جموں سرینگر شاہراہ کی فور لین تعمیر کے دوران پرانی سڑک کی حالت ناگفتہ بہ بن چکی ہے اور بانہال سے رام بن ا ور چنہنی سے ادھمپو رتک اس سڑک کی ہیئت ہی تبدیل ہوگئی ہے، جس کے نتیجہ میں نہ صرف تواترکے ساتھ حادثات رونما ہورہے ہیں بلکہ بدترین ٹریفک جام روزانہ کا معمول بن گیاہے اور دھول و کھڈوں میں گاڑی کا چلنا بھی مشکل ہورہاہے ۔ریاست کے دو خطوں کو آپس میں ملانے والی اس انتہائی اہمیت کی حامل شاہراہ کی حالت دن بدن بگڑتی جارہی ہے اور فورلین کی تعمیر کاکام بھی سست روی کاشکار ہے ۔یہ صورتحال اس سڑک پر سفر کرنے والے مسافروں کیلئے سوہان روح بنی ہوئی ہے اور ان کا چھ سے سات گھنٹے کا سفربارہ بارہ اور بعض اوقات 15گھنٹوںمیں بھی طے نہیںہوتا۔ سڑک کی خراب حالت ہی طویل اور گھنٹوں تک لگنے والے ٹریفک جام کا بنیادی سبب ہے اورایسی حالت میںڈرائیوروں کی طرف سےاوورٹیکنگ کرنے کی کوششیں یاکوئیمعمولی کوتاہی سڑک حادثات کا موجب بنتی ہے جس کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں کا اتلاف ہورہاہے ۔دربار مو کی سرینگر سے جموں منتقلی کے چلتے سڑک پر ٹریفک کا دبائو اور بھی بڑھ گیاہے اور صورتحال دن بدن ابتر بنتی جارہی ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرینگر سے لیکر قاضی گنڈ تک اور اسی طرح سے جموں سے لیکر اودھمپور تک فورلین کا تعمیری کام مکمل ہوچکاہے اور سڑک کے ان حصوں پر سفر کے دوران نہ ہی زیادہ وقت لگتاہے اور نہ ہی ٹریفک جام لگتے ہیں ۔اسی طرح سے چنہنی ناشری نٹل کی تعمیر سے مسافت ضرور کم ہوئی ہے اور مسافروں کا کافی سارا وقت ضائع ہونے سے بچ گیاہے لیکن جب تک اودھمپور سے چنہنی اور ناشری سے لیکر قاضی گنڈکے حصوں کی فور لین تعمیر مکمل نہیںہوتی تب تک مسافروں کی مشکلات میں کمی واقع ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتااور انہیں پریشانی سے دوچار ہوناہی پڑے گا۔بدقسمتی سے حکام بھی فور لین سڑک کی تعمیر کا انتظار کررہے ہیں اور ان کی طرف سے وقتی طور پر ٹریفک کو احسن طریقہ سے چلانے کیلئے پرانی سڑک کی مرمت کاکام نہیں کیاجارہا۔ خاص طور پرسرمولی سے ادھمپور تک کا حصہ بالکل تباہ ہوچکاہے اور اس پر جگہ جگہ کھڈے بن چکے ہیں ۔سڑک کے اس حصے پر تارکول بھی کہیں نظر نہیں آتا اور کھڈوں سے نکلنے والی دھول دور دور تک گاڑیوں کا پیچھا کرتی ہے جس سے مسافروں کے بیمار ہونے کا اندیشہ ہے ۔ اس دھول سے ماحولیات پر بھی منفی اثر پڑرہاہے اور حکام کے ماحول دوست اقدامات کے دعوئوںکی نفی ہوتی ہے ۔فورلین سڑک کی تعمیر کے دوران مٹی اور پہاڑوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی کی جارہی ہے جس کا ملبہ پرانی سڑک پر گررہاہے اور اسی کی وجہ سے اس پر بچھایاگیا تارکول کہیں نظر نہیں آتا اور اس کی چوڑائی بھی بتدریج کم ہوتی جارہی ہے، جس کے سبب دونوں اطراف کے ٹریفک کا گزر ہونا مشکل ہورہاہے ۔ایسا ہونا بھی یقینی تھا کیونکہ پہاڑی علاقے میں سڑک کی کٹائی کے دوران ملبہ بہر صورت گرناہی ہیں لیکن پریشان کن امر یہ ہے کہ حکام کی طرف سے تمام تر توجہ فورلین پر مرکوز کی جارہی ہے اور پرانی سڑک پر کوئی دھیان نہیں دیاجارہا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں فورلین کام میں سرعت لائی جائے وہیں پرانی سڑک کی بھی مرمت کرکے اسے وقتی طورپر اس قابل بنایاجائے کہ اس پر گاڑیاں آرام سے چل سکیں اور مسافروں کو کوئی مشکل پیش نہ آئے ۔