا نڈیاں پکا نے کے لئے حکمران پیپلز ڈ یمو کر یٹک پارٹی گلا پھا ڑ پھا ڑ کر سر ینگر کے تمام اسقام وعیوب کا سارا ملبہ ا پوزیشن نیشنل کا نفر نس کے سر پر ڈالتی رہی ، جو ابا ً سابقہ حکمران جماعت سری نگر کے گھمبیر مسائل کے لئے اپنے سیاسی حریف کو تما م برا ئیو ں کی جڑ قرار دیتی ر ہی ۔ یہ پلٹ وار ہمیشہ مخا لفت برائے مخا لفت ہی قرار یایا جب کہ آج کی تاریخ میں نا قابل تر دید حقیقت یہ ہے کہ آ ج کا سر ی نگر گھمبیر مسا ئل کا چیستا ں بنا ہوا ہے۔ان مسا ئل کو حل کر نے میں حکو مت ِوقت ماضی کی طرح جس سرد مہری اور بے اعتنائی کا مظا ہر ہ کر تی رہی ہے اس پر کو ئی بھی با شعور انسان انگشت بدندا ں ہوسکتا ہے ۔ ڈل جھیل کی ناقدری کا معا ملہ ہی لیجئے۔ لا وڈ ا ا س شہرۂ آ فا ق جھیل کو بچا نے کے لئے معرض وجود میں لا یا گیا تھامگراس ادارے کی ما یو س کن کا رکردگی دیکھ کر اگر یہ کہا جا ئے کہ اس سے کسی خیر کی امید کر نا پتھر سے دو دھ ما نگنے کے برابر حما قت ہے، تو با ت خلا ف حقیقت نہ ہو گی۔ یہی بات سری نگر میونسپل کارپوریشن پر صادق آتی ہے ۔ دیگر معاملے ایک طرف ،یہ آج تک آوارہ کتوں کے پیچیدہ مسئلے کاحل کرنے میں ناکام رہی، اور تو اور اگر میڈیکل انسٹی ٹیوٹ صورہ، کشمیر یونیورسٹی، این آئی ٹی اور عوامی اہمیت کی ایسی دوسری جگہیں مکمل طور آوارہ کتوں کی آماج گاہیں بنی ہیںمگر کوئی پُرسان حال نہیں ۔ شہر کے مخصو ص آ ثار قدیمہ اور اُن دست کا ریو ں اور رو ایتی علوم و فنو ن کا بھی ستیا ناس کیا جا تارہا ہے ، باوجود یکہ یہ وادیٔ کشمیر کو انفرادیت عطاکر تے ہیں۔ ذرا سا اس جانب بھی ایک اُچکتی نگاہ ڈالئے ۔ سر ی نگر میں تعلیم یافتہ بے روزگاروں کا تذکرہ کرتے ہو ئے قلم کی آنکھ رو تی ہے اور اظہا ر کی زبا ن گنگ ہو تی ہے۔ کئی ایک دہائیوں سے شہر سری نگر کے اکثر تعلیم یا فتہ نوجوانو ں اور ان کے مایوس والدین کو اس دن کا انتظار ہے کہ کب وہ اپنا آذوقہ عزت وآ برو کے ساتھ کما سکیںلیکن انتظار ہے کہ ختم ہو نے کا نا م ہی نہیں لیتا۔ اہالیان شہر محسوس یہ کرر ہے ہیں جیسے سری نگر کے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ فٹ پاتھوں پر چھا پڑی فروش بننے یا آٹو ڈرائیوری کرنے کی طرف دھکیلا جا ر ہا ہے ۔گرچہ دیہی علا قو ں میں بھی روزگا ر کے حو الے سے معاملہ دودھ کی ندیو ں اور شہد کے نالو ں جیسا نہیں تا ہم وہا ں مسئلے کی شدت اس وجہ سے قدرے کم دِکھتی ہے کیو نکہ کم ازکم انہیں رہبر تعلیم ، ڈیلی ویجر، آ نگن واڑ ی ورکر وغیرہ ہو نے کا چانس توملتا رہتاہے ۔ ان کے مقا بلے میں شہر میں بو دباش رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوںکا خدا ہی حا فظ ہے۔ لہٰذا شہر ی عوام کو بھی اگر قانوناً بیک ورڈ ایئر یا(آر بی اے) کے زمرے میں شامل کیا جا ئے تو شاید قرین انصاف با ت ہو۔اُدھرسر ی نگر میں دیہی عوام کی مسلسل نقل مکانی سے تیز رفتاری کے ساتھ نئی کالنیوں کی تعداد سرعت کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔ اس کے پیش نظر دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ٹریفک نظام کی ابتری اور بلدیاتی مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں،مثلاً جابجا گند اورغلا ظت کے ڈھیر ، ڈرینج سسٹم کی تبا ہ حا لی، سڑکو ں اور گلی کوچوںکی خستہ حا لی ، ان کی مسلسل اکھا ڑ پچھا ڑ اور ہمچو قسم کے دیگر عوامی وسماجی مسائل کی مو جو دگی سے پتہ چلتاہے کہ یہاں زندگی کی اہم سہولیات کا فقدان ہی نہیں بلکہ بہ حیثیت مجموعی شہر میںسماجی شعور بھی روبہ زوال ہے۔ رہی با ت شہر کے فٹ پاتھو ں پر چھا پڑ ی فروشو ںاور ریڑ ھی با نو ں کے مستقل قبضے کی‘ اس سے چونکہ متعلقہ حکام کی اوپر ی آمدنی چلتی ہے ،اس لئے یہ اُن کی نظر میں کو ئی مسئلہ ہے ہی نہیں ۔ مختصر اًیہ کہ سری نگر کو ہر معا ملے میں نظر انداز کر نے کی جو خُو اور وضع عرصۂ دراز سے اقتدار کے ایو انو ں میں اختیا ر کی گئی ہے، اس کاثبو ت ہر دانا و بینا کو شہر کے گو شے گو شے میں مل سکتی ہے ۔ ان سلگتے مسائل کو آئیں بائیں شائیں کر کے جھٹلا یا نہیں جا سکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ سر ی نگر کی شا ن ِرفتہ لفظاً و معناً بحال کرنے کے لئے کمر ہمت باندھے تا کہ شہر کی انفرا دیت کاپر چم پھر سے فضا میں لہرا نے کے بین بین شہر خاص سمیت دوسرے تا ریخی ، مذہبی اور ثقافتی اہمیت کی حامل یادگارو ں کی حفاظت کی بحالی اور حفاظت کو اولیت ملے۔