گزشتہ ایک ماہ سے سری لنکا میں اقلیتی مسلم آبادی کا جینا حرام ہورہاہے۔ اس اقلیت پر بودھ اکثریتی سنہالیوں کے ہاتھوں تادم تحریر جو صدمہ خیز قیامتیں ڈھائی جارہی ہیںاُن سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ یہاں جنگل راج کا بول بالا ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کو جرم ِ ضعیفی کی سزا میں مارا پیٹا جاراہے ، ان کے گھر بار نذر آتش کئے جارہے ہیں،اُن کی دوکانیں اور کارخانے لوٹے جارہے ہیں ، ابھی تک ایک مسجد بھی آگ زنی کی واردات میں خاکستر کئے جانے کی اطلاع ہے اور لوٹ پاٹ کی خبریں ہیں کہ انسانی دل پاش پاش ہوجاتا ہے ۔ بلوائیوں کے حملوں میں اب تک کتنے مسلم کا م آئے ، کتنے مضروب ومجروح پڑے ہیں ، کتنے بے گھر ہوئے،اس بارے میں کوئی مصدقہ اعداد وشمار میسر نہیں ۔ حکومتی نقطہ ٔ نظر سے مسلم کش حملوں کی ابتدا کینڈی سے ہوئی جو سرعت کے ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میںپھیل گئے ،نتیجہ یہ کہ مسلم اقلیت کی جان کےلا لے پڑگئے ۔ بظاہر حکومت نے مسلم کش فسادات پر قابو پانے کے لئے دس روزہ ہنگامی حالات کا نفاذ عمل میں لایا جس کی معیاد دودن قبل ختم ہوئی ۔ اس حکومتی اقدام کے باوجود سری لنکن پولیس نےبلوائیوں کو مسلم اقلیت کے خلاف دھاوا بولنے سے کہیں بھی نہ روکا ۔ یہ گویا بودھ اکثریت کو اُسی طرح مسلم اقلیت پر پل پڑنے کے لئے پیٹھ ٹھونکنے کا اشارہ تھاجیسے گجرات اورمظفر نگر کے بدنام زماں مسلم کش بلوؤں میں پولیس کا ننگ ِ انسانیت کردار رہا ۔ سچ یہ ہے کہ سری لنکا ئی مسلمانوں کے خلاف انتقامی فضا پچھلے ایک سال سے پروان چڑھائی جاتی رہی ، بودھ آبادی خاص کر لٹے پٹے روہنگیا مسلمانوں کی ملک میں پناہ گزینی پرمعترض ہے ا ور اس کے خلاف سر کش عناصر اور فتنہ بازوںمیںخداواسطے بیر کا لاوا پکتا رہا ۔ فی الوقت فسادزدہ علاقوں میں بے یار ومددگار مسلمان جان بچانے کے لئے گھروں سے بھاگ رہے ہیں لیکن اس افراتفری کے عالم میںوہ اپنے لئے کہاں محفوظ جائے پناہ ڈھونڈیں، یہ شاید انہیں بھی پتہ نہیں۔ ۲۱ ؍ ملین آبادی والے جزیرےمیں مسلمانوں کی تعداد صردف دس فی صد ہے جب کہ سنہالی اکثریت کی تعداد ۷۵ ؍ فی صد ہے اور ۱۳ ؍فی صد دیگر مذاہب کے ماننے والے اس جزیرے میں آباد ہیں ۔ سارک ممالک میںمیانمار کے بعد سری لنکا دوسرا ملک ہے جہاں فی زماننا مسلمانوں کی زندگیاں مذہبی بنیادوں پرداؤ پر لگی ہوئی ہیں ۔ کہاجاتاہے کہ سری لنکا میں فرقہ وارانہ کشیدگی اس وقت نمودار ہوگئی جب یہاں کے مشتعل بودھوں نے مسلمانوں پرا لزام لگایا کہ وہ بدھ مت کے پیروکاروں کو تبدیلی ٔ مذہب کی ترغیبیں ہی نہیں دے رہے ہیں بلکہ انہیں قبولیت ِاسلام کے لئےمجبور بھی کر رہے ہیں تاکہ ملک کا آبادیاتی تشخص درہم برہم ہو۔ ظاہر ہےیہ اسی نوع کی بے ہودہ الزام تراشی ہے جیسے جارج بش نے عراق پر جنگ تھوپنے کی نیت سے یہ بکواس ہانکی تھی کہ صدام کے پاس بقول اس کے بھاری پیمانے پر انسانوں کی ہلاکت خیز ی کااسلحہ موجودہے مگر جب عراق کو تاراج کر نے کے بعد امریکہ نے ملک کا چپہ چپہ چھان مارا توویپن آف ماس ڈسٹرکشن کا نام ونشان نہ پایا اور پھر بڑی بے شرمی سے اعتراف کر لیا کہ یہ اطلاع غلط تھی ۔ امریکہ کا یہ اعتراف جب منظر عام پر آیا اُس وقت تک عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاچکی تھی ، یہاں بم اوربارود کی تباہیاں اپنی جوبن پر تھیں ، لاکھوں لوگ قبروں میں ابدی نیند سوچکے تھے۔ بعینہٖ گزشتہ سال میانمار میں مسلح بودھ بلوائیوں نے رخائین میں صدیوں سے گزر بسر کر نے والے روہنگیا مسلمانوں کو تہِ تیغ کر نے کے لئے بہت پہلے یہی عذرلنگ تراشا تھا کہ ملک کی مسلم اقلیت بودھوں کو مسلمان بنا نے پر کمربستہ ہے۔اسی بہانے روہنگیا مسلم کمیونٹی کو رونگھٹے کھڑے کر نےو الے قتل و غارت اور آتش زنیوں سے پامال کر کے رکھا گیا ۔ برمی مسلمان بودھ دہشت گردوں سے اتنا خوف زدہ ہوگئے کہ چھ لاکھ نفوس بے خانمانی کی حالت میں ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے ۔ یہ لوگ اس وقت بھی انتہائی کسمپرسی اور کرب ناک حالات میں خیمہ بستیوں میں رہ رہے ہیں ۔ بہر حال سری لنکا کے بے کس مسلمانوں پر یہی اُفتاد پڑی ہے اور ان کے لئے زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہورہی ہے۔ ان کاایک ایسے دشمن سے پالا پڑا ہواہے جس کے پاس عددی قوت بھی ہے اور حکومتی ا ختیارات بھی ہیں۔اس لئے لنکائی مسلمانوں کی سلامتی کے بارے میں خدشات بڑھ جانے کے سبب صرف کف ِ افسوس مَلے جاسکتے ہیں ۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد جب سےامریکہ نے واحد سپر پاور کا درجہ پالیا ، وہ لٹھ لے کر مسلمانوں کے تعاقب میں ہے اور انہیں زک پہنچائے بغیر چین کی نیند سو نہیں سوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ زبانی کلامی امریکہ ہیومن رائٹس اور ڈیماکریسی کی باتیں کر تا رہتاہے لیکن عمل کا حال یہ ہے کہ مسلمان جتنے مظلوم ومقہور ہوں،واشنگٹن اتنا خود کو نفسیاتی طور مطمئن پاتاہے ۔ امریکہ کی دیکھا دیکھی میںعالمی برادری میں بھی ایک غیر تحریری اتفاق رائے یا اجماع جیسا پایا جاتا ہے کہ جہاں کہیں زیر دست مسلم آبادیاں اپنے حکمرانوں یا اغیار کے ہم نوا ؤں سےجانی اور مالی نقصانات سے دوچار ہوں، اُس پر اپنے ہونٹ سی لو، اپنی آنکھوں پر پٹی چڑھا دو ، کانوں میں گراںگوشی کی ڈاٹ ٹھونس دو اور جہاں بھی ممکن ہو سازشیں رچا رچاکرظالم کے شانے تھپتھپاؤ اور مظلوم کے ہرے زخموں پر نمک پاشی کرو ۔ عالمی سیاست کے اس عصری مزاج میں جب ہم شام ، عراق ، فلسطین ، افغانستان ، برما ، ہندوستان اور اب سری لنکا میںمسلمانوں کی مظلومیت اور حالت زارکے مایوس کن مناظر دیکھتے ہیں تو یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کس طرح جرم بے گناہی کی پاداش میں نہتے مسلمان بلا کسی روک ٹوک قتل کئےجارہے ہیں،ان کی املاک بھسم کی جارہی ہیں ، ان کی زندگیاں ناقابل بیان حد تک اجیرن بنائی جارہی ہیں ، ستم بالائے ستم یہ کہ اس سب کے باوجود مسلمانوں کو ہی ہر مرض کا سبب گردانا جارہاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی شبیہ ہی مسلسل مسخ نہیں ہورہی ہے بلکہ اُن کی مشکلیں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں ۔ بے شک سری لنکا کے مسلمان جس ناگفتہ حالات سے دوچار ہیں ، ان پر ایک معروف کرکٹر کمار سنگا کارا دل پسیج گیا، انہوں نے بر ملا ایک ویڈیو پیغام میں مسلم مظلومین کے ساتھ یکجہتی کے طور اعلان کیا کہ ملک میں کسی کو بھی قومیت یا مذہب کے نام پرنقصان پہنچاننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہم ایک قوم اورایک ملک ہیں، محبت اعتماداور رواداری ہمارا مشترکہ نصب العین ہونا چاہیےلیکن اس بلے باز کی خوش گفتاری سے انتقام گیری کی وہ نسل پرستانہ اور فرقہ وارانہ آگ بجھ نہ پائی جو سری لنکن مسلمانوں کاحال روہنگیا جیسا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس اندوہ ناک صورت حال کے بین بین ایک اذیت ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ خودمسلمان بھی مسلک اور مکتب ومشرب کے نام پر دست و گریبان ہیں، نسل ، زبان ، رنگ اور دوسرے تفرقات اور بکھیڑوں میں پڑکر انہیںآپسی قوت اور اجتماعیت واخوت تک کو پارہ پارہ کر نے پر کوئی پچھتاوا نہیں ۔اس تلخ حقیقت کا ثمرہ یہی ہے کہ مسلمان کہیں سکھ چین اور وقار و سنجیدگی سے نہیں جی رہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاںمسلمانانِ عالم دنیائے انسانیت کے روبرو اپنا دُکھڑا غیر جذباتی انداز میں حقائق کی بنیاد پر لانے کی سعیٔ مشکور کریں،وہیں اپنا محاسبہ اس زاویۂ نگاہ سے کرلیں کہ کہیں ملت کی اس تباہی وبے آبروئی میں ہمارےا پنے اعمالِ بد کا بھی عمل دخل تو نہیں ۔