پرویز احمد
سرینگر //اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وادی میںسسرال میں لڑائی ، مار پیٹ اور جہیز کی مانگ کی وجہ سے کئی لڑکیوں نے خود سوزی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ہے لیکن کچھ لڑکیاں ایسی بھی ہیں جنہوں نے اپنے ساس سسر اور اہلخانہ کو روزی روٹی فراہم کرنے اور ان کی زندگی سنوارنے کیلئے روایات سے ہٹ کر کام کئے ۔حالیہ چند برسوں میں سرینگر اور وادی کے کئی علاقوں میں خواتین نے اپنے بل بوتے پر کاروباری ذرائع تلاش کئے اور نہ صرف اپنی آمدن کا وسیلہ تلاش کیا بلکہ دیگر لوگوں کو بھی روزگار دیا ہے۔کئی نوجوان پڑھی لکھی خواتین نے ریسٹورنٹ کھولنے، کئی ایک دستکاری کی طرف مائل ہوئیں، کئی کیلی گرافی کے فن میں آگے بڑھیں ، کئی سبزی اگانے کے شسبے میں آگے بڑھی اور کئی دودھ کی پیدوار بڑھانے کے کاروباری سے منسلک ہوئیں۔
اسکے لئے دیگر فنی مہارت حاصل کرنے کیلئے بھی خواتین ااگے آئیں اور انہوں نے کچھ ایسے شعبوں کا انتخاب کیا جن کی پہچان آج تک مرد ہواکرتے تھے۔بلاشبہ ایسی خواتین خراج تحسین کی مستحق ہیں جنہوں نے اپنے پائوں پر کھڑے ہوکر سماج کو ایک نئی راہ دکھائی اور روزگار کی متلاشی خواتین کیلئے ایک مشعل راہ بھی بنیں۔ کوثر جان بھی ان ہی خواتین میں ہیں جنہوں نے سماجی بندشوں سے ہٹ کر ایک نئی راہ متعین کی جس سے اسکے شوہر کی بیماری کیلئے درکار پیسہ اپنے بچوں اور سسرال میں بہتر زندگی گذارنے کی راہ ہموار ہوئی۔کوثر جان کشمیر کی پہلی آٹو رکھشا ڈرائیور بن گئی اور وہ پچھلے ایک سال سے آٹو چلا کر اپنے سسرال، بچوں اور شوہر کی مجبوریوں پر قابو پانے میں مصروف عمل ہیں۔کوثر جان نے پچھلے ایک سال کے دوران سخت محنت کرکے دوسراآٹو رکھشا خریدنے بھی پیسہ جمع کئے اور اب2آٹو رکھشا خرید کرکاروباری بن گئی ہے۔ کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کوثر جان نے بتایا ’’ میرے شوہر ایک پیچیدہ جراحی کے عمل سے گزرے ہیں اور ڈاکٹروں نے انہیں کام کرنے سے منع کیا ہوا ہے‘‘۔انہوں نے کہا میں پچھلے ایک سال سے آٹو رکھشا چلا کر نہ صرف اپنا ، اپنے بچوں اور شوہر کا پیٹ پال رہی ہوں بلکہ اپنے ساس سسر کیلئے بیٹا بن کر کام کررہی ہوں اور ان کو کسی بھی صورت میں کسی چیز کیلئے محتاج نہیں ہونے دے رہی ہوں‘‘۔ کوثر جان کا کہنا تھا کہ ہمارے سماج میں خواتین کو بڑی عزت دی جاتی ہے اور وہی عزت میں لوگوں کی آنکھوں میں دیکھتی ہوں کیونکہ جو بھی سواری آٹو رکھشا میں بیٹھتی ہے وہ حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اسی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ایک سال بعد ہی وہ دوسرا آٹو رکھشا خریدنے کی پوزیشن میں ہوں۔کوثر کا کہنا تھا ’’ آٹو چلا کر میں اچھا کماتی ہوں اور اگر کام اچھا رہا تو دن میں2 ہزار تک کما لیتی ہوں‘‘۔ایک آٹو فروخت کرنے والے ڈیلر نے بتایا کہ کشمیر میں پہلی مرتبہ کوئی خاتون آٹو چلا رہی ہے اور لوگوں کی طرف سے انہیں کافی حوصلہ افزائی مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خاتون ایک سال کے اندر ہی دوسرا آٹو رکھشا خریدنے آئی ہے اور اپنے ا ہلخانہ کی مدد کرنے کیلئے روایات سے ہٹ کر کام کرنا پڑرہا ہے جو کامیاب بھی رہا ۔انہوںنے بتایا کہ اس خاتون کی محنت رنگ لائی ہے اور یہ اپنے اہلخانہ کیلئے کمائی کا واحد ذریعہ بھی بن گئی ہے۔