ریاست میں سرکاری تعلیمی نظام تنزلی کی طرف گامزن ہے اوراس کی بدحالی کا اندازہ اس تلخ حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ دور افتادہ علاقوں میں بڑی کلاسوں کے متعددطلاب تعلیم کے بنیادی مدارج سے پیوست نہیں ہو پاتے ہیں۔حال ہی میں راجوری کی تحصیل تھنہ منڈی سے رونگٹے کھڑے کردینے والی یہ اطلاع سامنے آئی کہ نویں جماعت کے طلباء کو انگریزی اور اردو کے حروف تہجی کی تعلیم دینے کیلئے خصوصی کلاسز شروع کی گئی ہیں اوراس کام کیلئے تین اساتذہ کو مامور بھی کیاگیاہے ۔تھنہ منڈی کے بوائز ہائراسکینڈری سکول میں یہ خصوصی کلاسیں قصبہ کے گردونواح سے آٹھویں جماعت پاس کرکے اس ادارے میں نویں کلاس میں داخلہ لینے والے طلباء کی خاطر لگائی گئی ہیں اور سکول انتظامیہ کے مطابق ان طلباء کو حروف تہجی بھی پوری طرح سے یاد نہیں تھے ،اس لئے انہیں اس کی تعلیم دی جارہی ہے ۔ نویں جماعت کے طلباء کیلئے حروف تہجی کی کلاسوں کا اہتمام محکمہ تعلیم کیلئے لمحہ فکریہ ہے اور اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو ایسے نظام پررونا چاہئے۔ شہرو دیہات میں ہر جگہ سرکاری تعلیمی نظام پر اعتماد ختم ہوتاجارہاہے اوریہی وجہ ہے کہ والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ و پیشہ وارانہ صلاحیتیں رکھنیکے باوجود سرکاری سکولوں میں تعینات اساتذہ پر نجی تعلیمی اداروں میں کام کررہے کم تعلیم یافتہ اساتذہ کو ترجیح دے رہے ہیں ۔دور دراز علاقوں میں سرکاری سکولوں کا حال زیادہ ہی خراب ہے، جہاں نہ ہی ضرورت کے مطابق تدریسی عملہ تعینات ہوتاہے اور نہ ہی بنیادی ڈھانچے کی فراہمی،جس کے نتیجہ میں طلباء کی تعلیم بری طرح سے متاثر ہوتی ہے اور ان کا مستقبل سنورنے کے بجائے تاریکیوں میں گمنام ہوتاجارہاہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہروں اور قصبوں میں والدین کے پاس اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ دلانے کا متبادل ہوتاہے لیکن دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں والدین کے پاس ماسوائے سرکاری سکولوں کے بچوں کے داخلے کے کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوتااور پھر اساتذہ کی لاپرواہی اور ڈیوٹی سے غیرحاضری ان بچوں کے مستقبل کو ابتدائی سطح پر ہی تباہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔حکام کی طرف سے نظام میں بہتری کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن زمینی سطح پر حقیقت کا ادراک تھنہ منڈی کے ہائراسکینڈری سکول سے ہوجاتاہے ۔ نویں جماعت کے طلباء کی کمزور تعلیمی حالت کیلئے بالآخر کس کو مورد الزام ٹھہرایاجائے ۔ کیا اس کیلئے اساتذہ ذمہ دار ہیں یاپھر محکمہ تعلیم کی بے حسی، جس نے اس شعبے کو آج اس نہج پر پہنچادیاہے کہ گورنمنٹ سکولوں میں دیئے جارہے درس کو دوسرے درجے کی تعلیم شمار کیاجاتاہے۔ریاست کے تعلیمی نظام میں کسی انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے اور تھنہ منڈی میں حروف تہجی کی کلاسز کا اہتمام محکمہ تعلیم کیلئے اس سلسلے میں ضروری اقدامات کی خاطر چشم کشاہے ۔ جہاں والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دی جارہی تعلیم پر توجہ دیں وہیں ایسے اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے جو تنخواہیں تو موٹی موٹی لیتے ہیں مگران کی کارکردگی اس قدر مایوس ہوتی ہے کہ ان کیلئے بچوں کو حروف تہجی کی تعلیم دلانا بھی مشکل ہوجاتاہے ۔ریاستی حکومت کو تعلیمی شعبے کے تئیں اپنائی جارہی پالیسیوں پر نظرثانی کرناہوگی اوران خامیوں کو تلاش کرناہوگاجو اس شعبے کی تنزلی کا باعث بن رہی ہیںاور جن کی وجہ سے یہ شعبہ دن بدن تنزلی کاشکار بنتاجارہاہے کیونکہ اگر سرکاری ڈھانچے میں تعلیم کا شعبہ درست ڈگر پر گامزن ہوجائے گاتو دیگر شعبے بھی اس سے تحریک لیں گے۔