چنددن ہوئے کہ میں جنگ بندی لائن کے آخری پوائنٹ کانظارہ کرکے آیاہوں۔لال پل پرنظردوڑاتے ہوئے خطہ کشمیرکی جبری تقسیم دیکھ کرکلیجہ منہ کوآتاہے۔ لال پل کے جس مقام پرمیں دیکھ کرآیا وہ بارہمولہ اورمظفرآباد اضلاع کی آخری حدہے ۔سری نگرسے مظفر آبادتک 179؍کلومیٹرکی مسافت ہے اورچھوٹی گاڑی میںیہ مسافت دواڑھائی گھنٹوں میںطے ہوسکتی ہے ۔سری نگرمظفرآبادروڈپرپٹن ، بارہمولہ ،اوڑی اورسلام آبادنمایاں اوراہم مقامات ہیںجب کہ مظفرآبادسے اس راہ میںگڑھی حبیب اللہ ،چناری اورچکوٹھی نمایاں اوراہم مقامات ہیں۔اس راستے پر ادھرسے سلام باداوڑی اورادھرسے چکوٹھی منقسم کشمیرکے آخری مقامات ہیںاوران دونوں کے درمیان لال پل واقع ہے ۔ سری نگر مظفرآبادروڈکے درمیان ریاست کشمیرکوجبری طورپرمنقسم کرنے والی خونی لکیرجوپہلے جنگ بندی لائن کہلاتی تھی لیکن بھارت اورپاکستان کے مابین طے پاجانے والے شملہ معاہدے کے بعداسے ایل اوسی کانام دیاگیاہے، پرلال پل جسے اب انڈیا سیتو پل کے نام سے پکاتاہے ،بطورلائن آف کنٹرول حائل ہے۔اگرچہ لال پل تک رسائی مشکل ہے لیکن بطورمیڈیامیںلال پل تک پہنچناقدرے آسان ہے ۔ افواج پاکستان اوربھارتی فوج لال پل تک اپنی رسائی کوآسان بنانے کے لئے سری نگرمظفرآبادروڈکو بہت ہی اچھابناچکی ہیں اور ادھرسے بھی اورادھرسے بھی یہ ایک کشادہ سڑک ہے لیکن کشمیریوں پر جبری بندش کااندازہ اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ اس راہ پرعام کشمیریوںکے لئے سفرممنوعہ ہے ،محض نمایش کے طورپرہفتے میںایک بار اس سڑک پرایک نمائشی بس چلتی ہے جس میںنصف درجن یااسے بھی کم آر پار مسافرسفرکرتے ہیں۔یہ اس لئے کہ اس بس میں سفرکرنے اورمنقسم کشمیرکے آرپارآنے جانے کے لئے نام نہادسیکورٹی چیک کی آڑمیںکثیرالجہت قدغنیں عائدکردی گئیں ہیںاوراس طرح اس سفرکومشکل ترین بنادیاگیاہے۔ستر؍اسی سالہ بزرگان ہی اس بس میں سفرکرتے ہوئے پائے جاتے ہیں جب کہ نوجوانوں کواس بس میں سفرکرنا جوئے شیرلانے کے مترادف ہے ۔دراصل دہلی نہیں چاہتی ہے کہ سر ی نگرمظفرآبادروڈشاہراہ عام کی شکل اختیارکرے کیونکہ اسے اس امرکاخدشہ ہے کہ کشمیریوں کے باہم آن ملنے سے کشمیرپراس کی پکڑنہ صرف کمزورپڑے گی بلکہ ریاست پراس کا تسلط اور جماؤختم ہوجائے گا۔سری نگرمظفرآبادروڈپرعام کشمیریوں پربے پناہ سفری قدغنوں کے باعث وادی کشمیرکے جس باشندے کو سری نگرسے مظفر آبادجاناہوتاہے ،اسے ایک طویل اورتھکادینیوالے سفرکاسامناہوتاہے۔اسے پہلے سری نگرسے جموں تک 270کلومیٹر،جموں سے دہلی تک587کلومیٹر،دہلی سے امرتسرتک449کلومیٹر،ا مرتسرسے اٹاری تک30 کلومیٹر،واہگہ لاہورتک 25کلومیٹرلاہورسے اسلام آبادتک375کلومیٹراوراسلام آبادسے مظفرآبادتک 130کلومیٹر جوکل 2045کلومیٹرکی مسافت ہے طے کرکے سری نگرسے مظفرآباد اورمظفرآبادسے سری نگرپہنچناپڑتاہے ۔اس پرمستزاددیہ کہ یہ پرخطر سفرکئی دنوںپرمحیط ہوتاہے۔یہ سفراس لئے پرخطرہے کہ جموں سے دہلی اوردہلی سے امرتسرتک یہ ساراعلاقہ ان عناصر کے کنٹرول میں ہے جن کے لئے غنڈہ گردی کرنا دیش بھکتی ہے۔ اس خطے میں کسی بھی جگہ ایسی کوئی مسلمان آبادی موجودنہیں کہ جہاں کشمیرکامسافرسانس لینے اورسستانے کے لئے رات گذارسکے۔جب کہ آج کے حالات میں جب سنگھ کے کاری کرتا بے لگام ہیں، کسی مسلمان کا دہلی وغیرہ میں وہ پاسپورٹ جس پرپاکستان کاویزالگاہو،کوجیب میں لئے پھرناگویااپنے ساتھ موت کاسرٹیفکٹ رکھنے کے مترادف ہے۔ بی جے پی کے برسراقتدارآنے سے آج بھارت میں مسلم اقلیت کس عدم تحفظ سے ودچار ہے ،اس کی بابت سابق نائب صدر ہند جناب حامد انصاری کا الوداعی بیان کافی ہے ۔اپنے اس بیان میں ا نہوں نے صاف کر دیا کہ گزشتہ تین سال سے مسلم کمیونٹی پریشاں وہراساں چلی آرہی ہے۔ گھر واپسی ، لو جہاد ، گئو رکھشا، بھارت ماتا کی جے کے نام پر مسلمانوں کی ہجومی ہلاکتیں اوردل دہلادینے دوسری وارداتوں سے جوصورت حال ہمارے سامنے آئی ہے اس کیروشنی میںیہ بات محتاج وضاحت وتشریح نہیں کہ بھارت میںبھگواقوتیں کہیںزیادہ طاقتورہوچکی ہیں جن کاہدف صرف پچیس کروڑ مسلمانوں کو اچک لیناہے اور ان کا قافیہ ٔ حیات تنگ کرنا ہے۔
کشمیرکی تاریخ کایہ بھی ایک لائقِ مطالعہ باب ہے کہ 16؍ فروری2005 ء کو جنرل مشرف کے وزیر خارجہ خورشید قصوری اور بھارتی واجپائی کے وزیر خارجہ نٹور سنگھ کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں سرینگر مظفر آباد بس سروس کے اجراء کا سمجھوتہ ہواتھا۔اس سمجھوتے کے تحت 7 ؍اپریل 2005ء کوسرینگر مظفر آباد بروڈپربس سروس کاآغازہوا۔ اس بس سروس جوبالآخرامیدوں کے عین مطابق بے بس سروس ثابت ہوئی ،کے ذریعہ آرپارآنے جانے کے لئے اورکشمیر کے دونوں منقسم حصوں میں آمد و رفت کے لیے ویزے اور پاسپورٹ کی شرط لازمی قرارنہیں پائی بلکہ اس کے لئے دونوں طرف کی حکومتوںنے سفری دستاویز کے طور پرایک پرمٹ جاری کردیامگراس پرمٹ کاحصول نہایت ہی سخت ترقواعد کی کانہ پُری سے ایک چیستاں بنادیاگیا۔اس کے باعث یہ بس سروس نہ صرف ناکام دکھائی دیتی ہے بلکہ اس کے اجراء سے صرف بین الاقوامی رائے عامہ کوگمراہ کر نے کاکام لیا گیا، نہ کہ ریاست کے منقسم گھرانوں کو کوئی سفری سہولت پہنچا دی گئی ۔
اصولی طور ریاست جموںو کشمیر ایک نا قابل تقسیم وحدت ہے اور اس کا سیاسی فیصلہ ہونا باقی ہے ،اس لیے کشمیر کے دونوںمنقسم حصوں میں آمد و رفت ایک جائز اورلازمی بات ہے۔ اتنا ہی نہیں کشمیر کو جبراََغیر فطری طور پر دو منقسم حصوں میں بانٹنا ہی تاریخ کا ایک بھیانک ظلم تھا جو مسئلہ کشمیر کے نتیجے میں رونما ہوا اور اس وقت بھی اپنی خون خواری کی وضع پرقائم ہے۔ اس ضمن میںبھارت ہدف تنقیداس لئے بنتا رہاہے کہ پاکستان کی طرف سے کل بھی اورآج بھی مسئلہ کشمیرکوحل کرنے کااصرار ہے مگراس اصرارکے سامنے بھارت کی نان ناں بھی ہمارے سامنے ہے ۔کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ بھارت کی ۴۷ء میں کشمیر میں فوج کشی ہے، اس کے فوراً بعد ہی المیوں کی پوری داستان اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ ریاست کے ایک وسیع حصہ پر بھارتی تسلط سے خائف جموں کے لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا تو راستے میں سانبہ کے مقام پرہندو بلوائیوں اور ڈوگرہ فوج نے لاکھوں مسلمانوں کو تہ و تیغ کرکے ظلم و تشدد کی ایک خوفناک داستان رقم کی۔ بھارت کے خلاف احتجاج کے طور وادی کشمیر سے لاکھوں افراد جن میں پاکستانی نواز سیاسی کارکنوں کی اکثریت تھی، ہجرت پر مجبور ہوئے جس کے نتیجے میں خاندانوں ، قبیلوں، رشتہ داریوں اور برداریوں کے درمیان خاک و خون کی وہ دیوار کھڑی ہو گئی جسے آج کی اصطلاح میں کنٹرول لائن کہاجاتاہے۔ یہ اس ظلم عظیم کاہی شاخسانہ ہے کہ ماں وادی کشمیر میں رہی تو بیٹامظفر آباد آگیا۔ بہن وہاں رہی تو بھائی ادھر آیا اور یوں خونی رشتے تقسیم ہو کر رہ گئے۔1956 ء تک منقسم کشمیریوں کو منقسم کشمیرکے آر پار جانے کی سہولت حاصل رہی جس کے بعد یہ سہولت ختم ہو گئی اور یوں خونی رشتوں میں ہمیشہ کی جدائی اور ہجر اور فراق کی ایک نہ ختم ہونے والی کہانی نے جنم لیا۔ 1947ء سے اب تک ظلم و جبر کا یہ درد ناک کھیل جاری ہے، اس دوران کتنی مائیں اپنے بچوں کے انتظار میں رہی ملک عدم سدھار گئیں، کتنے بیٹے اپنے والدین کی یاد میں تڑپ تڑپ کر جان بحق ہوئے، اہالیان ِکشمیر نے اس صورت حال کو تاریخ کا جبر سمجھ کرقبول کیا، انہوں نے ہر دور میں ویزے اور پاسپورٹ کے ساتھ آر پار آمد و رفت کی۔
بعض ہوش مند اور حساس کشمیری عوام بجاطوریہ سمجھتے تھے کہ اگر ویزے پاسپورٹ کے ذریعے اپنے ہی وطن کے دو حصوں میں آمدورفت کا فیصلہ مان لیا گیا تو پھر کشمیر کی غیر فطری تقسیم پر گویا مہر تصدیق ثبت ہوگئی اور کشمیر اور کشمیری عوام ہمیشہ کے لیے دو حصوں میں بٹ کر رہ جائیں گے، اس لیے اس قماش کے دوراندیش کشمیریوں نے مسئلہ کشمیرکے سیاسی پہلو کی قیمت پر حقِ سفر کی بحالی کو کبھی تسلیم نہیں کیا، انہوں نے جائیدادوں اور دوریوں کا درد قبول تو کیا تو کیا حق خود ارادیت اور کشمیر کی وحدت کی قیمت پر قربتیں، وصال اور ملاقاتیں قبول نہیں کیں۔ یہ ایک قوم کی جرأت ، استقامت ، ثابت قدمی کی زندہ مثال ہے۔ جدائیوں کے اس عالم میں اہالیان کشمیر کی دو نسلیں ختم ہو گئیں، اوراب 27برس سے کشمیری عوام نے اپنے برتھ رائٹ حق خود ارادیت کے لیے تاریخ ساز جدوجہد کر ہے ہیں ، دنیا جو مسئلہ کشمیر کو بالفعل فراموش کر چکی تھی اور کشمیر ایک بھولی بسری یاد بن کر رہا گیا تھا، اس پر جمی دھول کم ہوگئی۔ بات صاف ہے کہ بھارت کی بے پناہ فوجی قوت اور شرق وغرب میں مسلم دشمن قوتوں کی بنا پر کشمیر میںکسی مسلح تحریک کے شروع ہونے کا تصور بھی محال تھا مگر اپنا حق خودارادیت پانے کے لئے بے بسی کے عالم میں بھی کشمیری نوجوانوں نے سکوت مرگ کو توڑ کر قربانیوں کا نیا ریکارڈ قائم کر تے ہوئے زیر زمین مسلح جد جہدکا آغاز کیا۔ اب تک اس طویل اور تاریخی جدوجہد میں ایک لاکھ سے زائد افراد حیات ِ جاوداں پا گئے۔ کشمیر کے فرزندوں نے اپنا گرم گرم ، تازہ نوجوان لہو پیش کر کے مسئلہ کشمیر کو عالمی سرد خانے سے نکال کر اسے وقت کا اہم ترین موضوع بنا دیا کہ اب کوئی عالمی فورم مسئلہ کشمیر اور جنوبی ایشیاء کی خطرناک صورت حال کے تذکرے سے خالی نہیں رہتا، ہر عالمی رہنما جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات کرتا ہے ،جو لوگ اس مسئلے کا ذکر کرنے سے گھبراتے تھے اب ببانگ دہل کشمیرکاز کی وکالت کرتے ہیں ۔یہ جو منظر بدل گیا ہے یا حالات نے یو ٹرن لی ہے ،یہ سب کشمیری عوام کی لازوال قربانیوں کا ثمرہ ہے بلکہ مجھے یہ سچ کہنے دیجئے کہ ویزے اور پاسپورٹ کی شرط کے بغیر اہل ریاست کا آر پار بس سروس کا اجراء بھی انہی قربانیوں کے باعث ممکن ہوا، اور بھارت کو یہ فیصلہ عالمی طاقتوں کے دبائو میں لینا پڑا۔ ان طاقتوں کے نمائندے جب بھی کشمیریوں سے ملتے تو انہیں قیادت سے بیک زبان یہ جواب ملتا ہے وہ ویزے پاسپورٹ کی شرط کو قبول نہیں کر سکتے کیونکہ یہ کشمیر کی مستقل تقسیم کا دروازہ کھول دے گا، کشمیریوں کی اس رائے کی بناء پر عالمی قوتوں نے یہ جان لیا تھا کہ ویزے پاسپورٹ کے بغیر کشمیر کے دونوں حصوں میں آمد و رفت بحال کرنے کے سوا اب کوئی چارہ نہیں۔ انہوں نے بتدریج بھارت پر دبائو بڑھانا شروع کر دیا اور جوکل تک کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا ،وہ اب ایک حقیقت ہے۔
بھارت ایک ایسا ملک ہے جواہل کشمیر کی سننے ، کشمیر حل کے بارے میں عالمی رائے عامہ کی موافقت کر نے اور کشمیریوں کی مسلسل قربانیوں کا پاس کر نے کے بجائے اس مسئلہ کو اب بھی بندوق اور جبر وطاقت سے دبانے کا قائل ہے ، وہ دنیا کو یہ باور کرانے میں کوشاں ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تو محض خاندانوں کے درمیان ملاقاتوں کا اور میل ملاپ کا مسئلہ تھا ،سو آر پار بس سروس کے اجراء کے بعد مسئلہ کشمیر حل ہو گیا، اب تو کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا ، بس تھوڑی بہت دہشت گردی ہے جس سے ہم نمٹ رہے ہیں ۔ مظفر آباد بس سروس کے اجراء سے بھارت کشمیر میں نارملسی بتا کر عالمی رائے عامہ کو ہر ممکن طریقے سے اپنا حامی بنارہاہے۔ اس حوالے سے کشمیر کاز کے اہم پلیڈر پاکستان کی سفارت کاری دنیاکویہ بتانے میں مکمل ناکام رہی کہ منقسم کشمیرکے عوام کے لئے بس سروس کے ذریعے ویزے پاسپورٹ کے بدون آنا جانا نا ہی کشمیر حل نہیں بلکہ بھارت کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اس کے تاریخی تناظر میں حتمی طور حل کر نے کے لئے سامنے آئے، نئی دلی کو حد متارکہ تک بس سروس کے ذریعے چند منقسم خاندانوں کو چکوٹھی لانے یا چینی اورپیاز کے ٹرکوں کی حد متارکہ پر آمد ورفت کو کشمیر حل کامتبادل نہیں سمجھنا چاہیے ، اگر یہی کشمیر کا تصفیہ سمجھا گیاتو یہ ساری کار ستانی عملاً اسٹیٹس کا ہم معنی ہوگا جسے بھارت1947سے آج تک سینے سے لگائے رہا ہے۔پاکستان کی سفارت کاری میں بعض دیگر امور بھی عنقادکھائی دے رہے ہیں ۔ بہر صورت کشمیری عوام کا یہ پختہ موقف اور غیر متزلزل سیاسی یقین ہے کہ مسئلہ کشمیر دراصل حق خود ارادیت کا معاملہ ہے، حق خود ارادیت سے انکار کے بطن سے ہی دوسرے تمام مسائل مسائل پیدا ہوتے رہے ہیں۔ الغرض اگر بھارت کشمیریوں کا حق خود ارادیت تسلیم کرتا ہے تو حقِ سفر سمیت تمام مسائل چٹکیوں میں حل ہو سکتے ہیں۔ کشمیر مسئلے کے سیاسی حل سے بھارت کا ہمیشہ راہ فرار اختیار کرنا ہی خطے بلکہ برصغیر کی اصل بد قسمتی ہے۔ واضح رہے کہ کشمیری عوام نے تاریخ ساز قربانیوں ایسی کسی بس سروس کے لیے نہیں دیں کہ جس کے بہانے بنیادی مسئلہ سائیڈ لائن ہوجائے۔ کشمیریوں کی طویل سیاسی جدوجہد اور قربانیوں کا اصل مقصد حق خود ارادیت کا حصول ہے ۔ اسی لیے تو کشمیر کے سجیلے جوانوں نے اپنی سر زمین کے چپے چپے پر اپنی قبریں آباد کی ہوئی ہیں۔یہ مزارات ہی کشمیریوں کی مزاحمت کا سامان ہیں۔ یہ کشمیریوں کی اجتماعی یاداشت کو زندہ رکھ رہے ہیں تاکہ انہیں یہ امر واقع ہمیشہ یاد رہے کہ ان کی اصل منزل اور ہدف کیا ہے، ان کے بیٹوں ،بھائیوں ، والدین حتیٰ کہ بچوں نے کس عظیم مقصد کی خاطر قربانی دی، بے شمار قربانیوں کے اس فیصلہ کن سفر میں بس سروس یا نام نہاد پیکجزکا کوئی کلیدی کردار نہیں۔اہل کشمیر کی منزل واضح اور ہدف سید ھا ہے اور وہ توپ وتفنگ کی لائی ہوئے آلام ومصائب کے باوصف اس عظیم مقصد کو آنکھوں سے اوجھل کرنے کوتیا رنہیں چاہے حقو ق البشر کی کتنی ہی آندھیاں ان کے عزم واستقامت کا امتحان لیں ۔بہرکیف بات شروع ہوئی تھی اس نکتے سے کہ سری نگرسے مظفرآبادکاسفرکتناکتنا آسان ہے مگر کینہ ور سیاست نے اسے کتنا مشکل ۔ تکلیف دہ اور پُر خطر بنایا ہوا ہے ۔ اس پر بس فیض احمد فیض کی زبان میں یہی تبصرہ کیا جا سکتا ہے ؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ صحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں