میں اسی خیال سے گھرسے نکلی کہ اب کہاں رہوں گی کیونکہ جنکے ہاں میں رہ رہی تھی وہ ہمارے بہت دورکے چچاتھے ۔انہوں نے جذبات میں آکر مجھے پناہ تودی تھی مگریہ سب کچھ وقتی تھا۔اس کا اندازہ مجھے اس وقت لگا نے چچاچچی کو سرگوشی کرتے ہوئے سنا تھا۔ کہ اگران کوکسی کام سے شہرسے باہرجاناپڑاتواس لڑکی کاکیاانتظام کریںگے۔ میں بہت فکرمندتھی نہ کھانے کومن کررہاتھا۔ نہ نیندتھی اورنہ سکون ۔ہروقت سوچتی تھی کہ اب آگے کیاہو گا۔میں جوان لڑکی ہوں،کون پناہ دے گا؟بس اللہ سے دعامانگتی تھی کہ میرے پروردگارکوئی معقول چارہ انتظام کر،ورنہ میں کہاں رہوں گی،کہاں بھٹکتی پھروں گی ۔بڑی بے بس اورپریشان حال تھی ۔رات بھر کروٹیں بدل بدل کر نیندکے جھونکے لیتی تھی، جس سے سربھی بھاری رہنے لگاتھا۔بات کرنے کو بھی دل نہیں کررہاتھا۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی احساس تھاکہ چچاوالے توخودلورمڈل (Lower Middle) کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اورپھرکون کسی کو زیادہ دیرتک اپنے ہاں مہمان بناکررکھ سکتاہے ۔
میں اسی ہزیانی حالت میں سوئی ہوئی تھی کہ خواب میں ایک بزرگ کودیکھاجو مجھ سے کہہ رہاتھا۔بیٹی !گھبرائومت ۔اللہ نے تمہارا بندوبست کرلیاہے ۔میں نیندسے جاگی مگراس خواب کوزیادہ اہمیت نہ دی۔ سوچاکہ خواب جوکچھ دماغ پر چھایاہوتاہے وہی خواب کی صورت میں نظرآتاہے ۔
بڑے سوچ وبچارکے بعدمیں نے اپنی سہیلی کے ہاں جانے کاارادہ کر لیا اور سوچا کہ اس کو خواب کے بارے میں بتا کرباتوں باتوں میں معلوم کرنے کی کوشش کروں گی کہ کیاوہ مجھے کچھ دنوںکیلئے اپنے ہاں رکھ سکتی ہے۔
اسی خیال کودماغ میں بٹھاکر میں سڑک پارکررہی تھی کہ ایک تیزرفتارکارنے ٹکرماردی ۔قصورڈرائیورکانہ تھا۔مجھے ہی صحیح سمت میں چلنے کاہوش نہ رہا۔ بے ہوشی کی حالت میں ہی لوگ مجھے ہسپتال لے گئے تھے ۔جب ہوش آیا تومیں نے اپنے آپ کوہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میںپایا۔ہسپتال کے سٹاف نے ایمرجنسی پرتعینات ڈاکٹرطیب کوبلایا۔اس وقت تین چار ڈاکٹراور سرجن ہسپتال کے کینٹین میں کافی پی رہے تھے ۔ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے گھریلومسائل پر بھی تبادلہ ٔ خیال کررہے تھے ۔سارے ڈاکٹر اپنی اپنی خوش بختی پرنازاں تھے ۔ہرکوئی کہتاکہ بنگلہ ہے، کارہے، بچے بھی ہیں اوراعلیٰ اسکول یاکالج میں زیرتعلیم ہیں ۔مگرڈاکٹرطیب سرجن قدرے خاموشی اختیارکئے ہوئےتھا۔اس نے صرف اتنا کہاکہ بھئی! یہ سب کچھ تومیرے پاس بھی ہے ۔اگرکمی ہے توایک بیٹی کی،جس کے لئے ہم دونوں میاں بیوی سال ہاسال سے دعائیں مانگ رہے ہیں ۔بھئی! جس گھرمیں بیٹی نہیں، وہ گھرنہیں ایک مکاں ہوتاہے ۔اللہ تعالیٰ کی مرضی ۔وہ کسی کولڑکے دیتاہے کسی کولڑکیاں ۔کسی کودونوں اورکسی کوکچھ بھی نہیں ۔بھئی ہم تومانگتے رہیں گے کبھی توسُنے گا۔نااُمیدی کفرہے۔
جب ڈاکٹرطیب مجھے دیکھنے آیا تواس وقت تک علاج ومعالجہ نے کافی اثردکھایاتھا اورمیں پورے ہوش وحواس میں تھی ۔ڈاکٹرکوفوراًپہچان گئی کہ یہ وہی شخص ہے جس کومیں نے خواب میں دیکھاتھا۔
بیٹی! اب کیسامحسوس کررہی ہو۔ اس نے میرانام پتہ بھی پوچھا ۔فون نمبربھی مانگا۔ڈاکٹرطیب شہرکاماناہوا قابل ڈاکٹرتھا ۔سبھی لوگ اسکی تعریف کرتے تھے۔چچاجان بھی انکوجانتے تھے ۔ڈاکٹرصاحب نے چچاجان کو فون پرساراماجراسنایااورکہاکہ بیٹی اب ٹھیک ہے ۔ اب آپ اس کولے جاسکتے ہیں مگرچیک اپ کیلئے تین روزبعد ہسپتال آناپڑے گا۔
ہم توکل شہرسے باہرجارہے ہیں، چچانے کہا۔اب کیابنے گا۔یہ توبڑامسئلہ بن گیا ۔کوئی مسئلہ نہیں۔یہ تب تک میرے ہاں رہے گی۔ وہاں ہمارے گھروالے ہیں ۔یہ بھی ہمارے ساتھ رہے گی۔ اگراعتراض نہ ہوتو میں بھی ثواب کمائوں گا۔ آپ صلاح مشورہ کریں ۔میںدس منٹ بعد پھرآئوں گا۔جب ڈاکٹرصاحب دوبارہ آئے توچچانے کہاکہ ہم کوکوئی اعتراض نہیں ہے ۔آپ توشہرکی شریف ترین شخصیت ہیں۔ صوم وصلوٰۃ کے پابندہیں۔ آپ کوکون نہیں جانتا۔کسی کوکیااعتراض ہوسکتاہے ۔ہم توبالکل خوش ہیں۔
سنومیاں! میری کوئی بیٹی نہیں ہے۔ہم اسکواپنی بیٹی کی طرح رکھیں گے ۔آپ آرام سے جائو۔اورپھرواپسی پرآکر آپ لے جانا۔ڈاکٹرصاحب نے کہا۔
جب ڈاکٹرلڑکی کولیکرگھرپہنچاتواس نے دروازے سے ہی آوازدی۔بیگم !دیکھومیرے ساتھ کون ہے۔ڈاکٹرکی بیگم نے بڑی عزت سے لڑکی کواپنے قریب بٹھایا،خوب باتیں کیںاورپوری کہانی سنائی ۔یہ جوحال ہی میں سیلاب آیاتھااس میں گائوں کے گائوں بہہ گئے ۔ہماراگائوں بھی اسکی زدمیں آیا۔لوگ کنگال ہوگئے ۔نہ گھررہاہے نہ باغ رہےاورنہ دوکانیں رہیں۔سب کچھ دیکھتے دیکھتے ختم ہوگیا ۔لوگ بھکاری تک بن گئے ۔ہماراخاندان ،مکان ،باغ بغیچہ سب کچھ سیلاب میں بہہ گیا۔ ایسے میںصرف میں بچ گئی کیونکہ میں گھرسے باہرتھی ۔اورپھراس چچانے ہی مجھے بے یارومددگارپاکرپناہ دی ۔یہ دورکے چچاخوداوسط درجہ کے آدمی ہیں۔
اتنے میںڈاکٹر صاحب منہ ہاتھ دھوکرآئے۔ بیٹی! یہ سیلاب والی کہانی تم نے مجھے نہ سُنائی۔بیگم کادِل کافی پسیج گیا۔اس نے کہا۔
بیٹی !اب تم ادھرہی رہوگی۔اس گھرکواپناہی گھرسمجھو۔
دیکھو!ہماری بیٹی نہیں ہے ۔ہم میاں بیوی روزانہ اللہ سے دُعائیں مانگتے تھے کہ ہماری تمناپوری کرے، جوآج پوری ہوگئی ۔
اب لڑکی کوان میاں بیوی میں سچی شفقت نظرآئی۔تواس نے اپنی خواب والی کہانی سنانی شروع کی اورساتھ ہی یہ بھی کہاکہ وہ سہیلی کے گھرجانے کیلئے نکلی ہی تھی مگروہاں پہنچنے سے پہلے ہی اسے گاڑی نے ٹکرماردی اورجب ہوش سنبھالاتواپنے آپ کوہسپتال کے ایمرجنسی وارڈمیں پایا۔خواب میں جس بزرگ کی شکل دیکھی تھی ڈاکٹرانکل کودیکھ کرسمجھ گئی کہ یہ وہی فرشتہ ہے ۔
ڈاکٹرکی بیگم نے پوری کہانی سنی۔اس نے کہاکہ بیٹی میں آپکی ماں کوتھوڑابہت جانتی تھی۔ ایک بارمیں آپکے محلہ کی طرف کسی کام سے گئی تھی۔وہاں آپکی ماں مجھے زبردستی اپنے ہاں لے گئی۔میں نے وہاں آپ سب لوگوں کودیکھاتھامگرکسے معلوم تھاکہ یہ کون اوروہ کون ہے لیکن اتنامیں نے ضرورنوٹ کیاتھاکہ یہ ایک نہایت ہی مہذب خاندان ہے ۔وہاں میں نے آپ کوبھی دیکھاتھااورآپکی ماں کو ۔اس وقت ویسے ہی کہاتھا کہ کاش! میری بھی ایسی ہی بیٹی ہوتی۔آپکی اماں نے رسمی طورکہاتھاکہ لے جائو اسکوابھی کے ابھی ۔میں اورآپکی اماں نے اسے مذاق سمجھ کربات کوبھلادیا ۔مگراب اتنے سالوں کے بعدہماری دعائیں رنگ لاتی نظرآرہی ہیں کیونکہ وہی لڑکی بیٹی بن کر ہمارے گھرآئی جس کی ہم نے تمناکی تھی شکراس اللہ کا۔
سچ کہا ہے کسی نے کہ اللہ اپنے طریقہ سے اورموزوں وقت پردعائیں قبول کرتاہے ۔
جموں ،رابطہ نمبر8825051001