سرینگر//ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے بی جے پی کی طرف سے دربار مو کی روایت ختم کرنے کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقت آ چکا ہے کہ سرینگر کی حیثیت کو ریاست کے مستقل دارالحکومت کے طور بحال کیا جائے ۔ سرینگر میں مختلف طبقہ فکر کے لوگو ں سے تبادلہ خیال کے دوران انجینئر رشید نے کہا ’’سال میں دو بار دربار مو کے نام پر نہ صرف خطیر رقم خرچ ہوتی ہے بلکہ اس عامرانہ روایت کا ریاست کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ۔ نہ صرف بیوروکریٹوں اور سیاستدانوں کو دربار مو کے بہانے عیاشی اور سیر و سیاحت کرنے کا موقعہ ملتا ہے بلکہ اس بیہودہ عمل سے سرکاری کام کاج بری طرح متاثر ہوتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اہم معاملے کو سیاست سے بالا تر رکھ کر انتظامی مسئلے تک محدود رکھا جائے اور کوئی فیصلہ لینے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر تنظیموں اور اداروں سے پوری ریاست میں پُر خلوص اور با معنیٰ مشاورت کی جائیـ‘‘۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے اس بیان کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا تاج ہے کہا ہے کہ ایسا کہہ کر اُن کا دوہرا چہرہ خود ہی بے نقاب ہوا ہے ۔ انجینئر رشید نے کہا ’’اگر جموں و کشمیر ہندوستان کا تاج ہے تو پھر محبوبہ مفتی رات دن حریت اور پاکستان سے مذاکرات کے نام پر مرثیہ خوانی کیوں کر رہی ہیں۔ اُن سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر جموں و کشمیر ہندوستان کا تاج ہے تو پھر مذاکرات کس سے اور کیوں کئے جائیں اور نیز اِن مذاکرات کے دوران نئی دلی کشمیریوں کو کیا دے سکتی ہے اور خود کشمیریوں کی قیادت نئی دلی کو کونسی رعایت دے سکتی ہے ۔جموں و کشمیر ہندوستان کا تاج ہوتا تو شائد نئی دلی اپنے سر کو دن میں سو بار زوردار جھٹکے دیکر تاج کو پائوں تلے نہیں رونددیتی ۔ صاف ظاہر ہے کہ محبوبہ مفتی BJPکے ساتھ اپنے رشتے کو قائم رکھنے اور عام لوگوں کی نظروں میں دھول جھانک کر در اصل اپنی لنگڑی کرسی بچانا چاہتی ہیں‘‘۔ انجینئر رشید نے وزیر اعلیٰ کی طرف سے ہندوستان کی قومی سطح کی چند TVچینلوں کے متعلق اس بیان کہ ہ وزہرپھیلا کر غلط پروپگنڈہ کر کے حالات کو مزید خراب کرتی ہیں کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ’’جہاں تمام کشمیری قوم اس بات ہر متفق ہے کہ یہ ینلیں ہر بار کشمیریوں کی دل آزاری کرتی ہیں وہاں اگر واقعی محبوبہ مفتی کی نظروں میں بھی ہندوستان کی کچھ چینلیں جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر رہی ہیں تو وہ ان چینلوں کی نشریات کو ریاست میں روکنے کا حکم کیوں نہیں دیتی ہیں۔ جس طرح وزارت داخلہ کے جونئیر افسروں کے معمولی اشاروں پر صرف چند گھنٹوں کے اندر چونتیس چینلوں کو جرم بے گناہی کی پاداش میں اسلامی تعلیمات نشر کرنے کی سزا دی گئی کیا محبوبہ مفتی چلانے اور شکوے کرنے کے بجائے ہندوستان کی چند منافرت پھیلانے والی چینلوں کو بند کرنے کی جرأت کر سکتی ہیں ‘‘۔