سرینگر//حکومت کی طرف سے سرینگر میں نئے زنانہ کالج کی تعمیر کی منظوری دینے کے10سال بعد بھی کالج کی تعمیر تشنہ تکمیل ہے جبکہ محکمہ اعلیٰ تعلیم کی طرف سے معقول جگہ پر اراضی کی حصولیابی میں غفلت شعاری سے قریب16کروڑ روپے کی رقم غیر منافع بخش ثابت ہو رہی ہے۔سرکاری محکموں کے حساب جات کی جانچ کرنے والے مرکزی محکمہ کمپٹولراینڈآڈیٹر جنرل نے اس بات کا انکشاف کیا ہے محکمہ اعلیٰ تعلیم کی طرف سے خواتین کیلئے تعمیر کی جانی والی کالج بلڈنگ کیلئے گڑ بڑ والی اراضی کی حصولیابی کیلئے9کروڑ89لاکھ روپے تصرف کی گئی رقم غیر فعال ثابت ہوئی جبکہ گزشتہ4برسوں سے6کروڑ23لاکھ روپے کی رقم بھی مسدود کر کے رکھ دی گئی ہے۔کیگ رپورٹ کے مطابق 2007 میں محکمہ اعلیٰ تعلیم نے سرینگر کے زکورہ علاقے میں وزیر اعظم تعمیر نو پلان کے تحت نئے سرینگر وومنز کالج کو منظوری دی جبکہ محکمہ نے سال 2012 میں ’’جے کے پی سی سی‘‘ کے ذریعے12کروڑ29لاکھ روپے کی لاگت سے اس کالج کی تعمیر کو انتظامی منظوری دی۔محکمہ نے سال2013میں بٹہ پورہ زکورہ میں9کروڑ89لاکھ روپے کی لاگت سے40برسوں تک اراضی بھی پٹے پر لی۔کیگ رپورٹ میں کمشنر سیکریٹری اعلیٰ تعلیم کے ریکارڑوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ مارچ2012میں محکمہ نے پرنسپل سرینگر وومنز کالج کے حق میں6کروڑ23لاکھ روپے واگزار کئے اور انہوں نے اس رقم میں سے ایک کروڑ33لاکھ روپے کی رقم جموں کشمیر پروجیکٹ کنسٹریکشن کمپنی کو واگزار کیں اور باقی رقم4کروڑ90لاکھ روپے کالج کے بنک کھاتے میں جمع رکھے۔ آڈیٹ کے دوران اس بات کا پتہ چلا کہ’’جے کے پی سی سی‘‘ نے اس جگہ پر ٹاون پلانگ آرگنائزیشن سرینگر کے اعتراض کے بعد تعمیراتی کام شروع نہیں کیا۔2015میںٹا ون پلانگ آرگنائزیشن نے اس جگہ (بٹہ پورہ زکورہ )کے رہائشی علاقے کے حدود میںآنے کی بنیادوں پر تعمیراتی کام کی اجازت نہیں دی۔مذکورہ محکمہ کا ماننا ہے کہ سرینگر کے2021 ماسٹر پلان کے مطابق تعلیمی ادارہ عوام اور نیم عوامی جگہ کے دائرے میں آتا ہے‘‘ کی بنیاد پر’’کسی اعتراض نہ ہونے کی‘‘ سند فراہم نہیں کی جاسکتی۔لیکس ایند واٹر ویز ڈیولپمنٹ اتھارٹی(لاوڈا) نے بھی جموں کشمیر پروجیکٹ کنسٹریکشن کمپنی کو، بلڈنگ پرمیشن اتھارٹی کی طرف سے تعمیراتی کام شروع کرنے کو اجازت نامہ سے مشروط رکھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ اعلیٰ تعلیم کی طرف سے کالج کی تعمیر کیلئے بغیر گڑ بڑ والی اراضی کی حصولیابی میں ناکامی کی وجہ سے پٹے پر لی گئی زمین کیلئے9کروڑ89لاکھ روپے کی رقم غیر فعال ثابت ہوئی جبکہ6کروڑ23لاکھ روپے کی رقم بھی بند رہی۔اگر چہ یہ معاملہ جون2016میں سرکار کو منتقل کیا گیا تاہم ابھی بھی اس معاملے میں سرکار نے خاموشی اختیار کی ہے۔