محبت اور عدم تشدد کا سفیر کہلائےجانے والا کوئی روحانی پیشواجب خود ہی نفرت کی زبان بولنے لگے تو اس سے افسوس ناک اور مایوس کن بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ کچھ ایسا ہی گزشتہ سوموار کو اس وقت دیکھنے کو ملاجب "انڈیا ٹوڈے " سے بات چیت کرتےہوئے ، "آرٹ آف لیونگ "کے بانی شری شری روی شنکر نے مسلمانوں کو کھلے عام دھمکی دی کہ اگر انہوں نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کو نہیں دی تو یہ ملک شام بن جائے گا۔اس بیان کے کچھ ہی دن کےبعد روی شنکر نے پھر عوام کے جذنات کو محروح کیا،کشمیر میں’’ پیغامِ محبت ‘‘ پروگرام کے دوران انہوں نے کشمیری میں ہو رہےریاستی ظلم و تشدد کی مذمت کرنے اور حکام کی سزرنش کرنے کی بجائےاُلٹا عوام کوہی نصیحت کی کہ وہ تاریخ (یعنی اپنے اوپر ڈھائے گئےسابقہ مظالم ) کو فراموش کر دیں ۔ حالانکہ ماضی میں بھی روی شنکر نے بہت سارے متنازعہ بیانات دئے ہیں، مگر اس بار تو انہوں نے ساری حدیں پار کردی ہیں اور اس خدشہ کو مزید تقویت دی کہ روحانیت کی آڑ میں ان کا اصل مقصدبھگوا قوتوں کے لئے سیاسی زمین تیار کر نا ہے ۔
ہفتہ عشرہ قبل روی شنکر اُترپردیش کے دورہ پر تھے اور وہاں بھی وہ مسلمانوں کے خلاف بولے۔ گزشتہ ۲۶ ؍دسمبر کو بنارس میں بولتے ہوئے روی شنکر نے مسلمانوں کو مہابھارت کے دُریودھن سے تشبیہ دی۔ "دینک جاگرن" اخبار نے روی شنکر نےکے بیان کا اختصار ان الفاظ میں بیان کیا ہےکہ رام مندر سے سو کڑورلوگوں کا عقیدہ جڑا ہوا ہے، اس کا احترام ہونا ہی چاہئے، اس سے زیادہ قیمتی زمین کا ٹکڑا نہیں ہو سکتا اوراس بات سے فریقین کے زیادہ تر لوگ راضی ہیں، لیکن، کچھ دُریودھن تو ہمیشہ ہوتے ہی رہتے ہیں جو ایک اِنچ زمین بھی نہیں دوں گا جیسی باتیں کر رہے ہیں۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو ایسے لوگ مہابھارت کے دُریودھن کی ہی باتیں دوہرا رہے ہیں۔ اس سے تو نہ دھرم مانےگا ، نہ جنتا اور نہ ہی اِیشور۔( دینک جاگرن، راشٹریہ سنسکرن،28 فروری،ص ۴)
مہابھارت (قدیم بھارت)کی ایک منظوم داستان ہے، جس میں دُریودھن ایک متنازعہ کردار ہےاوروہ ہستناپور ریاست کا راجہ دھرت راشٹر کا بڑا بیٹا تھا ، جس کا اپنے چچا زاد بھائیوں (پانڈوؤں) سے راج پاٹ کے مسئلہ پر اختلاف تھا اور بعد میں ان کے مابین اسی اختلاف کی وجہ سے ایک انتہائی خونی جنگ ہوئی۔ برہمنی تشریحات نےدُریودھن کےکردار کو کافی منفی دکھایا ہے ، جو اپنے بھائیوں کی حق تلفی کرتا ہے، ان کے ساتھ طرح طرح کی سازشیں کرتا ہے اور پانڈوؤں کی بیوی دروپدی کی عزت کو بھی تار تار کرنے کی جرأت کرتا ہے۔ جنگ روکنے کے مقصد سے ایک بار کرشن دُریودھن کے پاس پانڈو کا سفیر بن کر جاتے ہیں اور اس سے گزارش کرتے ہیں کہ امن اور صلح کی خاطر وہ سارا راج پاٹ اپنے پاس رکھ لے اور پانڈو کو صرف پانچ گاؤں دے دے تاکہ وہ بھی اپنی زندگی گزر بسر کر لے مگر دُریودھن کرشن کی اس تجویز کو ٹھکرا دیتا ہے اور پانڈو کو سوئی کی نوک برابر زمین دینے سے انکار کر دیتا ہے۔دُریودھن کی مثال دے کر روی شنکر اپنے آپ کو کرشن اور مسلمانوں کو امن اور صلح کی راہ میں رکاوٹ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں، اس میں ان کی دھمکی بھی مضمر ہے کہ اگر مہابھارت یعنی جنگ(کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ) ہوتی ہے تو اس کے ذمہ دار مسلمان ہوں گے۔اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جب وہ اپنے حریفوں کو دُریودھن کہہ رہے تھے تو انہوں نےمسلمانوں کا نام نہیں لیا، مگر کون اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ ان کا اشارہ عام مسلمان اور ان سے وابستہ ملّی تنظیموں کی طرف تھا۔
اس سے پہلے بھی روی شنکر بھگواقوتوں کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے مسلمانوں کو "حج سبسڈی" اور ان کی منہ بھرائی (تُشٹی کرن) کے خلاف بول چکے ہیں، مگر روی شنکر یہ بھول جاتے ہیں کہ حج سبسڈی کی آڑ میں حکومت مسلمانوں کو سرکاری ہوائی جہاز سے جانے کے لئے مجبور کرتی ہے اور ان کو مہنگے دام پر اس کا ٹکٹ بھی بیچتی ہے۔ رہی بات مسلمانوں کی منہ بھرائی کی تویہ بھی پوری طرح سے بھگوا پروپیگنڈا ہےکیوں کہ مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی حالات دیگر مذہبی گروپوں کے مقابلے میں بہت ہی خراب ہے، جیسا کہ سرکاری اعداد و شمار صاف طور سے واضح کرتے ہیں۔ بات صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے، روی شنکرکے اندر زبردست طریقہ سے غریب مخالف جذبات بھی پائے جاتے ہیں اور وہ سماجی اور مساوی نظام مخالف بیان بھی دے چکےہیں، اس کے برعکس وہ سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کرتے ہیں، ان کابس چلے تو سارے سرکاری اسکول بند کر دیں اور ان کی جگہ پرائیویٹ اسکول کھول دیں تاکہ سرکاری اسکول سے بچہ "نکسلی" بن کرنہ نکلے۔ روی شنکر کو کون بتایئے کہ سرکاری اسکول میں پڑھنے والا بچہ اگر نکسلی بن کر نکلتا تو ملک میں نکسلیوں کی تعداد اب تک کروڑوں تک پہنچ جاتی۔ ان کے اس بیان میں غریب مخالف جذبات صاف ظاہر ہو رہے ہیں، ان کو کون سمجھائے کہ ملک کی ایک بڑی آبادی خطِ افلاس کے نیچے زندگی گزارتی ہے ، جن کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا دشوار ہے، وہ اپنے بچوں کی اسکول فیس کیسے ادا کر پائیں گے۔ سب کی معاشی حالت ان کے خوشحال بھکتوں کی طرح نہیں ہے۔
روی شنکر کے ساتھ میرےبھی تجربات کچھ اسی طرح کےہیں،آج سےتقریباًدس سال پہلےروی شنکرسےمیری پہلی اورآخری ملاقات’’ انڈین ایکسپریس ‘‘کےدفتر میں ہوئی تھی،جہاں وہ صحافیوں سےگفتگوکررہےتھے، یہ تب کی بات ہےجب میں صحافت(جرنلزم) میں ڈپلومہ کرنے کے بعد وہاں بطوررپورٹرکام کررہاتھا۔ وہ جرنلزم میں میرےوہ شروعاتی دن تھے، وہاں موجودسینئرصحافیوں نےمختلف قسم کےسوالات کیےجوروحانیت کےموضوع کےآس پاس تھے،مگرمیرےدل ودماغ میں کچھ اورہی چل رہاتھااورجونیئرہونےکی پرواہ کئے بغیر میں نےروی شنکرسےپوچھ ڈالاکہ جس پیٹ میں بھوک کی آگ سلگ رہی ہووہاں روحانیت کیسےعافیت عطاکرسکتی ہے؟روی شنکرکاجواب یہ تھا کہ اس طرح کےسوالات ان سےاس سےپہلےجےاین یومیں کیےگئےتھے۔ان کا اشار ہ اس طرف تھا کہ کمیونسٹ خیال کےلوگ اس طرح کے "بے جا" سوالات کیا کرتے ہیں۔روحانی پیشوا ہونے کا دعویٰ کرنے والے روی شنکر نے سیاست کی پچ پر بھی بھگوا ٹیم کی طرف سے بہت سارے رَن بنائے ہیں، مودی کی قیادت والی بی جے پی کے سوشل بیس کو بڑھایا ، مینجمنٹ اور پروفیشنل شعبوں میں کام کرنے والے طبقوں کو روحانیت، نیشنلزم اور بدعنوانی سے پاک بھارت کے نام پر بھگوا سیاسی جماعتوں کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ منموہن سنگھ کی قیادت والی گزشتہ حکومت کے خلاف بدعنوانی کا جو ماحول بنا تھا ، اس میں روی شنکر نے بھی اہم رو ل اد ا کیاتھا اور کالا دھن کے خلاف آواز بلند کی تھی، مگر جب موجودہ سرکار نےکالادھن ختم کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اُٹھایا تو روی شنکر نے ان کو کبھی یاد نہ دلایاکہ وہ کالا دھن ملک میں واپس لاکر ہر بھارتیہ کے بنک اکاؤنٹ میں پندہ لاکھ روپے فی کس جمع کر نے کا وعدہ کیا ہوا۔ کیا وجہ ہے کہ ایک خاص حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کے لئے روی شنکر بابا سے سیاست داں بن جاتے ہیں اور جب ان کی پسندیدہ سرکار اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے تو وہ پھر سے ’’سنیاسی ‘‘بن جاتے ہیں اور سیاست سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں ؟
علاوہ ازیںروی شنکر نے مارچ، 2016 ئ میں دہلی کے جمنا کنارے ’’آرٹ آف لیونگ ‘‘ کا ایک بڑا پروگرام منعقد کیا تھا جس کی وجہ سے ماحولیات کا کافی نقصان ہوا تھا ، ان پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا اورروی شنکر بڑے پیمانہ پر تنقید کا نشانہ بھی بنےتھے ۔ کیا یہ واتاورن کے ساتھ ان کا اتیاچار نہیں ؟ اپنی تقریر میں روی شنکر اکثر ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں ، مگر جب عمل کی بات آتی ہے تو یہ بھول جاتے ہیں کہ دریا اور اس کےآس پاس کی فضاکی ہم آہنگی بگاڑنا غیر مناسب ہے،ہم آہنگی کی بات کرنے والے سماجی ہم آہنگی بگاڑنےوالے شدت پسند اور متشدد عناصر کو اقتدار میں لانے کے لئے سب کچھ کرنے کوکیسے تیار ہو جاتے ہیں؟جہاں تک بات بابری مسجد رام مندر تنازعہ میں ثالثی کی ہے، یہاں بھی روی شنکر نے دیانت داری نہیں دکھائی ہے،اگر روی شنکر بابری مسجد کا تنازعہ حل کرنے کے لئے واقعی سنجیدہ ہیں تو کیا وہ اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حکومت اس کے بعد کسی بھی مذہبی مقام کی مکمل تحفظ کی ذمہ داری لےگی؟ بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ کی زد میں آنے والے سارے لوگوں کو انصاف ملےگا؟ کیا نفرت پھیلانے والے سارے لوگوں کو سزا ملےگی؟ کیا سرکار شدت پسند تنظیم اور اس سےوابستہ عناصر کو قانون شکنی کے جرم میں گرفتار کرےگی؟ کیا مسلمانوں کے فلاح اور بہبود کے مسائل جیسے ریزرویشن کو بھی سرکار کورٹ میں چیلنج نہیں کرے گی اور مل بیٹھ کر اس کی راہ ہموار کرےگی؟
…………………………
نوٹ :مضمون نگارجے این یو میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں.
Website: abhaykumar.org