گزشتہ دنوں جس طرح پولیس سب انسپکٹر بھرتیوں میں بھاری دھاندلیاں ثابت ہونے کے بعد بھرتی فہرست کو کالعدم قرار دیکر کیس کی سی بی آئی کے ذریعے تحقیقات کا حکم جاری کیاگیا،اُس سے جموں وکشمیر میں بھرتی نظام ایک بار پھر زیر بحث آچکا ہے ۔اس کے بعد فنانس اکائونٹس اسسٹنٹ بھرتی فہرست بھی شک کے دائرے میں ہے اور منتخب امیدواروں کی جانب سے مسلسل احتجاج کے باوجود حکومت کا کہنا ہے کہ اس فہرست کی بھی تحقیقات کی جارہی ہے اور اگر تحقیقاتی ٹیم کو لگا کہ بھرتی شفاف انداز میں ہوئی ہے تو بھرتی عمل آگے بڑھایا جائے گا اور اگر کہیں بھی دھاندلی کا شائبہ ہوا تو نہ صرف بھرتی فہرست منسوخ کی جائے گی بلکہ ملوثین کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی ۔جہاں تک پولیس سب انسپکٹر بھرتیوں کا تعلق ہے تو پہلی دفعہ یہ بھرتیاں پولیس کے بھرتی بورڈ سے سروسز سلیکشن بورڈ کو منتقل کی گئی تھیں اور پہلی ہی کوشش میں اس کا جو حشر ہوا ،اُس نے تو سروسز سلیکشن بورڈکی اعتباریت اور بورڈ کے ذریعے ہونے والے بھرتی عمل پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب چیف سکریٹری ڈاکٹر اشوک کمار مہتا کو یہ یقین دہانی کرنا پڑی کہ حکومت پبلک سیکٹر میں ملازمتوں کے انتخاب کے عمل میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرے گی، کیونکہ میرٹ ہی سرکاری ملازمت میں داخلے کا واحد معیار ہے۔
چیف سیکریٹری کی یقین دہانی بروقت ہے اور اس سے خدشات کا ازالہ ہوسکتا ہے تاہم یہ یقین دہانی جبھی کارگر ثابت ہوگی جب بھرتی ایجنسیوں میں اوپر سے نیچے تک اس یقین دہانی پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے ۔چونکہ ماضی اور حال کے تجربات کچھ اچھے نہیںہیں تو سرکاری بھرتی عمل میں تعلیم یافتہ نوجوانوںکا اعتماد دوبارپیدا کرنے کیلئے حکومت کو ایسا نظام وضع کرنا ہوگا جہاں انسانی مداخلت کم سے کم ہو اور جہاں میرٹ کی صد فیصد بالادستی یقینی بنائی جاسکے۔ پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کے مستقبل سے کسی کو کھیلنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ صرف میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کا عمل نوجوانوں اور حکومت کے بہترین مفاد میں ہے۔ چیف سکریٹری نے واضح کیا کہ جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمتیں فروخت کیلئے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے میں غلطیاں ہوئیں تو کیس تحقیقات کیلئے سی بی آئی کے پاس جائیں گے۔حالیہ بھرتی سکینڈل سے پہلے سروس سلیکشن بورڈ اور پبلک سروس کمیشن کئی سرکاری محکموں میں مختلف اسامیوں کے لیے بھرتی کے عمل میں مصروف تھے جو اب سارے شک کے دائرے میں آچکے ہیں۔بھرتی ایجنسیوں کو تمام ضروری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ کسی قسم کی بے ضابطگی دوبارہ نہ ہو۔ نوجوان پہلے ہی بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ نوکریاں فراہم کر رہی ہے۔اب جبکہ حکومت ملازمتیں فراہم کر رہی ہے تو یہ بھرتی ایجنسیوں کا فرض بنتا ہے کہ اس میں کوئی بے ضابطگی نہ ہو اور تمام طے شدہ اصولوں پر عمل ہو اور کسی بھی امیدوار کو مستحق امیدواروں کی قیمت پر بے جا فائدہ نہ ملے۔بھرتی کرنے والی ایجنسیوں کو ان تمام خالی اسامیوں کو بھی پْر کرنا چاہیے جو سرکاری محکموں کے ذریعے ریفر کی جارہی ہیں خاص طور پر اوپن میرٹ کوٹہ میں۔ وہ نامکمل سلیکشن لسٹیں متعلقہ محکموں کو نہ بھیجیں۔ بھرتی ایجنسیوں کو چاہئے کہ وہ اُن تمام اسامیوںکو بغیر کسی تاخیر کے پْر کریں جو بھرتی کیلئے ان کو مختلف محکموں کی جانب سے بھیجی گئی ہیں تاکہ کوئی بھی ریفرشدہ پوسٹ غیر ضروری طور پر خالی نہ رہے۔ایسا کرکے نہ صرف سرکاری سیکٹر میں کچھ نوکریوں کا بندو بست ہوسکتا ہے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ یہ عمل شفاف طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچ جائے اور کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔چونکہ یہاں سرکاری نوکریوںکے حوالے سے پہلے ہی ایک انار ہزار بیماروں والی صورتحال ہے ،تو سرکار کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس عمل میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تاکہ نوجوان طبقہ مایوسی کا شکار نہ ہوں اور پھر کوئی بے وقوفی نہ کربیٹھیں جس کا خمیازہ پورے سماج کو بھگتناپڑسکتا ہے ۔