سہ پہر کا وقت تھا- سلمیٰ برآمدے پر بیٹھی بہار کی تازہ فضائوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ مدہم ہوائوں سے کبھی کلیاں کھلتی تو کبھی پتّے ہلنے لگتے۔ کبھی سلمیٰ کے گھر کے آنگن میں لگے مکئی کے پودے جھوم اٹھتے۔ وہ اِس سماء میں گُم تھی کہ اس کے بغل میں پڑے موبائل فون پر کوئی مسیج آیا۔ جب سلمیٰ نے فون اٹھا کر دیکھا تو اسے پتا چلا کہ اگلے روز اس کے جاب یعنی نوکری کے لئے دئے گئے امتحان کا سلیکشن لسٹ آنے والا ہے۔ سلمیٰ نے بی۔ ایس۔ سی، ایم۔ ایس۔ سی اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری اعلٰی گریڑز سے مکمل کی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے کمپیوٹر کے شعبے میں بھی ڈپلومہ کیا تھا۔آج اس نے سرکاری نوکری کے لئے یہ امتحان دیا تھا، جس کا رِٹن ٹیسٹ اس نے کوالیفائی کیا تھا اور انٹرویو کے لئے منتخب ہوئی تھی۔ وہ کچھ روز پہلے انٹرویو کے لئے گئی تھی۔ اس نے وہاں بھی قابلِ تعریف کارکردگی دکھائی تھی اور وہ سلیکشن لسٹ میں اپنا نام دیکھنے کی خواہاں تھی۔ اسے اگلے دن کا بے صبری سے انتظار تھا۔وہ اس رات کے ہر گھنٹے کو منٹوں کی مانند گزارنا چاہتی تھی لیکن اُلٹا اسے یہ ہجر کی رات کی مانند دکھ رہی تھی۔ اُسے اس رات کا ایک ایک لمحہ ایک ایک برس کی مانند محسوس ہو رہا تھا۔
آخر کار اگلے روز کی صبح نمودار ہوئی۔ رات کی تاریکی ڈھل تو گئی لیکن آسماں ابر آلودہ تھا۔ گھنے بادل سورج کی کرنوں کے نمایاں ہونے میں اک چٹان بنے ہوئے تھے۔ تیز ہوائیں اس ماحول میں ایک دہشت نما انداز پیش کر رہی تھیں۔ سلمیٰ کے لئے یہ ابر آلود فضا، دہشت نما ہوائیں اور کالے بادل کوئی منفی اثرات نمایاں نہیں کر رہے تھے کیونکہ وہ تو سلیکشن لسٹ کی منتظر اور اس میں اپنا نام دیکھنے کے لئے بے تاب تھی۔ وہ کچن میں داخل ہوئی اور گلابی نمکین چائے کی چسکیاں لینے لگی۔ اس دوران اس کے دماغ میں سلیکشن لسٹ اور دل میں سرکاری نوکری کے خیالات نے اندر ہی اندر جشن نما کیفیات پیدا کی تھیں، جو گھنے سیاہ بادلوں کی گھٹاؤںکے منظر سے ناآشنا اور بے فکرتھے۔ سلمیٰ نے چائے نوش کر کے پیالہ نیچے رکھا ہی تھا کہ باہر اخبار آگیا۔ وہ جلد دروازے کی طرف گئی اور اخبار اندر لایا۔بالآخر اس کا انتظار اختتام کو پہنچا تھا۔ وہ سلیکشن لسٹ میں اپنا نام دیکھنے کے لئے پُرامید تھی کیونکہ اس نے تو رِٹن ٹیسٹ میں بھی اعلیٰ پوائنٹس حاصل کئے تھے اور اس کے بعد انٹرویو میں بھی عمدہ کارکردگی دکھائی تھی۔ سلمیٰ نے اخبار کھولا اور بنا کوئی اور خبر دیکھے ان اوراق میں سلیکشن لسٹ کھوجنے لگی۔ چھٹے صفحے پر اسے سلیکشن لسٹ ملا ۔ یہ دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکان نمودارہوئی۔وہ ہر کالم میں اپنا نام ڈھونڈنے لگی۔ ہر ایک نام کو غور سے پڑھا لیکن اسے اپنا نام اس سلیکشن میں نہیں ملا۔ اسے یقین نہیں آیا اوردوبارہ پورا سلیکشن لسٹ دیکھا لیکن اسے اپنا نام کہیں نہیں ملا۔ اس کے لئے یہ بات قبول کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ اسے اپنی محنت اور کارکردگی پر پورا بھروسہ تھا ۔ اسے یہ پوسٹ حاصل ہونے کا پورا اعتماد تھا۔ اسی بنا پر اس نے ایک اور مرتبہ اس لسٹ کو چھان مارا لیکن اپنا نام نہ پایا۔ اس نتیجے ،جو کہ اس کی امید کے متضاد تھا، نے اس کو چور کر دیا۔ اس کی خوشی کو کچھ پل میں رنج میں تبدیل کر دیا۔ گھنے بادلوں کی گھٹا اس کے پورے بدن پر چھا گئی۔ تیز ہوائیں تو جیسے اس کے قلب کی دھڑکنیں روکنے لگیں۔ اسے اپنے ماضی کی محنت و لگن،عمدہ نمبرات،اوراعلی ڈگریاں ایک نمایاں عکس پیش کر رہی تھیں۔ اسے امتحان کے دوران دیر راتوں تک جاگنا بارباریاد آ رہا تھا۔ سب سے زیادہ ازیّت تو اسے رِٹن ٹیسٹ کے عمدہ پوئنٹس کے تخیل سے ہو رہی تھی کہ رٹن ٹیسٹ کے عمدہ پوائنٹس کے باوجود بھی اس کا نام سلیکشن لسٹ میں نہیں تھا۔ اسے انٹرویو کے وقت پوچھے گئے سوالات اور اپنے پیش کئے گئے جوابات ابھی تک ذہن نشین تھے۔ وہ سلیکشن لسٹ میں اپنا نام نہ ہونے کی وجہ سے قاصر تھی۔ وہ اس وجہ کو جاننا چاہتی تھی لیکن اسے معلوم تھا کہ یہ ممکن نہیں چاہے، وہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرے۔ یہ عام لوگوں کے بس کی بات نہ تھی۔ آخر سرکاری نوکری کے خیالوں سے چور سلمیٰ اپنے کمرے میں گئی۔ اس کے گھر والوں کے لئے بھی یہ پورا واقعہ ایک سانحہ سے کم نہ تھا۔ انہیں سلمیٰ کی محنت اور اس کی ڈگریاں ذہن نشین تھیں کیونکہ اُس نے بھی تو قابلِ تحسین نتائج کے ساتھ کئی ڈگریاں حاصل کی تھیں، لیکن قسمت بشر کے قابو میں نہیں ہوتی۔
آخرروز و شب گزرتے گئے۔ سلمیٰ کئی پوسٹوں کے لئے فارم بھرتی گئی۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کی اعلیٰ ڈگری کے باوجود وہ کلاس فورتھ سے لے کر پروفیسر سب پوسٹس کے فارم بھرتی گئی۔کبھی تو اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا اس کی محنت و لگن، یہ ڈگریاں، اس کے عمدہ نمبرات سب رائیگاں ہیں۔ وہ سرکاری نوکری حاصل کرنے کی بے حد کوشش میں تھی لیکن قسمت نے کبھی اس کا ساتھ نہ دیا۔ اب اسے اتنا رنج نہیں ہوتا جتنا پہلی مرتبہ سلیکشن لسٹ میں اپنا نام نہ پانے پر ہوا تھا۔ اب اسے یہ سب ایک عام قصہ لگتا تھا۔سلمیٰ اب ایک پرائیوٹ اسکول میں پڑھاتی اور اس کے علاوہ کالج کے طلباء کو پرائویٹ ٹیوشن سینٹر میں پڑھاتی تھی۔ اس تنخواہ سے وہ اپنے تمام اخراجات بخوبی پورے کرتی اور اسے کچھ بچت بھی ہوتی۔ لیکن سرکاری نوکری کا خواب ابھی بھی اس کے قلب میں بسا تھا۔ وہ اگرچہ اپنے پرائیویٹ جاب سے مطمئن بھی تھی لیکن سماج میں پیدا سرکاری نوکری کا رشک اسے بے چین کرتا۔ اس کے گھر والے بھی اس کی سرکاری نوکری کے ہی منتظر تھے۔ ان کے سامنے اس کی پرائیویٹ جاب کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ سماج اور اپنے گردونواح کے رویّے سے سلمیٰ کی بے چینی اور زیادہ بڑھتی گئی۔ جو بھی اسے ملتا وہ اس سے سرکاری نوکری کا تذکرہ کرتا اور سلمیٰ کو ایک لاچار کی نظر سے دیکھتا۔ وہ پرائیویٹ جاب کے ذریعے اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونے اور پڑھائی کے ذریعے اپنے اخلاق و آداب اور صفات کو سنوارنے کے لئے سلمیٰ کی داد دینے کی بجائے اسے سرکاری نوکری نہ ہونےکی وجہ سے کمتری کا احساس دلاتے، جس سے اُس کا حوصلہ پست ہوتا۔اسے امتحان کی راتوں میں دیر رات تک جاگنا یاد آتا۔ اسے لگتا تھا جیسے صحیح معنوں میں اس کی پڑھائی کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے یہاں تک کہ اسے اپنے وجود پر افسوس ہوتا۔
سرکاری نوکری حاصل نہ ہونے سے سلماء کی زندگی کا ہر شعبہ متاثر تھا۔ سلمیٰ کی عمراکتیس برس کو پہنچی تھی لیکن اس کے گھر والے اسے ازدواجی زندگی شروع کرنے سے پہلے سرکاری ملازم دیکھنا چاہتے تھے۔ اگرچہ اُس کی کمائی پرائیویٹ جاب میں بھی اطمینان بخش تھی جس سے وہ مطمئن تھی لیکن اس کے باوجود ازدواجی زندگی کی شروعات کی خاطر اُس کے لئے سرکاری نوکری ملنا ضروری سمجھا جا رہا تھا۔ سلمیٰ تو سرکاری نوکری کے لئے مشتہر ہونے والے ہر عہدے کے لئے فارم بھرتی، امتحان دیتی لیکن قدرت کے فیصلے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ سرکاری نوکری نہ ملنے کی وجہ سے سلمیٰ کے ساتھ لوگوں کا افسوسناک رویّہ،اس کی اعلی ڈگریوں کا بیکار سمجھا جانااس کو نہایت اذیّت دیتا۔ سماج کا شاید ہی کوئی فرد ہوتا جو اُس کی تعلیم کو اس کے پاکیزہ رویے، خوشگوار رہن و سہن اور بلند اخلاق و آداب سے جوڑتا۔ وہ ایک سرکاری نوکری کے سوا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کے تمام اوصاف سے مزیں تھی۔ اس کا رہن سہن، چال و چلن، طور طریقہ نہایت ہی بلند اور دلکش تھا۔ اس کی شیرین زبانی، نرم گفتاری اور سلیقہ و طریقہ قابل تعریف تھا۔ وہ صحیح معنوں میں ایک تعلیم یافتہ خاتون ہونے کا دعوی ٰ پیش کرتی تھی۔ اس کے اندر انسانیت، خلوص، رفاقت، سمجھداری، انسان دوستی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جو صحیح معنوں میں ایک تعلیم یافتہ خاتون کی صفات ہیں۔ جو سرکاری نوکری سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اس رنج و غم اور سرکاری نوکری کے المیہ سے بعض اوقات سلمیٰ کی آنکھیں بھر آتیں۔ وہ خود کو کمترسمجھتی اور بے سکونی اس کے قلب میں گھر کر لیتی لیکن اُس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے اپنا پرائویٹ جاب مسلسل جاری رکھا۔ وہ تعلیم کے ذریعے بچوں میں پڑھائی کا صحیح مفہوم اُجاگر کرتی اور انہیں علم کے نور کے ذریعے اچھے کامل انسان کی صفات سے روشناس کرتی جو کہ پڑھائی کا صحیح مقصد ہے۔ اس نے اپنی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کی اور سرکاری نوکری نہ ملنے کو قسمت اور قدرت کا ایک فیصلہ مان کر اپنی زندگی خوشی خوشی گزارنے کا تہیہ کر لیا۔ اس نے گھر والوں کو بھی اس بات سے آشنا کرایا اور انہیں بھی احساس ہوا کہ علم حاصل کرنے کا مقصد سرکاری نوکری حاصل کرنا ہی نہیں بلکہ صحیح معنوں میں انسان بننا ہے۔
یہ المیہ ہمارے سماج میں کسی ایک سلمیٰ سے نہیں بلکہ اُس جیسے کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے منسلک ہے، جنھیں سرکاری نوکری نہ ملنے کی بناء پر گھر میں کمتر نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی پڑھائی کو رائیگاں سمجھا جاتا ہے،جس کی وجہ سے بیشتر لوگ ڈپریشن میں مبتلا ہوتے ہیں اور کئی خودکشی جیسے المناک حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ پرائویٹ سیکٹر میں کام کر رہے مرد و خواتین کو کمتر نظر سے نہ دیکھیں اوربراہِ کرم تعلیم کو سرکاری نوکری سے نہیں بلکہ انسانیت اور انسانی صفات سے منسلک کریں۔
���
طالبہ سکواسٹ کشمیر واڑورہ
ای میل؛[email protected]
Visit and subscribe my blog for further write-ups_
www.vardahfatima.blogspot.com