سرکاری شعبوں میں شفافیت لانے کا عمل؟

جموں و کشمیر کی موجودہ یو ٹی سرکار نے اپنے دورِ اقتدار کے دوران کئی بار اس بات کا عزم دہرایا کہ وہ یہاں کی انتظامیہ کو کورپشن سے صاف و پاک اور جوابدہ بنانے میں کوئی فروگذاشت نہیں کرے گی تاکہ یہاں کے عوام کی ترقی و خوشحالی اور فلاح و بہبودکے لئے اٹھائے گئے سرکاری اقدامات مثبت طریقے پر انجام پذیر ہوسکیں۔اگرچہ اس ضمن میں کئی عملی اقدامات کئے گئے اور شفاف اور جوابدہ انتظامیہ کو یقینی بنانے کے لئےکافی کچھ کام بھی کئے گئے ،لیکن بغور دیکھا جائے تو موجودہ سرکار بھی یہاں کے سرکاری شعبوں میں سالہا سال سے چلی آرہی بدعنوانیوںاور بد نظمیوںکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔بے شک بیشتر سرکاری خدمات آن لائن کی جاچکی ہیں،ملازمین کو ہر سال اپنی آمدنی کے گوشوارے جمع کرنے کے لئے بھی کہا گیا ہے،جس کےباوصف کئی سرکاری سکیموں میں بہتری کے نتائج بھی سامنے آنے لگے اور مختلف کاموں میںشفافیت کا عنصر جھلکنے لگا تھا، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ مجموعی طور پریہ سلسلہ ٹھوس بنیادوں پر قائم نہیں رہا اور شفافیت کا عنصر نظروں سے اوجھل ہوتا رہا ۔اسی طرح شفافیت لانے کیلئے سسٹم کو فول پروف کی ایک کڑی کے تحت جموںوکشمیر میں انسداد رشوت ستانی ادارہ ’’اینٹی کورپشن بیورو‘‘بھی قائم کیاگیا،جس نے قلیل مدت میں اپنے طریقہ کار سے بڑے بڑوں کی نیندیں حرام کرکے عوام کے دل جیت لئےتھے ۔ اکتوبر2019کو اینٹی کورپشن بیورو نے جب اپنا کام کرنا شروع کردیا تو ملک کی کئی دوسری ریاستوں کے طرز پراس انسداد رشوت ستانی ادارے کو مستحکم کرنے کیلئے فوری طورجموںوکشمیر میں دو پرانے انسداد رشوت ستانی پولیس تھانوں کے علاوہ مزید 6نئے تھانوں کا قیام بھی عمل میں لاکر جموںوکشمیرتک اس ادارے کا عملی دائرہ کار بڑھایاگیا۔ چنانچہ2020سے اب تک اس ادارے کی طرف سے انسداد رشوت ستانی قانون کی مختلف شقوں کے تحت سرکاری ملازمین و دیگر لوگوں کے خلاف رشوت ستانی کے سینکڑوں کیس درج کئےگئے ۔جبکہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اپنی سرکاری پوزیشن کا ناجائز استعمال کرنے اور رنگے ہاتھوں رشوت لیتے ہوئے پکڑے گئے لوگوں کے خلاف کیس درج کرکے یکے بعد دیگرےمختلف محکمہ کے ملازمین کو رنگے ہاتھوں دھرپکڑ بھی لیا گیااور کئی ملازمین کو قبل ازوقت نوکریوں سے سبکدوش کردیا گیا۔گویا جموں و کشمیر کے سرکاری اداروں میں شفافیت لانے کے تئیں موجودہ انتظامیہ نے جس طرح کی سنجیدگی کا مظاہر کیا،اُس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ جب لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو سب انسپکٹر اور فنانس اکائونٹس اسسٹنٹ اسامیو ں کی بھرتی میں دھاندلی کی شکایات ملیں تو انہوںنے اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کروائی اور جب شکایات درست پائیں تو اُن بھرتیوں کو کالعدم قراردینے میں دیر نہیں لگائی اور پھر سب انسپکٹر اسامیوں کیلئے نئے سرے سے تحریری امتحان منعقد کرانے کے علاوہ سابقہ بھرتیوںکے معاملہ کی تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کی ،جنہوںنے ان معاملات میں درجنوں لوگوں کی گرفتار ی عمل میں لائی ۔اسی طرح دوسرے کئی شعبوں میں دھاندلیوں کے معاملات پر بھی خاطر خواہ اقدامات اٹھائے گئے اور مختلف افسروں اور ملازمین کی بد عنوانیوں کے پردے فاش کرکے اُن کے خلاف قانونی کاروائیاں کی گئیں۔لیکن اتنا کچھ کرنے کے باوجود لمحہ ٔ فکریہ والی بات یہ ہے کہ آج بھی مختلف شعبوں میںہورہی بد عنوانی اور کورپشن کی جو خبریں عوامی حلقوں میںپھیلی ہوئی ہیں ،وہ مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعےتواتر کے ساتھ ہر خاص و عام تک پہنچ رہی ہیں۔اس لئے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ابھی تک جموںوکشمیر میں کورپشن پر مکمل طور قابو نہیںپایاجاسکا ہے اور ابھی بھی سسٹم میں بہت سےبے ضمیر لوگ اور بدعنوان عناصر موجود ہیں جو اپنی کالی کرتوتوں سے باز نہیں آرہے ہیں اور نِت نئے طریقوںسے کورپشن کو فروغ دے رہے ہیں۔گوکہ حکومت جس انداز سے کورپشن کو مٹانےکی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں ،اُن میں نئے سرے سے بہتری اورسرعت لانے کی ضرورت ہے تاکہ یقینی طور پر وہ ہدف حاصل کیا جاسکے،جس سے جموںوکشمیر کی انتظامیہ میںشفافیت و جوابدہی کی صد فیصد فراہمی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔اس سلسلے میں لوگوں کو بھی اپنا منصفانہ رول ادا کرنا چاہئے اور سرکار کے اس عمل میں اپنا تعاون پیش پیش رکھنا ہوگا تاکہ ایسی غلط کاریوں میں ملوث لوگوں کی سرکوبی کی جاسکے اور کورپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھا ڑ پھینکا جائے۔