سرینگر// شہری ہلاکتوں کے خلاف مزاحمتی کارکنوں اور طلاب نے شہر خاص کی جامع مسجد اور گوگجی باغ گورنمنٹ پالی ٹیکنیک کے علاوہ پلوامہ میں احتجاجی مظاہرے کئے جبکہ طلاب نے فورسز اور پولیس پر کالج کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اندھا دھند طریقے سے توڑ پھوڑ کی گئی۔مشترکہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے شہری ہلاکتوں کے خلاف دی گئی کال کے تحت جامع مسجد سرینگر میں مزاحمتی کارکنوں اور لیڈروں نے احتجاجیجلوس نکالا جس کے دوران اسلام و آزادی کے حق میں نعرہ بازی کی گئی۔ مزاحمتی لیڈر اور کارکن بعد از نماز ظہر جامع مسجد کے صحن میں جمع ہوئے اور احتجاج کیا اور دھرنا دیا۔احتجاجی کارکنوں اور مطاہرین نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارر اور بینئر اٹھا رکھے تھے جن پر’’انسانی حقوق کی پامالیوں کو بند کرئو،معصوم ہلاکتوں کو بند کرو اور کپوارہ ہلاکت نامنظور‘‘ کے نعرے درج تھے۔اس موقعہ پر مزاحمتی کارکنوں اور لیڈروں میں غلام نبی زکی،شیخ عبدالرشید، راجہ معراج الدین کلوال،مشتاق احمد صوفی، عمر عادل ڈار، نور محمد کلوال، امتیاز حیدر، مدثر نبی، مصطفی سلطان، فاروق احمد سوداگر اور پیر غلام نبی کے علاوہ دیگر لوگ بھی موجود تھے۔بعد میں احتجاجی مظاہرین نے کپوارہ ہلاکتوں کی مذمت کی اور پرامن طور پر منتشر ہوئے۔ ادھر سرینگر کے گورنمنٹ پالی ٹیکنک کالج گوگجی باغ میں اس وقت ہنگامہ ہوا اور افراتفری کا ماحول پیدا ہوا جب پولیس اور طلاب کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق کالج میں زیر تعلیم انجینئرنگ طلاب نے شہری ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کیا اور اس دوران نعرہ بازی کی۔ طلاب نے الزام عائد کیا کہ بعد میں پولیس اہلکار کیپمس میں داخل ہوئے اور انہوں نے طلاب کو زدکوب کیا جبکہ کالج میں موجود گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔انہوںنے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ طلاب کے پرامن احتجاج کو منتشر کرنے کیلئے فورسز نے کالج کا گیٹ توڑا اورطاقت کا استعمال کیا گیا اور اس دوران کالج کا ایک مدرس بھی زخمی ہوا۔اس دوران پلوامہ میں گزشتہ روز احتجاجی مظاہرے کے بعد چاٹہ پورہ علاقے میں فورسز اور پولیس کی مبینہ توڑ پھوڑ کے خلاف علاقے میں نوجوانوں نے برستی بارشوں کے دوران احتجاج کیا ۔نامہ نگار شوکت ڈار کے مطابق اس موقعہ پر احتجاجی مظاہرین نے ملوث اہلکاروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا اور بعد مین وہ پرامن طور پر منتشر ہوئے۔نمائندے کے مطابق پلوامہ میں سنیچر کو بھی ہڑتال جاری رہی ،جس کے نتیجے میں تمام دکان اور کاروباری مراکز و ادارے بند رہیں۔اس دوران قصبے میں تنائو کی سی کفیت جاری رہی جبکہ ٹرانسپورٹ کے آمدرفت میں بھی خلل پڑا۔ہڑتال کی وجہ سے عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی اور کاروباری سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئی۔