سید رضوان گیلانی
جموں و کشمیر کے سرکاری سکولوں کو ایک نازک مسئلہ ( بنیادی ڈھانچے کی کمی)کا سامنا ہے جو فوری توجہ کا متقاضی ہے ۔گوکہ سخت سردیوں کے حالات چیلنجوں کو بڑھاتے ہیں تاہم یہ خوفناک صورتحال ان سکولوں میں سال بھر برقرار رہتی ہے، جس سے ہزاروں طلباء، خاص طور پر کنڈرگارٹن اور پرائمری کلاسوں میں تعلیم پر اثر پڑتا ہے۔ قومی اور یوٹی سطحوں پر پرجوش تعلیمی اصلاحات کے باوجود ان اقدامات کی کامیابی کا انحصار ناکافی انفراسٹرکچر کے بنیادی مسئلے کو حل کرنے سے منسلک ہے۔
برسوں کے دوران، جموں و کشمیر حکومت نے حکومت ہند کے منصوبوں کے ساتھ ہم آہنگی میں، تعلیم کے شعبے میں متعدد اصلاحات نافذ کی ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 نے نصاب اور تدریس میں اہم تبدیلیاں لائی ہیں، جس کا مقصد بنیادی سطح پر بچوں کو مضبوط بنیاد فراہم کرنا ہے۔ ڈیجیٹائزیشن پر توجہ، مشترکہ داخلہ ٹیسٹ، لڑکیوں کی تعلیم کے لئےسکیمیں اور ہنر کی ترقی پر زور تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لئے ایک جامع نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ متعارف کرائی گئی ایک بڑی اصلاحات تھی جس نے سکول کی تعلیم سے ہی مختلف سطحوں پر نصاب اور تدریس کو تبدیل کیا۔ اس نے سیکھنے کا ایک نیا طریقہ پیش کیا جو بنیادی سطحوں پر بچوں کی مضبوط بنیاد ڈالنے میں بہت آگے جا سکتا ہے۔ یہ متعدد داخلی اور خارجی اختیارات کے ساتھ کورسز کے انتخاب میں لچک بھی پیش کرتا ہے۔
حکومت نے تعلیم کی ڈیجیٹائزیشن پر بھی توجہ مرکوز کی ہے، خاص طور پر کووڈ وبائی امراض کی وجہ سے سیکھنے کے نقصان کی وجہ سے۔ آج، SWAYAM، DIKSHA، SWAYAM PRABHA، ورچوئل لیبز اور دیگر آن لائن ریسورس پورٹلز کے لئے رجسٹر کرنے والے طلباء کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
حکومت نے ریاستی سطح پر ہونے والے مقابلوں کو ختم کرنے کےلئے انڈر گریجوٹ اورپوسٹ گریجوٹ سطحوں پر مشترکہ داخلہ ٹیسٹ متعارف کرائے اور تمام طلبا کے لئے مقابلہ کرنے کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پیش کرکے سب کیلئے یکساں مواقع فراہم کئے۔
سکولوں اور کالجوں میں لڑکیوں کے داخلے کو بڑھانے کے لئے لڑکیوں کی خاطر تعلیمی سکیموں پر بھی بہت زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے جب کہ نئی اصلاحات میں طالب علموں کی مہارت کی نشوونما پر مزید توجہ شامل ہے۔
ان اہم اصلاحات کے درمیان سکولوں میں بنیادی ڈھانچے کی کمی ایک تشویشناک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ناکافی سہولیات، خاص طور پر پرائمری اور مڈل لیول کے سکولوں میں، کئی کلاسوں کو ایک کمرے تک محدود کرکے رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ نئے کالج بھی ناکافی رہائش سے کام چلارہے ہیںاور ان میں لیبارٹریوں اور آلات کی شدیدکمی ہے۔ ایک حالیہ حکومتی رپورٹ میں تقریباً 5000 سکولوں میں بنیادی ڈھانچے کے فرق کو نمایاںطور اجاگر کیا گیا ہے، خاص طور پر وہ سکول جو دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں حکومتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 25 نئے قائم ہونے والے اور موجودہ کالجز اپنی عمارتوں کے بغیر ہیں۔ یہ انکشاف حکام کے لئے آنکھ کھولنے کا کام کریںاور سکول اور کالج کی سطح پر بنیادی ڈھانچے کے خلا کو پر کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی جائے ۔تب ہی ہم تعلیمی شعبے میں اصلاحات لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
بنیادی ڈھانچے کی کمی کو دیکھتے ہوئے، خاص طور پر پرائمری اور مڈل سطح کے سکولوں میں ایک سے زیادہ کلاس کے طلباء کو ایک ہی کچے کمرے میں ٹھونساجاتا ہے جو زمینی سطح پر محکمہ تعلیم کو درپیش چیلنجوں کی عکاسی کرتا ہے۔
صرف سکول ہی نہیں، یہاں تک کہ نئے کالج بھی خستہ حال رہائشوں سے کام کر رہے ہیں۔ کالجوں میں لیبارٹریز اور لیبارٹری کے آلات کی بھی کمی ہے۔
خطے کے جغرافیائی چیلنجز، جو پہاڑی علاقوں اور شدید موسمی حالات سے نشان زد ہیں، ترقیاتی کاموں میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں۔ سکولی عمارتوں کی تعمیر، تعلیمی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کا ایک اہم پہلو، برف سے ڈھکے ہوئے علاقوں میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں 25 نئے قائم ہونے والے اور موجودہ کالجوں میں مناسب عمارتوں کی کمی ہے۔
بنیادی ڈھانچے کی کمی کے طلباء کے لئے سنگین نتائج ہوتے ہیں، خاص طور پر وہ کنڈرگارٹن اور پرائمری کلاسوں میں جو سردیوں کے دوران منجمد حالات کو برداشت کرتے ہیں۔ صورت حال نہ صرف ان کی صحت کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ سیکھنے کے عمل میں بھی رکاوٹ بنتی ہے۔ یہ ایک سیشن میں لازمی 220 تعلیمی دنوں کو حاصل کرنے کے بارے میں تشویش پیدا کرتا ہے جب طلباء کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتی ہیں۔
کچھ شہری سکولوں کے برعکس ،جو مسلسل توجہ حاصل کرتے ہیں، دیہی سکول سرکاری غفلت کا شکار ہیں۔ اندراج میں مسلسل اضافے کے باوجودیہ سکول بنیادی ڈھانچے کی کمی سے دوچار ہیں جو ان کی فضیلت کی صلاحیت میں رکاوٹ ہے۔ شہر کے سکولوں پر حکومت کی توجہ دیہی علاقوں تک بڑھانے کی ضرورت ہے، جہاں طلباء کی آبادی کامیابی کی امید فراہم کرتی ہے اگر مناسب توجہ دی جائے۔
سکولوں میں بنیادی ڈھانچے کی کمی نے سٹیک ہولڈروںمیں خدشات کو جنم دیا ہے کیونکہ سکول جانے والے بچے سکولوں میں کانپتے رہتے ہیں کیونکہ حکومت نے سکولوں کی زمینی حقائق پر غور کیے بغیر سیشن کے 220 تعلیمی دن مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی اصلاحات کے لئے حکومت کا عزم قابل ستائش ہے۔ ان اقدامات کی کامیابی جموں و کشمیر کے سرکاری سکولوں میں بنیادی ڈھانچے کے خلا کو دور کرنے پر منحصر ہے۔ ان سکولوں میں طلباء کو درپیش مسائل فوری کارروائی کے متقاضی ہیں۔
جبکہ طالب علموں کومسلسل پریشانی کا سامنا ہے، سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس وادی اور جموں کے سرمائی علاقوں میں سکولوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے، اسکولوں میں طلباء کے لیے گرمی کی سہولیات فراہم کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہ مسئلہ پہلے دن سے ہے اور ہر سال اس طرح کی صورتحال جاری رہتی ہے اور امسال بھی حالات کچھ مختلف نہیں ہیں۔
ہم سکولوں کی جلد بندش یا تعلیمی سیشن کو پٹری سے اتارنے کی حمایت یا وکالت نہیں کررہے ہیں لیکن روزانہ درجہ حرارت میں کمی اور سکولوں میں بنیادی ڈھانچے کی کمی کو دیکھتے ہوئے، اس نے والدین اور دیگر فریقین کے درمیان خدشات کو جنم دیا ہے۔پچھلے کچھ دنوں سے، دھند کی ایک موٹی تہہ نے کشمیر کے کئی حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جبکہ اننت ناگ، پلوامہ، شوپیاں، بڈگام اور بانڈی پورہ جیسے متعدد مقامات پر درجہ حرارت صفر سے نیچے ریکارڈ کیا گیا ہے۔
لہٰذاموجودہ زمینی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئےسکولی تعلیم محکمہ کو کم از کم پری پرائمری کلاسوں کے لئے موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان کرنے کےلئے غور و خوض شروع کرنا چاہئے۔
بلاشبہ تعلیمی سیشن کی تکمیل لازمی ہے، حکام کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ طلبہ کو تعلیمی اہداف کے حصول کے لئے بہتر انفراسٹرکچر فراہم کریں۔حکومت کو سکولوں کی عمارتوں کی تعمیر کو ترجیح دینی چا ہئے، ضروری سامان فراہم کرنا چاہئے اور جغرافیائی چیلنجوں پر قابو پانا چاہئے تاکہ تعلیمی ماحول کو یقینی بنایا جا سکے۔ صرف یہ اقدامات ہی220 تعلیمی دن مکمل کرنے کا ہدف حاصل کر سکتا ہے۔ صرف اس بنیادی ڈھانچے کے خلا کو پر کرنے سے ہی یہ خطہ حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی تعلیمی اصلاحات کے مثبت نتائج کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ یہ لازمی ہے کہ نئی اصلاحات متعارف کرانے کے لیے مناسب انفراسٹرکچر میسر رکھا جانا چاہئے۔نچلی سطح پر تعلیمی اصلاحات کے ثمرات حاصل کرنے کے لیے دونوں کو ساتھ ساتھ چلنا چاہئے ورنہ اگر ڈھانچہ دستیاب نہ ہوگا تو آپ کتنی ہی تعلیمی اصلاحات کا اعلان کرکے انہیں زمینی طح پر عملیانے کی کوشش کیوں نہ کریں،نتائج مایوس کن ہی ہونگے اور تعلیمی شعبہ کی حالت نہیں بدلے گی۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)