سر سید احمد خاں کے علمی ، تعلیمی ، ادبی ، تدریسی ، سماجی اور اصلاحی رُتبہ ٔبلند کا ہر کوئی معترف ہے ۔ ان کی خدمات تعلیم سے لے کر ادب تک ہی مسلمہ نہیں بلکہ ممدوح نے سوانح نگاری ،مضمون نویسی، انشائیے غرض نثری ادب کی ہر صنف پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ دی اور ساتھ ہی ساتھ انسانی خدمات کا انمول سرمایہ اپنے پیچھے چھوڑ دیا ۔سر سید کا ایک ہی مدعا و مقصد تھا کہ میری سوئی ہوئی قوم بیدار ہو جائے، ملت کا ہر فرد تعلیم کے بل پر اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے۔ان کی تمام کاشوں کا مقصدوحید یہی تھا کہ کوئی بھی فردبشر ناخواندہ ، بیمار ، بھوکا یا بے کارنہ رہے۔ان کے’’ محتاج خانہ‘‘ سے چودہ ہزار محتاجوں کو گھنٹہ بھر میں کھانا تقسیم کیا جا یا کرتا تھا۔بیماروں کے لیے شفاخانہ اور ڈاکٹر ہمہ وقت موجود رہتاتھا۔زچوں اور شیر خوار بچوں کو بھی دودھ کا راتب دیا جاتاتھا۔ شہر کی وہ پر دہ نشین اور عزت دار عورتیں جو ’’محتاج خانہ‘‘ نہیں آسکتی تھیں، ان کے پاس سوت کاتنے کے لیے آٹھ آٹھ آنہ فی اسم اور ایک پٹاری روئی کے گالوں کی میر محلوں کی معرفت بھیج دی جاتی تھی۔جب سوت کت کر آجاتا تو اور روئی کاتنے کے لئے مع اُجرت بھیج دی جاتی تھی۔سر سید کے ایک مرادآبادی دوست بیان کرتے ہیں :’’اس زمانے کی عورتیں جو اب تک جیتی ہیں وہ سید احمد خاں کو اب تک دعائیں دیتی ہیں۔‘‘ آپ صبح شام بلاناغہ ’’محتاج خانہ‘‘ میں خود جا یا کرتے تھے،ایک ایک کی بیمار پُر سی کر تے اور نہایت شفقت سے ان کے ساتھ پیش آتے ۔مولانا الطاف حسین حالی ’’حیاتِ جاوید‘‘ میں لکھتے ہیں کہ راجہ جے کشن داس صاحب جو آخر کو سر سید کے نہایت قریبی دوست ہوگئے، جب اُن سے ملاقات نہ تھی،ان کا بیان ہے کہ جب سر سید نے رسالہ ’’محمدنز آف انڈیا‘‘ نکالنا شروع کیا تو اس کے بعض فقروں سے مجھے خیال ہوا کہ سید احمد خاں نہایت متعصب آدمی ہیں اور ہندوؤں سے ان کو کچھ ہمدردی نہیں ہے،اس وقت میرا مصمم ارادہ ہوگیا تھا کہ اسی طرح کا ایک رسالہ ہندو خیر خواہوں کے تذکرہ میں نکالا جائے۔انہی دنوں میرا مراد آباد جانا ہوا،’’محتاج خانہ‘‘ راہ میں پڑتا تھا۔وہاں سر سید سےمڈ بھیڑ ہوگئی،میں نے ان فقروں کا ذکر کیا جن سے ان تعصب کا خیال ہوا تھا۔انہوں نے معذرت کی اور قلم کی لغزش کا اقرار کیا۔خیر یہ تو ایک اخلاقی جواب تھا،مگر جس شفقت اور ہمدردی سے وہ اُس وقت ہر مذہب اور ہر قوم کے محتاجوں کے ساتھ پیش آ رہے تھے ،اس کو دیکھ کر میرا دل بالکل صاف ہوگیا اور مجھے حیرت ہوگئی کہ یہ شخص کیسی پاک طبیعت کا آدمی ہے!وہ دن اور آج کا دن، اُن کے ساتھ میری محبت روزبروز بڑھتی گئی اور اب جو کچھ میرا اُن کا معاملہ ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔‘‘(حیاتِ جاوید،ص ۱۰۸)
’’محتاج خانہ‘‘ کے علاوہ سر سید ذاتی طوراور ان کی نیک بی بی جو بہت زیادہ خدا ترس تھیں،غریبوں اور محتاجوں کی ہمیشہ خبر گری کرتے ۔ان کے مکان پر ہر روز ایک دیگ سالن اور روٹیاں محتاجوں میں تقسیم ہوتی تھیں۔بچوں کو سر سید کے ساتھ اتنی محبت تھی کہ سر سید کی عدم موجودگی ان کو رونے پر مجبور کراتی۔اُن کے ہاں چار پانچ لڑکے لڑکیاں رہتی تھیں جن سے بی بی صاحبہ کمالِ شفقت سے پیش آتی تھیں۔سر سید کہتے تھے کہ میرا مصمم ارادہ ہوگیا تھا کہ جب کبھی موقع ملے تمام ہندو مسلمانوں سے چندہ کر کے کسی صدر مقام میں ایک یتیم خانہ قائم کیا جائے، جہاں ہندوستان کے لاوارث بچوں کی پرورش ہو اور ان کو تعلیم وتربیت دی جائے۔ یتیموں،محتاجوں ، مریضوں، دین دُکھیوںکےساتھ ہمدردی وغم گساری کایہ حال دیکھ کر دل سے بے ساختہ نکلتا ہے :سر سید آپ کو سلام !!!
رابطہ:طالب علم:شعبہ اُردو۔۔۔ ساؤتھ کیمپس کشمیر یونیورسٹی
9596411285