فکروفہم
فہیم الاسلام ، پلوامہ
سر سید احمد خان برصغیر کی ان شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے مایوسی اور زوال کے دور میں اپنی قوم کو نئی راہوں کی طرف متوجہ کیا۔ وہ ایک مصلح، مفکر، تعلیمی رہنما اور سماجی دانشور تھے جنہوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ جدید تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ ان کی ساری جدوجہد کا مرکز یہی تھا کہ قوم جہالت اور جمود سے نکل کر علم، تحقیق اور عمل کے میدان میں آگے بڑھے۔انیسویں صدی کا ہندوستان مسلمانوں کے لیے زوال اور محرومی کا دوسرا نام تھا۔ سلطنت کے بکھرنے کے بعد مسلمان سیاسی طور پر بے اثر، سماجی طور پر کمزور اور علمی طور پر جمود کا شکار تھے۔ 1857 کی شکست نے اس بحران کو اور گہرا دیا۔ ایک طرف اقتدار کا زوال تھا تو دوسری طرف ذہنی و تعلیمی پسماندگی نے انہیں احساسِ کمتری میں مبتلا کر رکھا تھا۔ ایسے میں سر سید احمد خان کی شخصیت سامنے آتی ہے، جو نہ صرف ایک مصلح تھے بلکہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ زوال سے نکلنے کا واحد راستہ تعلیم ہے۔
سر سید کے نزدیک تعلیم محض ملازمت یا روزگار کا ذریعہ نہیں تھی بلکہ ایک پوری قوم کی فکری و اخلاقی بیداری تھی۔ وہ اس حقیقت کو بار بار اجاگر کرتے تھے کہ اصل محرومی غربت یا اقتدار کے کھو جانے کی نہیں بلکہ علم سے دوری کی ہے۔ ان کے خیال میں مذہب اور سائنس ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں اور اگر مسلمانوں کو ترقی کرنی ہے تو انہیں روایت اور جدت کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ عقل اور وحی میں ہم آہنگی تلاش کی جائے، تاکہ نئی نسل جدید دنیا کا سامنا بھی کر سکے اور اپنی تہذیبی و دینی بنیادوں سے بھی جڑی رہے۔
1857 کے بعد جب لوگ خوف اور مایوسی میں مبتلا تھے تو سر سید نے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مشہور کتاب اسبابِ بغاوتِ ہند لکھی۔ اس میں انہوں نے ایک طرف انگریزوں کی پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تو دوسری طرف ہندوستانیوں کی اپنی کمزوریوں کی بھی نشاندہی کی۔ یہ رویہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ اندھی مخالفت یا اندھی اطاعت کے قائل نہیں تھے بلکہ حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کرتے تھے۔ یہی ان کی فکری دیانت تھی جس نے آگے چل کر ان کی اصلاحی تحریک کی بنیاد ڈالی۔
ان کی عملی کوششوں میں تہذیب الاخلاق کا اجرا ایک سنگ میل تھا۔ اس رسالے کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں کو توہم پرستی، فرقہ واریت اور بے جا جمود سے نکالنے کی کوشش کی۔ وہ بار بار اس بات پر زور دیتے تھے کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ عقل و منطق کو اپنی زندگی کا حصہ نہ بنائے اور اپنے معاشرے کا احتساب نہ کرے۔ ان کی تحریریں محض نصیحتیں نہیں بلکہ ایک فکری تحریک تھیں جنہوں نے قاری کو سوچنے اور سوال کرنے پر مجبور کیا۔
تعلیمی میدان میں سر سید کی سب سے اہم کوشش سائنٹیفک سوسائٹی تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ مغربی علوم کو اردو میں منتقل کیا جائے تاکہ علم محض ایک طبقے تک محدود نہ رہے بلکہ عام آدمی تک بھی پہنچ سکے۔ یہ ان کے وژن کی عکاسی تھی کہ ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے جب علم کو عام کیا جائے اور زبان و ثقافت کو ساتھ لے کر چلا جائے۔
1875 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا قیام ان کی تحریک کا نقطۂ عروج تھا۔ اس ادارے کے قیام سے انہوں نے اس بات کو عملی شکل دی کہ مسلمان جدید تعلیم کو اپنائے بغیر وقت کے دھارے میں پیچھے رہ جائیں گے۔ ان کے نزدیک یہ ادارہ محض ایک کالج نہیں تھا بلکہ ایک نئی فکری و تہذیبی تحریک کا مرکز تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہاں قرآن کے مضامین بھی پڑھائے جائیں اور جدید سائنس کے قوانین بھی، تاکہ طلبہ ایک متوازن ذہن کے ساتھ آگے بڑھیں۔ یہی ادارہ آگے چل کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد بنا، جس نے پورے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی سوچ اور نئی خود اعتمادی پیدا کی۔اس سفر میں انہیں شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مذہبی قدامت پسندوں نے ان پر مغربی تعلیم کو فروغ دینے کے الزام میں تنقید کی اور بعض نے فتوے بھی دیے۔ دوسری طرف انگریز حکام بھی ان سے مطمئن نہ تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ تعلیم یافتہ مسلمان کسی دن سیاسی طور پر زیادہ باشعور ہو کر ان کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ لیکن سر سید نے ان تمام مخالفتوں کا جواب صبر، استقامت اور حکمت کے ساتھ دیا۔ وہ بار بار یہ بات دہراتے کہ اسلام کی اصل روح کو مناظروں یا بحثوں میں نہیں بلکہ کردار اور علم کی روشنی میں دنیا کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔
سر سید کی فکر کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا انسانی پہلو تھا۔ وہ محض مسلمانوں کے مصلح نہیں تھے بلکہ پورے ہندوستان کے لیے خیر خواہی کے جذبے سے سرشار تھے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کو ہندوستان کی ترقی کے لیے لازمی سمجھتے تھے اور تعلیم کو ایسا پل تصور کرتے تھے جو مختلف برادریوں کو قریب لا سکے۔ ان کے نزدیک ایک تعلیم یافتہ معاشرہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر بقائے باہمی، رواداری اور ترقی کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔آج جب ہم کشمیر کے تناظر میں سر سید کے افکار کو دیکھتے ہیں تو وہ مزید بامعنی لگتے ہیں۔ یہاں بھی تعلیم ہی کو نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہماری تعلیم ہمیں صرف نوکری دلانے کے قابل بنا رہی ہے یا ہمیں وہ شعور، برداشت اور اجتماعی ذمہ داری بھی سکھا رہی ہے جس پر ایک مضبوط معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ سر سید کی تعلیم کا مقصد محض ڈگری یا ملازمت نہیں تھا بلکہ ایسے انسان تیار کرنا تھا ،جو سوال کرنے کی جرأت رکھتے ہوں، دلیل کو سمجھتے ہوں اور دوسروں کے ساتھ جینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔آج کے دور کے مسائل سر سید کے زمانے سے مختلف ہیں۔ آج ہمیں انتہا پسندی، غلط معلومات اور ذہنی سطحیت جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ لیکن ان سب کا جواب وہی ہے جو سر سید نے دیا تھا،ایسی تعلیم جو انسان کو کھلے ذہن، روشن فکر اور انسان دوست بنائے۔ اگر ان کا یہ پیغام ہم اپنا لیں تو ہمارے تعلیمی ادارے بھی وہ چراغ بن سکتے ہیں جو آنے والی نسلوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم اور انسانیت کی روشنی کی طرف لے جائیں۔یقیناً، سر سید کی سب سے بڑی وراثت یہی ہے کہ انہوں نے اندھیروں میں ایک چراغ جلایا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس چراغ کو زندہ رکھیں اور اس کی روشنی کو نئی نسل تک پہنچائیں۔ یومِ سر سید کے موقع پر اصل خراج یہی ہے کہ ہم ان کی تحریک کو آگے بڑھائیں، اپنے اداروں کو تحقیق اور کردار سازی کا مرکز بنائیں اور اپنے نوجوانوں کو یہ سکھائیں کہ تعلیم کا مقصد صرف ذاتی ترقی نہیں بلکہ معاشرتی اصلاح اور انسانیت کی خدمت بھی ہے۔ سر سید کا خواب آج بھی زندہ ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسے حقیقت بنانے کے لیے تیار ہیں۔