سرینگر//حریت (گ) نے سرینگر اور جنوبی کشمیر کے گاؤں دیہات و قصبہ جات میں سینکڑوں نوجوانوں کو شبانہ چھاپوں کے دوران گرفتار کرنے کے سلسلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت 9؍اور 12؍اپریل کے انتخابات سے پہلے خوف ودہشت اور غیریقینی کا ماحول قائم کرانا چاہتی ہے تاکہ کچھ لوگ اپنے اور اپنے بچوں کے تحفظ کی خاطر ووٹ ڈالنے کے لیے مجبور ہوجائیں۔ حریت (گ)نے کہا کہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا چکر اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ حسبِ سابقہ ایک فوجی آپریشن ہوگا اور اس کو کسی بھی صورت میں ایک جمہوری عمل کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ حکومت نے پہلے ہی سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق، محمد یٰسین ملک، شبیر احمد شاہ، محمد اشرف صحرائی، نعیم احمد خان، ایاز اکبر، الطاف احمد شاہ، راجہ معراج الدین، محمد اشرف لایا، عمر عادل ڈار اور درجنوں دیگر حریت کارکنوں کو گھروں یا جیلوں میں نظربند کیا ہے اور انہیں الیکشن بائیکاٹ مہم چلانے اور اپنا موقف لوگوں تک پہنچانے سے روکا گیا ہے۔ اب وسطی کشمیر اور جنوبی کشمیر میں ہر گھر کے دروازے پر دستک دینے اور ان کے لاڈلوں کو حراست میں لینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے سینکڑوں نوجوانوں جن میں اکثریت اسکولوں میں زیرِ تعلیم طالب علموں کی ہے کو اپنے گھروں سے روپوش ہونا پڑا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ پولیس کے علاوہ فوج کو بھی پرو ایکٹیو (Proactive)کیاگیا ہے اور گاؤں دیہات میں خوف ودہشت قائم کرانے کے لیے اس کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ فوج نے اسلام آباد (اننت ناگ)، کولگام، پلوامہ اور شوپیان میں اپنے معمول کے گشت میں کئی گنا اضافہ کیا ہے اور اب یہ دن کے علاوہ رات کی تاریکی کے دوران میں بھی جاری رہتا ہے۔ حریت بیان میں ڈی جی پولیس کے اس بیان کو سفید جھوٹ قرار دیا گیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ صرف ان نوجوانوں کو حراست میں لیا جاتا ہے، جو لوگوں پر الیکشن بائیکاٹ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ حریت نے کہا کہ ڈی جی پولیس نے اندھا دھند گرفتاریوں اور شبانہ چھاپوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے ایک کمزور دلیل گھڑ لی ہے اور اس کا حقیقت کے ساتھ دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ وہ ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کرسکتے ہیں، جس سے اس کے دعوے کی سچائی ثابت ہوتی ہو۔ حریت نے مسٹر وید کے اس دعوے کو بھی چلینج کیا کہ پولیس بیٹے کے بدلے باپ اور بھائی کے بدلے بھائی کو حراست میں نہیں لے رہی ہے۔ بیان کے مطابق حریت نے اس سلسلے میں باضابطہ ایک ڈاکومینٹیشن (Documentation)کی ہے اور وہ آج بھی ایسی درجنوں مثالیں پیش کرسکتی ہے، جن میں پولیس ایک کے بدلے دوسرے کو گرفتار کرتی ہے اور اس کو تب تک یرغمال رکھا جاتا ہے، جب تک کہ اصل ملزم پولیس کے پاس پیش نہیں ہوتا ہے۔ حریت کے مطابق وسطی اور جنوبی کشمیر میں جنگ جیسی صورتحال پیدا کردی گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ الیکشن نہیں، بلکہ کوئی بڑا حملہ ہونے والا ہے، جس کو روکنے کے لیے پوری سرکاری مشنری اور سرکاری فورسز کو الرٹ کیا گیا ہے۔