شبیر احمد بٹ
مانا کہ سرکاریں ، کاریں زیادہ چلاتی اور کام کم کرتی ہیں ۔کچھ سرکاریں تو قرضے لے لے کر عوام کے لئے مرض بن جاتی ہیں اور پھر ٹماٹر کے بھاو اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ غریب لوگ خود ہی کہتے پھرتےہیں کہ ٹماٹر کھٹے ہیں، ڈاکٹر نے کھانے سے منع کیا ہے۔مگر سچ کہوں تو سینکڑوں مثالیں ایسی ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں ۔اپنے کئے کا ملبہ ہر وقت سرکار پر لاد کر خود نردوش اور معصوم بننے کا ناٹک کرتے ہیں۔سڑکوں کو اپنی آبی اول ملکیت سمجھ کر گاڑیوں کو وہاں بے ڈھنگے اور غیر شائستہ طور پر رکھ کر یا ان سڑکوں پر غیر قانونی تعمیرات کرکے سرکار کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ پارکنگ نہیں ہے ۔سڑکیں نہیں ہے اس لئے ٹریفک جام ہوتا ہے۔
اب جو لوگ بڑی بڑی گاڑیوں میں دھوم دھڑاکے کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں ،وہی ( کے سی سی) کو معاف نہ کرنے اور خود کو بی پی ایل کا راشن کارڈ نہ ہونے پر سرکار کو کوستے ہیں ۔پانی کے ذخائر کی بے حرمتی اور اس نعمت کوضائع کرکے پانی اور بجلی کا رونا رو رہے ہیںاور سرکار کو دوشی ٹھہراتے ہیں۔ موٹی موٹی رقوم اور تنخواہیں سرکاری خزانوں سے حاصل کرتے ہیں مگر وہ کام کرنے کا مزاج ہی نہیں رکھتے ہیں، جس کے عوض وہ رقم حاصل کرتے ہیں اور اپنا اصلی کام چھوڑ کر دوسرے طریقوں سے کمائی کرکے سرکار پر برستے رہتے ہیں کہ کام اچھے ڈھنگ سے نہیں ہوتا ۔ باہر سے آئے ہوئے ٹھیکیداروں ، مزدوروں اور مختلف پیشوں سے منسلک لوگوں نے یہاں لاکھوں کروڑوں کی جاگیریں بنادی ہیں اور ہمارے بچے میک اَپ اور مستی کے نام پر والدین کی کثیر رقم ان کے حوالے کرکے خود سنیپ چیٹ ،انسٹاگرام اور فیس بک وغیرہ پر ریلیز بناتے ہیں اور احتجاج کرتے رہتے ہیں کہ سرکاریں بے روزگار نوجوانوں کے لئے کچھ نہیں کرتی ہے ۔شادیوں کی تقاریب میں کل ملاکر جتنا پیسہ اصراف میں اُڑا دیتے ہیں، اس پیسے سے ہر محلے کی ایک سرکار بن سکتی ہے ۔ مگر جب یہ سب کچھ خرچ کرکے کھا پی کے جمائیاں لیتے ہیں تو سرکار کو گھر جمائی کی طرح لتاڑتے رہتے ہیںکہ سرکار بے کار ہے ۔ یہ سچ ہے کہ یہاں بر سر اقتدار لوگ ہمیشہ سے اپنے سر کو ڈھکنے کے لئے غریب عوام کے سر سے چادر چھین لیتےہیں اور ہمارے ووٹوں سے اپنے محلوں کی تعمیر کرکے فرمان جاری کرتے رہتے ہیں ۔ مگر اس پر بھی غور کیا جائے تو ہم کسی سے کم نہیں ۔چند پیسوں کی لالچ میں یا کسی ناجائز اور غیر قانونی کام اور خواب کو مکمل کرنے کی لالچ میں بھول جاتے ہیں کہ ہم کن کو اپنے لئے چُن رہے ہیں ۔ خود ان کا انتخاب کرکے پانچ سالوں تک پھر ٹسوئے مارتے رہتے ہیں کہ سرکاریں بے کار ہیں ۔ عوام کو رُلا رہے ہیں ۔لوگ ہنسنا بھول گئے ہیں۔ ہنسنے پر مجھے یاد آیا کہ اب سرکاریں عوام کا مزاج دیکھ کر ہی مداوا ڈھونڈ تی ہے ۔سنا ہے کہ برسرِ اقتدار پارٹی نے طے کیا کہ اس کے تمام لیڈر اور منسٹر شہر شہر، قریہ قریہ گھوم کر عوامی جلسے منعقد کریں گے، ان جلسوں میں لیڈر اور منسٹر مزاحیہ تقریریں کریں گے، لطیفے سنائیں گے، نقلیں اُتاریں گے، ضرورت پڑنے پر ناچیں گے، گائیں گے۔ غرضیکہ کسی نہ کسی صورت مایوس اور زندگی بیزار عوام کو ہنسانے کی کوشش کریں گے۔ یہ کوئی معمولی یا چھوٹا کام نہیں ہے، اس کے لئے سرکار کو اپوزیشن والوں کے اداکار وں کی بھی ضرورت پڑگئی ۔
اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مزاحیہ تقریریں اور لطیفے، چٹکلے سنائے جانے لگے ۔ یہ تقریریں ، بیانات اور لطیفے اس قدر دلچسپ ہوتے کہ لوگ بھوک پیاس کو بھول کر جی کھول کر ہنستے رہتے ہیں ۔ سرکار بھی اپنی جگہ خوش تھی کیونکہ عوام خوش تھے۔ لیڈر مسرور تھے کہ انہوں نے عوام کے دکھوں اور محرومیوں کا مداوا ڈھونڈ لیا۔ہفتہ دس دنوں کے بعد جب یہ سارے مداری ، اداکار اور سرکس والے بند کمرے میں ملے تو سرکاری چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش میں لگے تھے کہ سب سے زیادہ میں نے ہنسایا، سب سے زیادہ میں نے پھینکی ۔ایک سیکریٹری نے اپنے منسٹر سے کہا بظاہر لوگ قہقہے لگا رہے تھے مگر ان کی آنکھوں سے آنسو بھی گر رہے تھے۔
’’چپ رہو احمق۔‘‘ منسٹر نے سیکریٹری کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا۔’’وہ خوشی کے آنسو تھے۔‘‘
رابطہ۔9622483080
[email protected]
������������������
 
								 
			 
		 
		 
		 
		 
		 
		 
		