ڈاکٹر عبدلمجید بھدواہی
میں اس خیال سے گھر سے نکلی کہ میں اب کہاں رہوں گی کیونکہ میں جنکے ہاں رہ رہی تھی وہ میرے دور کے چچا تھے۔ جنہوں نے اس وقت جذبات میں آکر مجھے پناہ دی تھی۔ مگر وہ وقتی جوش کا نتیجہ تھا ایسا میں نے اندازہ لگایا تھا۔ کیونکہ میں نے چاچی کی سر گوشی سنی تھی کہ اگر کسی کام سے شہر جانا پڑا تو اس لڑکی کا اس وقت کیا انتظام کریں گے۔ میں فکر مند تھی نہ کھانے کا من کر رہا تھا نہ نیند آ رہی تھی اور نہ سکوں۔ ہر وقت سوچتی تھی کہ میرا کیا بنے گا میں جوان لڑکی ہوں۔ کہاں رہوں گی کون پناہ دے گا۔ بس اللہ سے دعا کرتی تھی کہ اے اللہ میرا کوئی معقول انتظام کر۔ ورنہ میں کہاں رہوں گی کہاں بھٹکتی پھروں گی۔ بڑی بے بس اور پریشان تھی۔ رات بھر کروٹیں بدلتی رہی جس سے سر بھی بھاری لگنے لگا تھا۔ بات کرنے کو بھی دل نہیں کر رہا تھا۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ چچا بھی اور مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہے اور اتنی دیر تک کون کسی کو مہمان بنا کے رکھتا ہے۔
میں اسی اضطرابی حالت میں سوئی ہوئی تھی کہ میں نے خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا جو مجھ سے کہہ رہا تھا بیٹی گھبراؤ مت ! اللہ نے تمہارا بندوبست کر لیا ہے۔ میں نیند سے جاگی مگر اس عجیب خواب کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ سوچا بس خواب ہی تو تھا جو کچھ دماغ پر چھایا ہوا تھا وہی خواب بن کر نظر آیا۔ بڑے سوچ وچار کے بعد میں نے اپنی ایک سہیلی کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔ میں نے سوچا کہ ایک تو اسے خواب بھی سناؤں گی اور باتوں باتوں میں یہ بھی پتہ کروں گی کہ کیا وہ مجھے چند دن کے لئے اپنے ہاں رکھ سکتی ہے۔
اس خیال کو دماغ میں بٹھا کر میں سڑک پار کر رہی تھی کہ ایک تیز رفتار گاڑی نے مجھے ٹکر مار دی۔ قصور ڈرائیور کا نہیں تھا مجھے ہی صحیح سمت میں چلنے کا ہوش نہیں رہا۔ بے ہوشی کی حالت میں لوگ مجھے ہسپتال لے گئے۔ جب ہوش آیا تو میں نے اپنے آپ کو ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں پایا۔ ہسپتال کے سٹاف نے ایمر جنسی وارڈ میں موجود انچارج ڈاکٹر طیب کو بلایا۔ اس وقت تین چار ڈاکٹر ہسپتال کے کینٹین میں کافی پی رہے تھےاور وہ اپنے گھریلو مسائل پر بحث کر رہے تھے۔ سارے ڈاکٹر اپنی اپنی خوش بختی پر نازاں تھے۔ ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ بنگلہ ہے، کار ہے، بچے ہیں اور بچے کالج یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں مگر ڈاکٹر طیب قدرے مایوس تھا۔ اس نے کہا بھئی یہ سب تو میرے پاس بھی ہے مگر ایک کمی ہے۔ ایک بیٹی کی کمی ہے جس کے لئے ہم میاں بیوی سالہا سال سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ بھائی جس گھر میں بیٹی نہیں وہ گھر نہیں فقط مکان ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کی تو مانگتے رہیں گے۔ کبھی تو ہماری دعا ضرور قبول ہوگی۔
جب ڈاکٹر طیب مجھے دیکھنے آیا تو اس وقت تک علاج و معالجہ نے کافی حد تک اثر کیا تھا اور میں ہوش میں آچکی تھی ۔ میں نے اس ڈاکٹر کو پہچانا کہ یہ وہی شخص ہیں جنہیں میں نے خواب میں دیکھا تھا۔
بیٹی اب کیسا محسوس کر رہی ہو۔ اس نے میرا نام پتہ بھی معلوم کیا اور میرا فون نمبر بھی مانگا۔ ڈاکٹر طیب شہر کا مانا ہوا ڈاکٹر تھا۔ سبھی لوگ ان کی تعریفیں کرتے تھے۔ چچا جان بھی ان کو جانتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے چچا جان کو فون پر سارا ماجرا سناتے ہوئے کہا کہ’’ بیٹی اب ٹھیک ہے ۔ آپ اب ان کو لے جاسکتے ہیں لیکن تین روز بعد چیک اپ کے لئے ضرور لانا ہو گا۔‘‘
’’لیکن ہم تو کل شہر سے باہر جارہے ہیں‘‘، چچانے کہا۔
اب کیا بنے گا۔ یہ تو بڑا مسئلہ بن گیا چچانے کہا۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے جب تک آپ واپس لوٹیں گے یہ میرے ہاں ہی رہے گی۔ مجھے بھی تھوڑا ثواب کمانے کا موقع دیجئے۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو مجھے بتا دینا میں دس منٹ بعد پھر سے فون کروں گا۔ آپ تب تک مشورہ کر لیجیے گا۔ چچا سے پھر فون پر بات کی۔ چچانے کہا جی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ تو شہر کی شریف ترین شخصیت ہیں۔ آپ کو کون نہیں جانتا۔ بلا کسے اعتراض ہو سکتا ہے۔ ہم تو بالکل خوش ہیں۔
ٹھیک ہے میاں ہماری کوئی بیٹی نہیں ہے ہم اسے اپنی بیٹی کی طرح رکھیں گے۔ آپ آرام سے جائیے اور پھر واپسی پر لے کر جانا۔ ڈاکٹر طیب نے چچا سے کہا۔ ڈاکٹر جب لڑکی کو لے کر گھر پہنچا تو اس نے دروازے پر پہنچ کر ہی آواز دی بیگم دیکھو میں کسے لے کر آیا ہوں۔ ڈاکٹر طیب کی بیگم نے بڑی عزت سے لڑکی کو اپنے پاس بٹھایا خوب باتیں کیں اور بیٹی نے اپنی پوری آپ بیتی سنائی۔
یہ جو حال ہی میں سیلاب آیا تھا اس میں گاؤں کے گاؤں تباہ ہو گئے اور ہمارا گاؤں بھی اس کی زد میں آیا۔ لوگ کنگال ہو گئے۔ نہ گھر رہے نہ باغ اور نہ دکانیں رہیں۔ سب کچھ دیکھتے دیکھتے ہی ختم ہو گیا۔ ہمارا خاندان، باغ، دکان سب کچھ پانی میں بہہ گیا۔ صرف میں بچ گئی کیونکہ میں گھر سے باہر تھی اور پھر اس چچانے ہی میری بے بسی پر ترس کھا کر مجھے پناہ دی۔ یہ میرے دور کے چچا ہیں جو کہ خود اوسط درجے کے آدمی ہیں۔
اتنے میں ڈاکٹر صاحب منہ ہاتھ دھو کر اندر آئے اور دونوں میرے پاس آکر بیٹھے۔
ان کی بیگم نے کہا۔ ”بیٹی تم آج کے بعد ہمارے ساتھ ہی رہو گی“ اس گھر کو اپنا ہی گھر سمجھ لینا۔ ہماری بھی کوئی بیٹی نہیں ہے۔۔ ہم روزانہ اللہ سے دعا مانگتے تھے کہ ہماری تمنا پوری ہو جو آج پوری ہوگئی۔ اس نے اپنی خواب والی کہانی سنائی کہ دراصل اس نے ایک خواب دیکھا تھا جو وہ اپنی ایک سہیلی کو بتانے جا رہی تھی کہ راستے میں یہ حادثہ پیش آیا۔ اور جب ہوش آیا تو اپنے آپ کو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پایا جس ڈاکٹر صاحب کو خواب میں دیکھا تھا۔یہ وہی ڈاکٹر صاحب ہیں۔ ڈاکٹر کی بیگم نے کہا کہ بیٹی میں آپ کی ماں کو تھوڑا بہت جانتی تھی۔ میں ایک دن کسی کام سے آپ کے محلے میں گئی تھی۔ وہاں آپ کی ماں مجھے زبر دستی اپنے گھر میں لے گئی۔ میں نے وہاں آپ کو دیکھ کر کہا تھا کہ کاش میری بھی بیٹی ہوتی۔ تو آپ کی ماں نے کہا تھا کہ لے جاؤ ابھی میری اس بیٹی کو ۔
میں نے وہاں ایک بات نوٹ کی تھی کہ یہ کوئی مہذب خاندان ہے۔ میں نے ان سب باتوں کو مذاق سمجھ کر بھلا دیا تھا۔ مگر اب اتنے سالوں کے بعد ہماری دعائیں رنگ لاتی ہوئی نظر آرہی ہیں کیونکہ وہی لڑکی بیٹی بن کر ہمارے گھر آئی ہے جس کی ہم نے تمنا کی تھی۔ الحمد للہ ۔
���
ہمہامہ سرینگر، کشمیر،موبائل نمبر؛8825051001