سرینگر//سرینگر میونسپل کارپوریشن کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے کمپٹولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محکمانہ کاموں کو ٹھیکیداروں کے بجائے مزدوروں کے ذریعے انجام دینے کیلئے ایس ایم سی نے3برسوں کے دوران ایک کروڑسے زیادہ کی رقم خرچ کی۔کیگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کارپوریشن نے کمشنر کی منظوری کے بغیر4کروڑ71لاکھ روپے کی رقم سالانہ’’ مرمت ومطالبات‘‘ کی عدم موجودگی میں خرچ کرکے مالی اختیارات کے ضوابط کی دھجیاں بکھر دیں۔ کارپوریشن سمیت دیگر بلدیاتی اداروں کی طرف سے سرکاری حکم ناموں اور ضوابط کو بالائے طاق رکھنے کا انکشاف کرتے ہوئے رپورٹ میں حساب کی جانچ پڑتال کے دوران کئی خامیوں کو ابھارا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آڈٹ کے دوران یہ پایا گیا کہ میونسپل کارپوریشن نے 2012سے لیکر2015تک محکمانہ سطح کے کاموں کو ٹھیکیداروں کی ذریعے حاصل کئے گئے مزدوں سے انجام دلوایا،جس پر مجموعی طور پر ایک کروڑ13لاکھ روپے کی رقم خرچ کی گئی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے’’ جموں کشمیر فائنانشل کوڈ جلد۔1 پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ٹینڈروں کو طلب کر کے قیمتوں کا احاطہ کرنے کے بعد ہی کام شروع کیا جاتا ہے،جبکہ پبلک ورکس اکونٹ کوڈکے پیرا200میں کہا گیا ہے کہ ہنگامی نوعیت کے محکمانہ کاموں کی تکمیل کیلئے ٹھیکیداروں سے مزدور طلب کئے جاسکتے ہیں‘‘۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو کام کرائے گئے، وہ ہنگامی نوعیت کے نہیں تھے،جبکہ ان اداروں کے ذمہ داروں نے جو صفائی پیش کی وہ قابل اعتماد نہیں تھی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کارپوریشن کے3 ایگزیکٹیو انجینئروں نے 2011سے2015تک سالانہ مطالابات تعمیر کی عدم موجودگی میں ہی نگہداری اور تجدید کیلئے4کروڑ71لاکھ26ہزار روپے کی رقم کا تصرف عمل میں لایا،اور اس دوران کمشنر سے بھی منظوری نہیں لی گئی۔ رپورٹ میں جموں کشمیر کے مالیاتی اختیارات کے ضوابط باب5.5کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کمشنر کی طرف سے سالانہ مطالبات تعمیر کی منظوری کے بعد ایگزیکٹو انجینئر کو مالی سال کے دوران صرف5لاکھ روپے تک مرمت اور دیکھ ریکھ کیلئے اختیارات حاصل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ ایگزیکٹو انجینئروں کا کہنا تھا کہ سالانہ مطالبات تعمیر کے تحت ڈویژنوں کو فنڈس موصول ہوئے جبکہ انکا یہ کہنا بالکل نامناسب ہے،کیونکہ اخرجات کا تصرف سالانہ مطالابات تعمیر کی عدم موجودگی میں کئے گئے۔رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کارپوریشن کے2 ڈویژنوں نے انتظامی منظوری کے بغیر ہی ایک کروڑ8لاکھ روپے کی رقم حد اختیار یعنی15 فیصد سے زیادہ خرچ کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الاٹمنٹ میں توسیع کیلئے باضابطہ طور پر ضوابط ہیں جس کے تحت ایگزیکٹو انجینئر محل و وقوع کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے منظور شدہ الاٹمنٹ میں5فیصد ،سپر انٹنڈنٹ انجینئر10فیصد جبکہ کمشنر ایس ایم سی15فیصد توسیع کرسکتا ہے،تاہم کارپوریشن نے ایک کروڑ88لاکھ روپے کی اضافی رقم خرچ کی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو انجینئروں نے بتایا کہ ڈرائنگ میں تبدیلی اور عوامی مطالابت کے بعد یہ توسیع دینی پڑی تاہم انکی صفائی قابل قبول نہیں ،کیونکہ اضافی توسیع کیلئے انتظامی منظوری نہیں لی گئی تھی۔ ایک طرف اضافی رقومات کو خرچ کرنے کا انکشاف ہے تاہم دوسری طرف رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کارپوریشن مارچ2015تک قریب2کروڑ46لاکھ روپے خرچ کرنے میںبھی ناکام ہوئی ہے۔کیگ رپورٹ کے مطابق ان اسکیموں سے عوام کو کافی فائدہ حاصل ہوتا،تاہم کارپوریشن کی طرف سے رقومات خرچ نہ کرنے سے وہ اس فائدے اور راحت سے رہ گئے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ5برسوں سے شہری وسائل بنیادی ڈھانچہ فنڈ اسکیم کے تحت83لاکھ،12ویں فائنانس کمیشن کے تحت23لاکھ69ہزار،بلڈنگ اسٹریکچر کے تحت ایک کروڑ2لاکھ21ہزاراور ہائی ماسٹ لائٹس کے تحت36لاکھ71ہزار روپے کی رقم شامل ہے، خرچ نہیں کی گئی ہے ۔رپورٹ کے مطابق کارپوریشن کے چیف اکونٹس افسر نے اس سلسلے میں دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ کئی منصوبے زیر غور ہیں۔