سرسیّد احمد خانؒ نے ۱۸۸۶ء میں جو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی ،اس کانفرنس کا بنیادی مقصد قوم کی تعلیمی ترقی کے لئے اقدامات کرنا تھا۔ اس کا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ کانفرنس نے تعلیم کی اشاعت کے لئے مختلف مقامات پر جلسے کئے ۔ہر شہر اور قصبے میں اس کی ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ اس کانفرنس کی کوششوں سے ہندوستانی قوم کے اندر تعلیمی جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔ اس کانفرنس نے ملک کے ہر حصے میں اجلاس منعقد کئے اور قوم کو جدید تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا۔ کانفرنس کے سربراہوں میں نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، مولانا شبلی اور مولانا حالی جیسی ہستیاں شامل تھیں۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ مختلف شہروں میں ہوتا تھا۔ جہاں مقامی شخصیات سے مل کر تعلیمی ترقی کے اقدامات پر غور کیا جاتا تھا اور ان کے تجارتی، تعلیمی، صنعتی اور زراعتی مسائل پر غور کیا جاتا تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی ۱۹۰۶ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ڈھاکہ کے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر برصغیر کے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خاں کی دعوت پر ایک خصوصی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کے لیے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی جائے ۔ یاد رہے کہ سرسید نے اپنی قوم کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے کہ مسلمان ایک سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت محسوس کرنے لگے ۔ ڈھاکہ اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی۔ نواب محسن الملک، مولانامحمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، حکیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اکابرین اجلاس میں موجود تھے ۔ مسلم لیگ کا پہلا صدر سر آغا خان کو چنا گیا۔ مرکزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن برانچ کا صدر سید امیر علی کو بنایا گیا۔سر سیّد نے اپنی قوم کو مشورہ دیا کہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے حصول اورمعاشی و معاشرتی امور پر دیں تاکہ وہ دوسری قوموںکے برابر مقام حاصل کر سکیں۔وہ ہندو مسلم اختلافات کو ختم کر کے تعاون اور اتحاد کی راہ پر گامزن کرنے کے حق میں تھے ۔ انہوںنے دونوں قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی مسلسل کوششیں کیں۔ سر سیّد نے اپنی قوم کی علیحدہ قومی حیثیت کے حوالے سے ان کے لیے لوکل کونسلوں میں نشستوں کی تخصیص چاہی ،اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیے کھلے مقابلے کے امتحان کے خلاف مہم چلائی، اکثریت کی مرضی کے تحت قائم ہونے والی حکومت والے نظام کو ناپسند کیا۔ وہ اپنی قوم کوسیاست کے بکھیڑوں سے دور رکھنا چاہتے تھے ، اسی لیے انہوںنے مسلمانوں کو ۱۸۸۵ء میں ایک انگریز اے۔ او ۔ ہیوم کی کوششوں سے قائم ہونے والی انڈین نیشنل کانگریس سے دوررکھا۔ اس کی زبردست مخالفت کی اور اپنی قوم کو ہر طرح سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کی صلاح دی۔ انہیں مضامین کی وجہ سے سرسید احمد خان کے مخالفین پیدا ہوگئے اور ان کے خلاف مضامین لکھے جانے لگے ۔ جن اخبارات میں آپ کے خلاف مضامین شائع ہوئے اس میں مراد آباد سے شائع ہونے والا ’’لوح محفوظ‘‘ کانپور سے نکلنے والا ’’نور الآفاق ‘‘ اور آگرہ سے شائع ہونے والا ’’تیرہویں صدی‘‘ وغیرہ شامل ہیں اور ان میں سر سیدکے کارٹون بھی شائع ہوئے ۔مخالفین نے ان کے خلاف خوب زہر افشانی کی لیکن سرسیّدؒ کو اپنی قوم پر بھروسہ تھا ،وہ اپنے ارادے پر اٹل رہے ۔محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے مخالفین نے ایک فتویٰ علمائے مکّہ سے بھی منگوایا، جس میں تحریر تھا کہ ایمان والوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اس درس گاہ کو منہدم کردیں۔ اس کی سخت مذمت کرتے ہوئے سرسید نے انجمن اسلامیہ لاہور میں ایک عظیم جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :
’’میں عرض کرتا ہوں کہ میں ایک کافر ہوں مگر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر ایک کافر آپ کی قوم کی بھلائی کے لئے کوشش کرے تو آپ اس کو اپنا خادم اور خیر خواہ نہیں سمجھیں گے ۔ آپ میری محنت اور اپنی مشقت سے اپنے بچوں کے لئے ایک عظیم تعلیمی ادارہ بننے دیجئے۔ اس کالج کو قائم کرنے میں مجھے دس سال لگے ہیں اور آپ ایک ہی دن میں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔‘‘
سر سیّد احمد خان کروڑوں کے انبوہ میں اس وقت اکیلے تھے جنہوں نے ہندوستانی قوم کی بد حالی ختم کرنے پراپنے آپ کو کمر بستہ کر لیا تھا۔ان کے ساتھ بقول شاعر ’’لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا‘‘کے مصداق درد مند اقوام کے وہ افراد اکٹھا ہوگئے جو ہندوستانی قوم کی بد حالی پر خون کے آنسو روتے تھے ۔ البتہ ان کے بعض مذہبی مفکوروں اور خیالات سے اتفاق ضروری نہیں ۔ بہ حیثیت مجموعی ہم کہہ سکتے ہیں کہ سر سیّد احمدکا اوڑھنا بچھونا اپنی قوم کی تعلیمی، معاشی سماجی اور سیاسی ترقی ونمو تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ابوالکلام آزاد جیسے بڑے محقق اور جید عالم دین سر سیّد احمد خان کی بڑائی کے حوالے سے یہ کہہ گئے کہ’’ اگر اسلام میں بت پرستی جائز ہوتی تو میں سر سید کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا‘‘ ۔لہٰذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ سر سیّد احمد خانؒ مسلمان قوم کے محسن وخیرخواہ اعظم تھے اور ان کی جیسی عبقری ونامور شخصیات صدیوں میں ایک پیدا ہوتی ہے ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
)ختم شد)