حال واحوال
احمد ایاز
سرینگر، وہ شہر جو جھیلوں کے آئینوں، درختوں کے سائے اور چناروں کی سرسراہٹ سے پہچانا جاتا تھا، آج اپنی ہی گندگی کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے۔یہ وہی شہر ہے جس کی ہوا میں کبھی تازگی تھی، پانی میں شفافیت اور فضا میں سکون۔ مگر اب انہی فضاؤں میں ایک ایسی بدبو گھل چکی ہے جو شہر کی پہچان بن گئی ہے — اچھن کی بدبو۔
اچھن، جو کبھی چند برس کے لیے عارضی کچرا پھینکنے کی جگہ قرار دیا گیا تھا، اب پورے سرینگر کا مستقل کچراخانہ بن چکا ہے۔وقت کے ساتھ یہ مقام ماحولیاتی تباہی، انتظامی ناکامی اور شہری لاپرواہی کی علامت بن گیا ہے۔یہ صرف ایک محلے یا بستی کا مسئلہ نہیں، — اس کی بُو اب لالچوک تک پہنچتی ہے اور شہر کے ضمیر تک اتر چکی ہے۔
ایک عارضی انتظام جو مستقل عذاب بن گیا :
یہ سب اُس وقت شروع ہوا جب 1980 کی دہائی میں اچھن کو کچرا جمع کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔اس وقت یہ فیصلہ ’’عارضی انتظام‘‘ کے طور پر کیا گیا تھا، لیکن وہ چند سال اب چار دہائیوں میں بدل چکے ہیں۔آج روزانہ تقریباً پانچ سو ٹن فضلہ — گھروں، بازاروں، اسپتالوں، ہوٹلوں اور دفاتر سے — اچھن لایا جاتا ہے۔زمین اپنی گنجائش کھو چکی ہے، مگر کچرے کے ٹرک روزانہ آتے ہیں، ڈھیر بڑھتے جا رہے ہیں اور سرینگر اپنے ہی فضلے میں دفن ہوتا جا رہا ہے۔جو زمین چند برس کے لیے استعمال ہونی تھی، وہ اب ایک مستقل داغ بن چکی ہے — ایسا داغ جو مٹنے کے بجائے دن بدن گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
ایک شہر جو اپنے ہی کچرے میں سانس لے رہا ہے :
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سرینگر میں کچرا علیحدہ کیے بغیر جمع کیا جاتا ہے۔کھانے کا فضلہ، پلاسٹک، اسپتالوں کا کچرا اور تعمیراتی ملبہ — سب ایک ہی جگہ پھینک دیا جاتا ہے۔
یوں نہ ری سائیکلنگ ممکن ہے، نہ سائنسی صفائی۔میونسپل کارپوریشن نے کئی بار جدید نظام لانے کے اعلانات کیے، مگر زمین پر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔یوں شہر کے کناروں پر پہاڑوں جیسے ڈھیر بنتے جا رہے ہیں — جو زہریلی گیسیں خارج کرتے ہیں، پانی کو آلودہ کرتے ہیں اور ہوا میں زہر گھول دیتے ہیں۔یہ صرف کچرے کے ڈھیر نہیں بلکہ ناکامی کے مینار ہیں — جو یاد دلاتے ہیں کہ صفائی کے نعروں سے زیادہ صفائی کی نیت ضروری ہے۔
بدبو جو سانس سے ضمیر تک اُترتی ہے :
اچھن کے گرد و نواح — سعیداپورہ، نورباغ، عیدگاہ اور علی جان روڈ — بدبو، مکھیاں اور بیماریوں سے بھرے پڑے ہیں۔گرمیوں میں جب جنوب کی ہوا چلتی ہے تو تعفن کی یہ لہر شہر کے مرکزلالچوک تک پہنچ جاتی ہے۔’’کبھی شام کے وقت سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔‘‘ایک دکاندار نے نوہٹہ میں بتایا،’’یوں لگتا ہے جیسے ہوا میں زہر گھل گیا ہو۔‘‘یہ زہر صرف ناک تک محدود نہیں۔میتھین اور دوسری زہریلی گیسیں سانس کی بیماریوں، دمے اور دل کے امراض میں اضافہ کر رہی ہیں۔وہی ہوا جو کبھی برف کی خوشبو لیے بہتی تھی، اب جلتے کچرے اور تعفن کی بو سے بھری ہوئی ہے۔
زمین اور پانی کا زہر :
بدبو کے پیچھے اصل المیہ وہ کالا، چپچپا زہریلا پانی ہے جو سڑتے ہوئے کچرے سے رس کر نکلتا ہے، — جسے ماہرین لیچیٹ (Leachate) کہتے ہیں۔یہ زہر زمین کے اندر سرایت کر کے قریبی ندیوں اور زیرِ زمین پانی میں شامل ہو چکا ہے۔یہ وہی پانی ہے جو لوگ روزانہ پیتے ہیں۔ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو آنے والی نسلوں کے لیے صاف پانی محض ایک خواب بن جائے گا۔قریب کے دلدلی علاقے، جو کبھی پرندوں اور پھولوں سے آباد تھے، اب مرجھائے پڑے ہیں۔قدرت کے یہ فطری محافظ اب خود مدد کے محتاج ہو چکے ہیں۔
پرانا نظام، نیا بحران :
سرینگر، جو ’’سمارٹ سٹی‘‘ کہلانے کا خواب دیکھ رہا ہے، آج بھی ایک غیر سمارٹ نظامِ صفائی پر انحصار کر رہا ہے۔نہ کوئی مکمل منصوبہ بندی، نہ جدید پلانٹ، نہ ری سائیکلنگ یونٹس۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب سرینگر کو ’’سمارٹ سٹی‘‘ کہا جاتا ہے تو اسی شہر کے دامن میں واقع اچھن ڈمپنگ سائٹ —، جس میں کوئی سائنسی پراسیسنگ نظام موجود نہیں — پورے شہر کے لیے ایک سنگین صحتی خطرہ بن چکی ہے۔یہ نہ صرف زہریلی گیسوں اور بدبو کا مستقل ذریعہ ہے بلکہ آلودگی کا وہ مرکز بھی ہے جو سرینگر کی ہوا، پانی اور زمین تینوں کو متاثر کر رہا ہے۔’’اکیسویں صدی کے شہر کو بیسویں صدی کے طریقوں سے صاف نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ کشمیر یونیورسٹی کے ایک ماہرِ شہری منصوبہ بندی ۔
فی الحال شہر کے نوّے فیصد سے زیادہ کچرے کو براہِ راست اچھن میں پھینک دیا جاتا ہے — بغیر کسی پراسیسنگ یا صفائی کے۔یوں ایک ایسا نظام وجود میں آ گیا ہے جو خود اپنے بوجھ تلے دب چکا ہے۔زندگی جو اذیت بن چکی ہےاچھن کے اطراف رہنے والے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔بدبو، مکھیاں، بیماریاں اور اذیت — یہی ان کی روزمرہ کی حقیقت ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ عیدگاہ تا اچھن علاقوں میں دمے، کھانسی اور جلدی امراض میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔’’ہمارے پاس انہی علاقوں سے زیادہ مریض آتے ہیں اور ان میں زیادہ تر بیماریوں کی جڑ فضائی آلودگی ہے۔‘‘ایک مقامی معالج۔بارشوں کے موسم میں یہ آلودہ پانی نالیوں میں بہہ کر دوسرے محلوں تک پہنچ جاتا ہے۔یوں اچھن کا زہر اب صرف ایک بستی نہیں، پورے شہر میں پھیل چکا ہے۔
شہر کی شناخت خطرے میں :
یہ صرف گندگی کا نہیں بلکہ تشخص کا بحران ہے۔دنیا جس سرزمین کو ’’جنتِ ارضی‘‘ کہتی ہے، وہاں اگر بدبو، کوڑا اور آلودگی کا راج ہو تو یہ صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ اخلاقی سانحہ بھی ہے۔سیاح جو یہاں آتے ہیں، وہ سبز وادی کے بجائے کچرے کے ڈھیر دیکھتے ہیں۔یہ منظر سرینگر کے حسن پر سوالیہ نشان بن چکا ہے۔’’سمارٹ سٹی‘‘ کا خواب تبھی حقیقت بن سکتا ہے جب شہر کے ہر کونے میں صفائی، نظم و ضبط اور ذمہ داری پیدا ہو۔ورنہ یہ نعرہ بھی دوسرے وعدوں کی طرح کاغذوں تک محدود رہے گا۔
ذمہ داری صرف حکومت کی نہیں :
یہ بحران صرف انتظامیہ کی غفلت سے نہیں بلکہ عوامی بے حسی سے بھی جنم لیتا ہے۔گھروں میں کچرے کو الگ نہ کرنا، سڑکوں پر کوڑا پھینک دینا، یا صفائی کو معمولی سمجھ لینا — سب اسی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔حکومت نے کئی بار اچھن کو بند کرنے یا منتقل کرنے کا وعدہ کیا، کمیٹیاں بھی بنیں، رپورٹیں بھی تیار ہوئیں، مگر عمل کہیں دکھائی نہیں دیتا۔افسران فنڈز کی کمی اور زمین کی قلت کا بہانہ کرتے ہیں، مگر درحقیقت سیاسی عزم کی کمی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔صفائی کے معاملے میں صرف سرکار نہیں بلکہ شہری بھی برابر کے ذمہ دار ہیں —کیونکہ گندگی صرف وہاں نہیں ہوتی جہاں نظام کمزور ہو، بلکہ وہاں بھی جہاں ضمیر سو جائے۔
امید کی راہ — اگر نیت ہو :
ماہرین کے مطابق اس بحران کا حل ممکن ہے، بس ارادے کی ضرورت ہے۔(۱) گھروں کی سطح پر علیحدگی: نامیاتی اور غیرنامیاتی فضلے کو الگ کرنا۔(۲)غیرمرکزی نظام: ہر محلے میں چھوٹے کمپوسٹنگ مراکز قائم کرنا۔(۳) کچرے سے توانائی: ناقابلِ استعمال فضلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ لگانا۔(۴) عوامی آگاہی: اسکولوں، میڈیا اور مساجد کے ذریعے صفائی کا شعور بیدار کرنا۔(۵) ماحولیاتی نگرانی: پانی، مٹی اور ہوا کے معیار کی باقاعدہ جانچ۔(۶) مرحلہ وار بحالی: اچھن کو بند کر کے زمین کو دوبارہ سبز بنانا۔
اگر یہ سب خلوص سے کیا جائے تو سرینگر نہ صرف صاف ہو سکتا ہے بلکہ پورے برصغیر کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔
بدبو نہیں، ضمیر کی صدا:
اچھن کی بدبو محض تعفن نہیں — یہ شہر کے ضمیر کی صدا ہے۔جب یہ بدبو لالچوک تک پہنچتی ہے تو گویا سرینگر چیخ اٹھتا ہے:’’مجھے بچاؤ، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘‘وہی ہوا جو کبھی چنار کے پتوں کی خوشبو لیے بہتی تھی،آج شہری ناکامی کی بو لیے پھر رہی ہے۔یہ صرف کچرے کا نہیں، کردار کا بحران ہے۔
سرینگر کا امتحان : اچھن کا کچراخانہ آج سرینگر کے ضمیر کا آئینہ ہے —ایک ایسا آئینہ جو ہمیں ہمارا چہرہ دکھا رہا ہے۔اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی،تو یہ بدبو صرف فضا میں نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی سانسوں میں بسیرا کر لے گی۔وقت آ گیا ہے کہ سرینگر اپنے وجود کی صفائی کرے —کیونکہ اچھن کی صفائی صرف کچرا ہٹانے کا عمل نہیں،بلکہ سرینگر کی روح کو بچانے کی جدوجہد ہے۔
[email protected]