جموں//پی ڈی پی اور بی جے پی کے ایجنڈا آف الائنس پر سوال اٹھاتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ و نیشنل کانفرنس کارگزار صدر عمر عبداللہ نے کہاکہ ریاست میں ریاست میں ایجنڈا آف الائنس نہیں اجیت دوول کا ڈاکٹر ین (حکمت عملی)چلتی ہے۔انہوںنے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے یہ سوال کیاکہ جب ان کے وقت میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم (SIT)پر بھروسہ نہیں تھا تو آج لوگ اس پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں ۔انہوںنے بھاجپا کی طرف سے عدالتی کارروائی کے ذریعہ دفعہ 370کو نقصان پہنچانے سے خبر دار کرتے ہوئے کہاکہ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد دوہرا معیار اپناتے ہوئے کنفیوژن پیدا کیاگیا جس کی وجہ سے حالات اوربھی خراب ہوئے ۔انہوںنے کہاکہ یاتو یہ ماناجائے کہ ایجی ٹیشن جائز نہیںتھی یاپھر برہان وانی کو ہلاک کرنے والوں کو میڈل دیاجانا ناجائز ہے ۔انہوںنے الزام لگایاکہ افسران کو وقت سے قبل تبدیل کرکے انہیں کام ہی نہیں کرنے دیاجارہا اورجنوبی کشمیر میں تبادلے اور تعیناتیاں سرتاج مدنی اور سجاد مفتی کی سفارش پرہوتی ہیں ۔ عمر عبداللہ نے کہاکہ ریاست کے چیف سیکریٹری کو بھی افواہیں پھیلاکر کمزور بنایاجارہاہے ۔وزیر اعلیٰ کے ماتحت محکمہ جات کے مطالبات زر پر اپنی طویل تقریر کے دوران عمر عبداللہ نے کہاکہ پی ڈی پی اور بی جے پی کا اتحاد ہوئے اب دو سال ہوئے ہیں، ہم کب تک ان سے اسی چیز پر سوال پوچھتے رہیںگے کہ کیوں کیا ،اب کرلیا ،ٹھیک کیا ، غلط کیا ،اچھا کیا ، برا کیا ،اس کا جواب اب اس ہائوس میں نہیں ،اس ہائوس سے باہر صحیح وقت پر لوگوںسے حاصل کیاجائے گا۔ان کاکہناتھاکہ میرا ارادہ ان سے یہ سوال کرنے کا نہیں ہے کہ آپ نے اتحاد کیوں کیا،بلکہ پوچھنے کا یہ ارادہ ہے اتحاد کے بعد اس ریاست کو آپ نے دیا کیا،اب ہمیں یہ مت کہئے کہ ہمیں ابھی تک وقت نہیں ملا ،کیونکہ لگ بھگ دو سال پورے ہونے جارہے ہیںجب سے آپ نے ہاتھ ملایاہے ،دو سال یعنی ایک تہائی پوری کرلی ہے ،مرکز کی حکومت جس کے ساتھ آپ کا رشتہ ہے ،انہوںنے پانچ میںسے لگ بھگ تین سال پورے کئے ہیں،آج میں آپ سے یہ جاننا چاہوں گاکہ اتحاد کرکے آپ نے اس ریاست کو دیاکیااورکیا حاصل ہوا۔انہوںنے سامنے بیٹھی وزیر اعلیٰ کو مخاطب کرکے کہا’’ کوئی ایسا نیا پروجیکٹ جس کی طرف آپ اشارہ کرکے کہہ سکتی ہیں کہ ہاں ان دو سالوں میں ہم نے اس ریاست کو یہ دیا،کوئی نیا ادارہ جس سے ریاست سے اس کا فائدہ ملاہو،کوئی گڈ گورننس کا ماڈل ہمیں دکھایئے کہ پچھلے دو سال کا نتیجہ ہے جو ہم نے لوگوں کو دیاہے ،جب ہم سیاست کو الگ کرکے جائزہ لیتے ہیں تو کچھ نیا نہیںدکھتا،آپ کہیںگے کہ حالات نے اجازت نہیں دی ،یہ بھی ایک بہانہ بنتاہے ،جہاں آپ کو موزوں لگتاہے وہاں آپ حالات کو مد نظر رکھ کر کام نہیں کرتے ،جہاں آپ کو موزوں لگتاہے وہاں حالات کے باوجود کام ہوتاہے ،اب میں اس محکمہ کو یہاں ننگا نہیں کرونگاکیونکہ اس محکمہ کے گرانٹس ہوگئے اور میں خاموش رہا،لیکن ایک اشارہ ضرور کرسکتاہوں کہ جہاں پر 2016میں خراب حالات کے باوجود اس محکمہ نے جنوبی کشمیر کے ایک اسمبلی حلقہ میں لگ بھگ تیس کروڑ کا کام کیاہواہے، اسی محکمہ نے ایک اور حلقہ میں لگ بھگ پندرہ کروڑ کا کام کیاہواہے لیکن جب اسی محکمہ کی کارکردگی ہم اپنے حلقہ میں دیکھتے ہیں ،چاہے گل صاحب کا حلقہ ہو ، چاہے ساگر صاحب کا ہو ، چاہے میرا ہو تو وہاں ہمیں زیرو نظر آتاہے ‘‘۔ان کامزید کہناتھا’’یہ مت کہئے کہ آپ کو وقت نہیں ملا ،یہ مت کہئے کہ حالات نے آپ کو اجازت نہیں دی ،کیونکہ جب آپ خراب حالات کے باوجود کچھ علاقوں میں کام کرسکتی ہیں تو پھر آپ کو ہر جگہ کام کرناچاہئے تھالیکن وہ ہمیں دکھتانہیں ہے ،سوموار کو جب آپ جواب دیں گی تو یہ بتائیں کہ ان دو سال میں وہ کونسی ایسی چیز ہے جس کیلئے لوگوں کو آپ کو سراہنا چاہئے ،کوئی ایک چیز جو آپ کھڑے ہوکہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ میں نے کیا اور لوگوںکو اس کیلئے مجھے سراہنا چاہئے ،ہم بھی جاننا چاہتے ہیں کہ آپ اپنی کارکردگی اور حصولیابی میں کس چیز کو گنتی ہیں ‘‘۔حالیہ شہری ہلاکتوں کی تحقیقات کیلئے خصوصی تحقیقاتی ٹیموں کے اعلان پر سوال اٹھاتے ہوئے عمر نے کہا’’2016کے حالات کو تفصیلاً ہم نے اس ایوان میں زیر بحث لایاہے ، شائد کوئی نئی بات نہیں ہے جو ہم یہاںسے کہہ سکتے ہیں یا جو شائد ہم آپ سے سننا چاہیںگے ماسوائے ایک چیز جس میں آپ کے لاجک کو سمجھنے کی کوشش کرتاآیاہوں مگر سمجھ نہیں پایا او ر آپ سے سننا چاہتاہوں ،جب انکوائری پر آپ کہتی ہیں کہ ہمیں جوڈیشل انکوائری کی ضرورت نہیں ہے ، ہم SITقائم کریںگے ، یہ SITآج کیوں آپ کیلئے موزوں ہے اور لوگ اس تحقیقات پر بھروسہ کیوں کریں ،وہ ہندوارہ کا SITکہاں گیا،ہندوارہ میں بھی آپ نے انکوائری کی مانگ کی ،اندرونی طور انکوائری کی بات کی ،مجھے وہ سیشن یاد ہے جب اسپیکر کی کرسی سے ہمیں یقین دلایاگیاتھا کہ چند دنوں کے اندراندراس انکوائری کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی ،وہ دن اور یہ دن اس انکوائری کا ابھی تک نام و نشان نہیں ہے ،اس کا اتہ پتہ نہیں ،اگر اتنا ہی آپ کو ان انکوائریوں پر بھروسہ ہے تو مجھے یہ بتایئے کہ میرے وقت میں آپ کو یہ بھروسہ کیوں نظر نہیں آیا ،میرے وقت میں بدقسمتی سے ایک شخص کی موت ہوئی ، نام آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں کیونکہ آپ نے مذمتی قرارداد کے دوران بھی اس نام کا ذکر کیا ، حاجی یوسف صاحب کا ،کیونکہ اس وقت کے ڈی آئی جی کرائم کے جب ان کو حوالہ کیاگیاتھا تو ان کی موت ہوئی ، ہم نے کہاتھاکہ اس میں باضابطہ پولیس کی کارروائی ہوگی لیکن آپ نے کہاکہ نہیں یہ پولیس کی کارروائی ہم قبول نہیں کریںگے ،پولیس اپنے آپ کی کیسے تحقیقات کرے جب یہاں الزام خود اسی پر ہے ،وزیر اعلیٰ کے خلاف ہے تو ہم پولیس سے کیسے یہ توقع یا امید کریں کہ پولیس والے خود اس کے منصف بھی بیٹھیںگے اور خود فیصلہ بھی سنائیںگے ،آپ نے اس وقت عدالتی تحقیقات کی مانگ کی اور ہم نے اس کو قبول کیا،آج مجھے بتایئے جب ایک نہیں سو کے آس پاس بزرگ ،نوجوان ، مرد ، عورت اس غیر یقینی حالات کے دوران مارے گئے تو لوگ کیسے بھروسہ کریںگے کہ آپ کے SITسے ہی ایک شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات ہوگی ،ہمیں یقین دلایئے ، فی الحال تو ہم یقین سے نہیں ہیں اسی لئے اسمبلی میں اتنا شور ہوا، ہم سنناچاہیںگے کہ ایک آدمی کی موت کے معاملے میں آپ نے عدالتی تحقیقات مانگی لیکن یہاں سو کے آس پاس لوگ مرے اور آپ کہتے ہیں کہ نہیں جناب ہم یہ سار اپولیس پر ہی چھوڑ دیںگے ‘‘۔حکمران اتحاد کے ایجنڈا آف الائنس پر عمل آوری کو صفر قرار دیتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ایجنڈا آف الائنس کا باربار ذکر ہوتاہے ،گورنر کے خطبے میں بھی آپ نے اسی بات پر کی ،نئی کوئی بات نہیں ،شائد اس تقریر میں اور پچھلے سال کی تقریر میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا،آپ ہمیں یہ سمجھاتی رہی کہ ایجنڈا آف الائنس پرکسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوناچاہئے،اس میں سبھی کو شامل رکھاگیاہے ،اس میں ہم نے ورکنگ گروپس سے سفارشات کو نکال کر شامل کیا ،اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے ،محبوبہ جی آپ کے ایجنڈا آف الائنس پہ کسی کو اعتراض نہیں ہے ،کم سے کم جو اس ایوان میں بیٹھے ہیں انہوںنے اس پر کبھی اعتراض نہیں جتایا ، ہم میں کسی نے بھی یہ نہیں کہاکہ آپ نے اپنے ایجنڈا آف الائنس میں وہ باتیں کیں جو آپ کو نہیں کرنی نہیں چاہئے تھیں ،ہم نے یہ نہیں کہاکہ آپ نے آئین و قانون کے خلاف بات کی ،ہم نے سوا ل اس کی ڈیلوری پر اٹھایا،آپ نے یہ ایجنڈا تو لوگوں کو دکھایا مگر اس پر عمل کرنے میں آپ پوری طرح سے ناکام ہوئیں ،ہمیں ایجنڈا آف الائنس پر سبق نہیں چاہئے ، اس کے مشمولات پر کوئی اعتراض نہیں ہے ،سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس کی عمل آوری کیوں نہیں ہوئی ۔ان کاکہناتھا’’جب آپ نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تو مجھے مرحوم مفتی صاحب کے وہ الفاظ اچھی طرح سے یاد ہیں کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس والوں کی تجوری خالی ہے ،مجھے مرکز سے پیسہ لاناہے ، بالخصوص جو سیلاب متاثرین لوگ ہیں ،ان کے لئے مجھے ریلیف لاناہے ،یہ جو چوالیس ہزار کروڑ کا پیکیج جو ریاست نے مانگاہے یہ پورا ہوناچاہئے ،آج جب آپ ایجنڈا آف الائنس کی بات کرتے ہیں تو ان سیلاب زدہ لوگوں کا بتایئے کہ کہاں گیا ان کا ریلیف ،آپ نے خود اسمبلی اور کونسل میں یہ تسلیم کیاہے کہ سیلاب متاثرین کو امداد پہنچانے میں آپ پوری طرح سے ناکام ہوگئی ہیں ‘‘۔ان کاکہناتھاکہ تو ظاہر سی بات ہے کہ ایجنڈا آف الائنس پر سوال اٹھے گا ہی ۔عمر نے مزید کہاکہ پاور پروجیکٹوں کی واپسی کا کہا گیا لیکن آج کا اخبار کا پہلا صفحہ کہتاہے کہ یہ پاور پروجیکٹ ہم واپس نہیں دیںگے تو سوال اٹھے گا ہی ،اسی لئے ہم باربار سوال پوچھتے ہیں کہ آپ ذرا بتائیں کہ ان دو سال میں ایجنڈا آف الائنس میںسے کوئی ایک چیز جو آپ نے مکمل کی ہو ،ہماری نظر میں ایسی کوئی بات نہیں جس میں ہم آپ کومبارک دے سکیں ۔انہوںنے کہاکہ ریاست کو ڈیل کرنے میں ایجنڈا آف الائنس نہیں بلکہ اجیت ڈولوال کے ڈاکٹرین کو عملایاجارہاہے ۔ان کاکہناتھا’’بدقسمتی سے آپ ایجنڈا آف الائنس کے تحت نہیں چل رہی ،اگر اس کے تحت چل رہی ہوتی تو شائد جون میں یہ حالات پیدا نہیںہوتے اور چھ ماہ تک ایسے حالات نہیںچلتے ،آپ ایجنڈا آف الائنس کے تحت نہیں بلکہ اجیت ڈولوال کے ڈاکٹرین کے تحت کام کررہی ہیں اور یہ حقیقت ہے کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اگر آپ اس طرف چلناچاہتی ہیں لیکن آپ تسلیم کریں ‘‘۔ان کا مزید کہناتھا’’میں کوئی ہوا میں بات نہیں کررہا،آپ سبھی کو آئی پیڈ دیئے گئے ، یوٹیوب کھولئے جہاں پر ڈولوال صاحب کی تقریر ہے جس کے پانچ یا چھ حصے ہیں ،یہ 2010کی تقریر ہے کوئی نئی بات نہیں ،2010اکتوبر 10تاریخ کو حیدرہ آباد میں انہوںنے تقریر میں ہمارے 2010کے حالات کو ڈیل کرنے کا جائزہ لیا اور ہندپاک تعلقات کی بات کی ،آپ دیکھئے کہ جو ڈولوال صاحب نے 2010میں کہا اور جس طرح آج آپ جموں کشمیر کو ڈیل کررہے ہو ، اس میں کوئی ذرا سابھی فرق نہیں ہے ،کس طرح ایجی ٹیشن کو دبانا چاہئے ، کس طرح جموں کشمیر کے سیاسی و نظریاتی نکتہ نظر کو نظر انداز کرناچاہئے ،کس طرح یہ نہیںہوناچاہئے جموںکشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کو سیاسی طور پر ڈیل کرناچاہئے ،کس طرح پاکستان کے ساتھ ڈیل کیاجاناچاہئے ، کس طرح حریت کو دبایاجاناچاہئے ،ان سب چیزوں کا اس تقریر میں ذکر ہے ‘‘۔ان کاکہناتھاکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یاتو آپ اپنے ایجنڈے آف الائنس پر چلئے جس میں بہت اونچی سطح کی باتیں کی ہیںیاپھر انہی نقش قدم پر چلئے جس پر آپ ابھی چل رہی ہیں کیونکہ دونوں کہیں پر ملتے نہیں،یاتو آپ کا ایجنڈاآف الائنس چل سکتاہے یااجیت ڈولوال کی ڈاکٹرین چل سکتی ہے ،لیکن یہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو طے کرناہوگاکہ اس ریاست میں کونسا روڈ میپ لاگو کرناہے کیونکہ ابھی تک صرف ایک ہی ڈاکٹرین چلاہے جو اآپ کانہیں ہے ۔برہان وانی ہلاکت پر بات کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ ہر کوئی چاہتاہے کہ ریاست میں حالات سازگار رہیں لیکن اس کیلئے کوئی کنفیوژن نہیںہوناچاہئے ۔ان کاکہناتھاکہ وہ وزیر اعلیٰ سے اس بات پر وضاحت چاہتے ہیں کہ انہوںنے پولیس کی یاد میں اکتوبر میں منائی جانے والی ایک تقریب میں خطاب کیا ،وہ اس تقریب میں موجود نہیں تھے لیکن انہوںنے اخباروں میں پڑھا کہ اس تقریب کے دوران شائد وزیر اعلیٰ نے یہ کہاکہ ہمارے جموںکشمیر والوں کو والدین کا رول ادا کرناچاہئے اور گمراہ نوجوانوں کو مین اسٹریم میں لانے کی کوشش کرنی چاہئے ،بہت اچھی بات ہے کہ پولیس کا یہی رول رہناچاہئے سختی کے بجائے نرمی ہو لیکن اسی تقریر میں شائد انہوں نے یہ بھی کہاکہ میں جموں کشمیر پولیس سے کہتی ہوں کہ جہاں مقامی ملی ٹینٹ کہیں پر پھنسا ہو اس کو انکائونٹر میں ماریئے نہیں ،اب میں نہیں جانتاہوں کہ یہ غلط خبر چھپوائی گئی یا آپ نے یہ واقعی میں یہ کہا۔اس پر وضاحت طلب کرتے ہوئے عمر نے کہا’’ اگر آپ نے یہ پولیس کو ہدایت دی ہیں تو میں یہ سمجھناچاہتاہوں کہ اس کا عمل وہ کیسے کریں اوراگر آپ نے پولیس کو یہ ہدایت دی ہیں تو کیاآپ نے یہ بات یونیفائیڈ کمانڈ میں بھی زیر بحث لائی ہے ،کیا پولیس کے ساتھ سی آر پی ایف اور آرمی والے اس میں آپ کو تعاون دیںگے ،کیا آپ کے پاس کوئی ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے آپ انکائونٹر لگتے ہی یہ پتہ کرسکتے ہیں کہ اس میں پھنسا ملی ٹینٹ مقامی ہے یا غیر مقامی ہے ،اگر آپ کے پاس اس طرح کی ٹیکنالوجی ہوتی تو پھر آپ جون میں کنفیوژن نہیں ہوتے ،نائب وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ہم نے اس کو غلطی سے مارا ،آپ نے کہاکہ اگر ہمیں معلوم ہوتاتو ہم اس کونہیں مارتے ،خدا را یہ وضاحت کریئے ،اگر میں کنفیوژہوں توممکن ہے کہ پولیس میں بھی کنفیوژن ہوگااور اگر ان چیزوں کولیکر پولیس میں کنفیوژن رہاتو پھر اس ریاست میں حالات ٹھیک رکھنا بہت مشکل ہوگا‘‘۔انہوںنے مزید کہاکہ ایک بات کیلئے ہمیں آپ کو ضرور شاباشی دیناہوگی کہ آپ کے وزیر اعلیٰ بننے سے قبل کچھ حلقوں سے یہ شوشا چھوڑنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ آپ ایک سافٹ علیحدگی پسند ہیں ،ملی ٹینٹوں کی طرف آپ کا رویہ نرم ہے ،لیکن آ پ نے اس چیز کو سو فیصدی غلط ثابت کیا،جتنے ملی ٹینٹ 2016میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ،شائد ہی پچھلے برسوں میں مارے گئے ہوںگے ،ناممکن ہے کہ آپ اگر ایک سافٹ علیحدگی پسند ہوتی اور آپ کا رویہ نرم ہوتاتو پھر اتنے ملی ٹینٹ سیکورٹی فورسز کا نشانہ بن جاتے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت بڑے پیمانے پر لاپرواہی ہوئی ہے ،ریاستی اور مرکزی حکومت کی سطح پر بھی‘‘۔انہوںنے وزیر اعلیٰ پر دہرا معیار اپنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ آپ ایک طرف سے کہتی ہیں کہ اگر مقامی ملی ٹینٹ ہوگاتواس کو ہم بچائیںگے ،آپ نے اس کے بعد کئی جگہوں پر یہ بھی کہاکہ ہم نے ملی ٹینٹ مارا ، برہان ملی ٹینٹ ہی تھا ، کونسی بڑی بات کی ،ملی ٹینٹ کے ہاتھوں روز مرتے ہیں لیکن اسی ملی ٹینٹ کو مارنے والے لوگوں کو آپ کی مرکزی حکومت نے تو میڈل دیا ،تو پھر ہمیں بتایئے کہ اگر وہ عام ملی ٹینٹ تھا تو لوگوں کی یہ ناراضگی ناجائز تھی ،ٹھیک ہے ہم بھی مانتے ہیں کہ اسطرح کا ایجی ٹیشن نہیں ہوناچاہئے تھالیکن وہ عام ملی ٹینٹ تھاتو اس کے مارنے والوں کو کل ہی تو میڈل پہنائے گئے ،توپھر وہ میڈل غلط ہیں ،دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں چل سکتی ۔انہوںنے بھاجپا ممبران سے مخاطب ہوکر کہا’’میں بی جے پی کے ساتھیوں کو خاموش بیٹھے دیکھ کر حیران ہوتاہوں کیونکہ مجھے ان کی پرانی باتیں یاد ہیں جب میرے دو رمیں سانبہ پہ حملہ ہواتو شائد ہی کوئی جگہ ہوگی جہاں پہ میرا پتلا نہ جلایاگیاہو،یا ڈاکٹر منموہن سنگھ صاحب کا پتلا نہ جلا ہو، کیا کیا نعرے ہمارے خلاف لگے لیکن آج ان کی خاموشی دیکھ کر میں حیران ہوتاہوں ،2008کے بعد سب سے زیادہ سیکورٹی فورسزاہلکار 2016میں قربان ہوئے جب ریاست اور مرکز میں آپ کی حکومت ہے ،کوئی آرمی کا ایسا ادارہ نہیں جہاں پر حملہ نہ ہواہو،پٹھانکوٹ ، نگروٹہ ، اوڑی ، اکھنور ،اس کیلئے آپ کو اپنے آپ کو قصوروار ٹھہراناہوگا ، کہیںنہ کہیں آپ لوگوںسے چوک ہورہی ہے ،یہ بڑی بڑی باتوں سے ملک کی حفاظت نہیں ہوتی ،مجھے یاد ہے جب ڈاکٹر منموہن صاحب اس ملک کے وزیر اعظم تھے تو آج کے وزیر اعظم نریندر مودی صاحب پرچار کررہے تھے ،ان کے الفاظ میں ابھی بھی کان میں گونجتے ہیں ،انہوںنے کہاکہ یہ یوپی اے والے ان کانعرہ ہے مرکسان مر جوان ، ہم آئیںگے تو دوبارہ یہ نعرہ بلندہوگا جئے جوان جئے کسان ،اب کہاں گیا وہ آپ کا نعرہ ،اب توکسان خودکشی کررہاہے ،آج نوٹ بندی سے کسان بھی تباہ ہواہے ،جوانوں کی بات ہی کیا کریں ۔بین خطوں میں ہوئی نابرابری کا ذکر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہاکہ ایجنڈا آف الائنس میں آپ نے خطوں کے درمیان برابری کی بات کی لیکن جب عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا توغائب ،جب مرکز نے ایک ایمز اور ایک آئی آئی ایم کا اعلان کیاتو یہ فیصلہ ہواکہ ایمز کشمیر کیلئے آئی آئی ایم جموں کیلئے ،جموں کے ہمارے ساتھی ناراض ہوئے اور کہاکہ ہمیں بھی ایمز ملناچاہئے ،ہم نے کہاٹھیک ہے کہ کشمیر کا ایمز چھینا نہیں جارہا،اگر آپ جموں کیلئے الگ ایمز حاصل کرسکتے ہیں تو اچھی بات ہے ،ہم نے جیسے دو یونیورسٹیاں لائیں،تھوڑی بہت ایجی ٹیشن چلی اور سیاسی رول رہااور پھر جموں کیلئے ایمز کا اعلان ہوگیاجو بڑی اچھی بات ہے ،لیکن جب آئی آئی ٹی کا اعلان ہواتو اسی ریجنل بیلنس کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا یہ کشمیر میں نہیں کھلناچاہئے تھا،میں یہاں سیاست نہیں کررہابلکہ میں برابری کی بات کررہاہوں،بدقسمتی سے جب ہم برابری کی بات کرتے تو ہم نہ لداخ کو کسی کھاتے میں لاتے ہیں ،نہ ہم کرگل کو کسی کھاتے میں لاتے ہیں،نہ ہم جموں یا کشمیر کے پہاڑی علاقوں کوکسی کھاتے میں لاتے ہیں ، ہمیں سرینگر اور اس کے آس پاس اور جموں اور اس کے آ س پاس اور کچھ نظر ہی نہیں آتا،پیر پنچال اور چناب ویلی کے لوگوں کی شکایتیں جائز ہیں ،چاہے گریز کے ہوں ، چاہے مچھل کے ہوں ،چاہے لیہہ کرگل کے ہوں لیکن تب بھی برابری ۔ان کاکہناتھا’’آپ اپنے ایجنڈا آف الائنس کو زیرو ثابت کررہی ہیں ‘‘۔ممبران اسمبلی کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے عمر نے کہاکہ ایم ایل اے کو خاطر میںلانے پر ایک سابق وزیر نے کل ہی تو اسی ایوان میں تقریر کی ہے ،اب پیچھے کیارہاہے میں تو حیران ہوتاہوں اور پریشان ہوتاہوں کہ اپنے لوگوں اور ورکروں کو کیا جواب دوںگا،مجھے ورکر کہتے ہیں کہ جب آ پ وزیر اعلیٰ تھے توہمیں کام پر افسر کہتے تھے کہ اپنے ایم ایل اے سے پوچھو چاہے کیونکہ ایم ایل اے پی ڈی پی کا ہو لیکن آج حکومت کسی اور کی ہے ، ایم ایل اے آپ ہو ،آج ہم لوگوں کے کام لیکر کسی افسرکے پاس جاتے ہیں تووہ کہتے ہیں کہ سابق ایم ایل اے ڈاکٹر شفیع کے پاس جائو ،چن کر لوگ آپ لوگ پوسٹ کرتے ہیں جس سے پلاننگ کے طریقہ کار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ،میرے ضلع میں چیف پلاننگ افسر چن کر لایاگیاہے تاکہ سیاسی مداخلت کی بنیاد پر فیصلے ہوں ،یہ صرف میری شکایت نہیں بلکہ کہیں پر بھی ایم ایل اے کو کھاتے میں نہیںلایاجاتا۔دو سال میں ہوئے افسران کے تبادلوں پر بولتے ہوئے انہوںنے کہاکہ جو افسر اپنی جگہ مطمئن نہ ہو کہ میں اس جگہ کچھ دیر رہوںگاتو اس سے کام کی کیا امید ہے ،سوپور کے ایم ایل اے حاجی رشید نے اسی ایوان میں بتادیاکہ دو بلاکوں میں پندرہ بی ڈی او تعینات ہوئے ہیں ،دو سال کے اندراندر آپ نے 2100پری میچور ٹرانسفریں کی ہیں،یعنی روزانہ کی بنیاد پر دو سے تین تبادلے ہوئے ہیں ،پھر افسروںسے کہاںسے کام لیںگے ،اس کیلئے حالات کو ہی الزام نہیں دیاجاسکتا۔ان کاکہناتھاکہ ڈاکٹروں کی اندھا دھند ٹرانسفریں ہوئیں جن سبھی کو دوردراز ہسپتالوںسے شہروں میںلایاگیا اور کسی ایک کو بھی دور دراز نہیںبھیجاگیا جہاں ہسپتال خالی پڑے ہوئے ہیں ۔عمر نے کہاکہ ری اپائنمنٹ ، ری ایڈجسٹمنٹ ، ری انگیجمنٹ کا سلسلہ جاری ہے ۔انہوںنے کہاکہ جب آپ کے چیف سیکریٹری اپنے آپ کو مضبوط نہ سمجھیں تو دوسرے افسر کیسے کام کریںگے ۔سابق وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ہر دوسرے تیسرے دن یہ افواہ ہوتی ہے کہ چیف سیکریٹری کو بدلاجارہاہے ،مہربانی کرکے افسران کو بھروسہ دلایئے ، ان کو کام کرنے دیجئے ،چیف سیکریٹری اور ڈی جی کو پورا بھروسہ دلائیں اور ان کو کام کا موقعہ دیں کیونکہ جب حالات خراب ہوتے ہیں تو آپ سب سے پہلے ان دونوں کو پکڑتے ہیں لیکن جب ان کو اپنی مرضی کے لوگ نہیں ملتے تو وہ کہاں تک ذمہ دار ہیں ۔انہوںنے مزید کہاکہ عام طور پر سیکریٹریٹ اور زمینی سطح پر یہ چرچاہے ،بالخصوص جنوبی کشمیر کو لیکر کہ وہاں تمام تبادلے اور تعیناتی سیاسی سطح پر ہوتی ہیں ،وہاں دو لوگوں کی سفارش کی ضرورت ہے ،ایک سرتاج اور ایک سجاد ، سرتاج مدنی صاحب اور سجاد مفتی صاحب ، دونوں شائد آپ کے رشتہ میں ہیں ، یہ چرچا ہے ایس ایچ او سے لیکر پٹواری تک ،اگر ان میںسے ایک کی سفارش ہو تو ٹھیک ہے اور اگر دونوں کی ہوتو بہت بڑی بات ہے،کچھ جگہوں کو آپ کو سیاسی مداخلت سے باہر رکھناہوگانہیں تو اس سے حالات خراب ہوجاتے ہیں ۔میں اپنے تجربے سے بات کررہاہوں ،میں نے اپنے ساتھیوںکو بہت بار ٹرانسفروں کے معاملے میں ناراض کیا ،ساگر صاحب ، مبارک گل صاحب اکثر مجھے یاددلاتے ہیں کہ میں نے سرینگر میں ایسا ایس ایس پی بھیجا جنہوںنے پارٹی کا وہاں پر بیڑہ غرق کیا لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے ڈی جی صاحب نے مجھے کہاتھاکہ مجھے یہ افسر دے دو ،میں نے کہا ٹھیک ہے اگر آپ کو لگتاہے کہ اس افسر کو لگاکر آپ حالات کو قابوکر پائیںگے تو یہ لیجئے ،یہ جانتے ہوئے کہ سیاسی طور پر مجھے اس کا نقصان ہوگا،ہمیں کبھی کبھی سیاست سے اٹھ کر فیصلے کرنے ہوتے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ مہربانی کرکے اپنے افسران کو مقامی اور غیر مقامی کی لڑائی میں مت لگایئے ،آپ کو دونوں سے کام لیناہے ،اگر یہ اس جھگڑے میں الجھ گئے تو آپ کیلئے کام کرنا بہت مشکل اور ڈیلور کرنا ناممکن ہوگا۔روزگار پر بولتے ہوئے عمر نے کہاکہ فاسٹ ٹریک ریکروٹمنٹ کی کامیابی سب کے سامنے ہے ،کوئی محکمہ ایسا نہیں جس میں اسامیاں خالی نہیں ،اس نئی پالیسی کے نتیجہ میں ریکروٹمنٹ کا سارا سلسلہ ہی رک گیاہے ،اس بارے میں وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔عمر عبداللہ نے خبر دار کیاکہ بھاجپا عدالتی نظام کے ذریعہ دفعہ 370کو نقصان پہنچاسکتی ہے جس سے ریاست میں مزید حالات خراب ہوسکتے ہیں ۔ان کاکہناتھا’’جو ہم سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بھاجپا نے 370کو تسلیم کرلیاہے اور اس پر کچھ نہیں ہوسکتا،وہ غلط ہیں،بی جے پی نے شائد اپنی جگہ اس بات کو تسلیم کیاہے اس میں قانون سازیہ کا استعمال نہیں کیاجاسکتا لیکن وہاں یہ عدالت کو استعمال کریںگے جس سے خبر دار رہنے کی ضرورت ہے ،جو سرفیسی میںہواوہ آگے نہیںہوناچاہئے ،سرفیسی یہاںلگنا چاہئے جس کے بارے میں ہمیں زیادہ خدشات بھی نہیں ہیں کیونکہ ہمیں بھی یہ معلوم ہے کہ آج کے قانون کے تحت آپ غیر ریاستیوں کو جائیداد نہیں بیچ سکتے لیکن جس طرح سے یہ کیس عدالت میںلڑاگیا،اگر 35Aکے معاملے میں بھی آپ کی یہی پالیسی رہی تواس ریاست کو بہت ہی زیادہ مشکل کاسامناکرناہوگا،تو ان کے عدالت کو استعمال کرنے کے ارادے کامیاب ہونگے اسلئے مہربانی کرکے کل ہمیں مت کہئے کہ ہم 35اے کو اچھال رہے ہیں اور لوگوں کوگرمارہے ہیں ،یہ ایشو ہم نے تیار نہیں کیاہے لیکن جہاں آپ گھر ٹھیک کرنے کیلئے کروڑوں کا استعمال کررہے ہیں وہاں اگر آپ لاکھوں کا استعمال کریں ،اچھے وکیل رکھئے جو آئین کو جاننے والے ہوں ،اگر اپنے ہی سٹینڈنگ کونسل ،جنرل اور ڈپٹی کونسل جنرل پر رکھیںگے تو پھر حال وہی ہوگا‘‘۔پبلک سروس گارنٹی ایکٹ ،ریزلٹ فریم ڈاکومنٹ ،گڈ گورننس کا ذکر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہاکہ جو کام پچھلی حکومت میںہوئے اس پر بھی کوئی پیشر فت نہیںہوئی ۔ان کاکہناتھاکہ عام طور پر ہم کارکردگی اسی ترازو میں تولتے ہیں کہ ہم نے پیسہ کتنا دیا اور خرچ کتنا ہوااورحصولیابیوں کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔انہوںنے مزید کہاکہ آر ایف ڈی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کس محکمہ کی کیا کارکردگی ہے اور یہ معلوم ہوسکے کہ کونسا وزیر کام ٹھیک کررہاہے اور کس کو مزید محنت کی ضرورت ہے جس سے شفافیت آجائے گی ۔انہوںنے کہاکہ کورپشن پر بڑے اعلان کئے گئے لیکن اس حکومت نے چند لوگوں کو وقت سے قبل سبکدوش کیا جن میںسے کچھ تو عدالت کے حکم پر واپس آگئے اور کچھ واپس آجائیںگے ۔عمر کاکہناتھاکہ کورپشن سے لڑنے کا سب سے بڑا ہتھیار آرٹی آئی ہے جس کو مضبوط بنانے کی ضرورت تھی لیکن یہ خالی پڑاہواہے ،کہیں پر اس کا کوئی استعمال ہی نہیں ،ویجی لینس کمیشن اور احتساب کمیشن کا تب استعمال ہوگا جب لوگ آرٹی آئی کا سہارا لیکر سوال پوچھیںگے ۔