منگل کی شام جاری کئے گئے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سروس سلیکشن بورڈ کی جانب سے مشتہر کی گئی درجہ چہارم اسامیوں کی بھرتی کیلئے منگل کی صبح تک 5لاکھ49ہزار اور500نوجوانوں نے بورڈ کے آن لائن پورٹل پر اپنی رجسٹریشن کرائی تھی جبکہ 2لاکھ90ہزار400امیدواروں نے اسی پورٹل کے ذریعے اپنی درخواستیں آن لائن جمع کرائی تھیں۔ خیال رہے کہ ایس ایس آر بی کی جانب سے10جولائی کو8575درجہ چہارم اسامیوں کیلئے یہ بھرتی عمل شروع ہوا ہے اور اس طرح کم و بیش 40دنوں میں اب تک اڑھائی لاکھ نوجوانوںنے اپنے فارم جمع کرائے ہیں جبکہ سلسلہ مسلسل جاری ہے ۔
گوکہ روزانہ کی بنیادوںپر حکومت کی جانب سے بھرتی درخواستوں اور رجسٹریشن کے حوالے سے انفارمیشن بلیٹن جاری کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نوجوان بڑھ چڑھ کر اس بھرتی عمل میں شامل ہورہے ہیں تاہم معمول کے پروپگنڈا کو چھوڑ کر اگر ان اعدادوشمار کا پوسٹ مارٹم کیاجائے تو انسان خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان اسامیوں کیلئے تعلیمی قابلیت زیادہ سے زیادہ بارہویں جماعت مقرر کی گئی ہے اور ا س سے زیادہ تعلیمی قابلیت رکھنے والوں کو ان اسامیوں کیلئے درخواست جمع کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے کیونکہ واضح لکھا ہے کہ آپ درخواست جمع کرتے وقت اپنی تعلیمی قابلیت کم کرکے دکھا نہیں سکتے ہیں اور اگر ایسا کیا تو آن لائن پورٹل میں ریکارڈ شدہ وہی تعلیمی قابلیت آپ کیلئے آگے آنے والی اسامیوں کیلئے بھی حتمی تصور کی جائے گی۔مطلب یہ ہے کہ بارہویں پاس کے علاوہ کوئی بھی امیدوار اب ان اسامیوں کیلئے درخواست دینے کا اہل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اب اتنا خطرہ مول لے سکتا ہے کہ وہ اپنی تعلیمی قابلیت بارہویں تک محدود رکھے کیونکہ آگے چل کر اس کو اس کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔اگر صورتحال ایسی ہے تو مطلب یہ ہے کہ ہمارے یہاں بارہویںپاس امیدواروں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے اور جس طرح منگل کی صبح تک ساڑھے پانچ لاکھ نوجوانوںنے اپنی رجسٹریشن کرائی تھی تو ا سکا مطلب ہے کہ یہ ساڑھے پانچ لاکھ نوجوان اپنی درخواستیں جمع کرائیں گے اور حتمی تاریخ تک اس تعداد میں مزید کتنا اضافہ ہوگا ،یہ دیکھنے والی بات ہے تاہم محتاط اندازوں کے مطابق یہ تعداد7لاکھ سے تجاوز کرجائے گی۔اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ درجہ چہارم کی ساڑھے آٹھ ہزار اسامیوںکیلئے 7لاکھ بارہویں جماعت پاس امیدوار میدان میں ہونگے ۔یہ محض گنتی کیلئے اعدادوشمار نہیں ہیں بلکہ ایک بڑے المیہ کی منظر کشی کررہے ہیں کہ کس طرح یہاں بیروزگاری انتہائی حدوں کو چھو چکی ہے۔ اگر ساڑھے آٹھ ہزار اسامیوں کیلئے7لاکھ امیدوار فارم جمع کررہے ہیں تو آپ اندازہ لگائیں کہ کیسی بھیانک صورتحال ہے جہاں ایک اسامی کیلئے بیک وقت کم ازکم83امیدوار میدان میں ہیں۔
یہ اعدادوشمار بھی حتمی نہیں ہیں کیونکہ کشمیر میں ڈومیسائل اسناد کی اجرائی سست روی کا شکار ہے اور ڈومیسائل سند فارم جمع کرنے کیلئے لازمی قرار دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ڈومیسائل کی شرط نہ ہوتی تو یہ اس تعداد میں مزید کچھ لاکھ کا اضافہ ہوسکتا ہے ۔اسی لئے کہاگیا تھاکہ یہ محض اعدادوشمار کا گورکھ دھندا نہیں ہے اور نہ ہی ان اعداد وشمار کو روزانہ بلیٹن کی زینت بنا کر کچھ حاصل کیاجاسکتا ہے بلکہ یہ لمحہ فکریہ ہے اس سماج کیلئے جس کا ہم حصہ ہیں۔یہ اعدادوشمار بتارہے ہیں کہ یہاں سرکاری نوکریوں کے حوالے سے ایک انار سو بیمار والا معاملہ ہی چل رہا ہے جو کوئی اچھی صورتحال قرار نہیں دی جاسکتی ہے۔
کشمیر میں بے روزگاری کا مسئلہ ہمیشہ سے سر فہرست رہاہے جس کا نپٹارا جنگی بنیادوں پرہونا وقت کی اشد ضرورت تھی مگریہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اس جانب روایتاً وقت وقت کی حکومتوں نے بہت کم تو جہ دی۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فی ا لوقت تعلیم یافتہ بے روزگاروں کے درد کا کوئی درماںہے نہ کوئی ہمدرد وغم گسار۔ آج کل کی کمر توڑ مہنگائی میں ان نوجوانوں کو ایک جانب گراں بازاری کا بھوت کچا چبا ئے، دوسری جانب حکومتی بے اعتنائیوں سے یہ لوگ پا مال ہوں، تو کیا کہئے ؟ آسمان کو چھوتی مہنگائی کے زمانے میں کسی کم نصیب تعلیم یافتہ بے کار لڑکے یا لڑکی اور اس کے والدین کا جینا کس قدردوبھر ہوتا ہے، اْسے کن کن نفسیاتی اور سماجی بیگانگیوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ،وہ ایک ناقابل ِبیان داستان ہے۔ ستم یہ بھی ہے کہ آج کشمیر میں بے روزگاروں میںایک بڑی تعداد اُن لوگوںکی بھی ہے جو ملازمت کے لئے مقررہ عمر کی حد پار کر چکے ہیں اور مایوسی کے عالم میں کف ِ افسوس ملنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر پاتے۔
لیفٹنٹ گورنر کا تعلیم یافتہ بے روزگاروں پر یہ ایک بڑا احسان ہوگا اگر وہ تمام خالی پڑی اسامیوں کو جنگی بنیا دوں پر منضبط بھرتی عمل سے پرُ کروائیں، کیجول لیبروں ، کنٹریکچول ملازمین اور عمر کی حد پار کر نے والے اْمیدواروں پر رحم کھاکر اُن کی مستقلی کے احکامات جاری کروائیں ، بھرتی بورڈوں کے رائج الوقت نظام میں کام کے نپٹارے کے باب میں جو کمیاں کوتاہیاں اوراسقام موجود ہیں ،اُنہیں ترجیحاًدورکروائیں ، اُمیدواروں کو خالص میرٹ کی بنیادوں پر ملازمتیں بنا کسی سیاسی مداخلت اور سفارشی کلچر کے فراہم کرنا یقینی بنوائیں ،یومیہ اُجرت پر کام کر نے والے جن ملازمین نے اپنی مدتِ ملازمت برسوں قبل پوری کر لی ہے،ا نہیں بلا تاخیر ریگولرائز کرو ا ئیں۔ اُمید یہی کی جاسکتی ہے کہ لیفٹنٹ گورنر اس ضمن میں حتی الوسع کردار ادا کر کے بے روزگاری کا کماحقہ تدارک کریں گے۔