دنیا میں اگر پیشے کے لحاظ سے بات کی جائے تو سر ِ فہرست مدرس یعنی استاد کا پیشہ مانا جاتا ہے ۔مغربی دنیا میں استاد کو بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور نتیجہ یہ کہ مغربی دنیا تعلیم اور ٹیکنالوجی میں سبقت لیے ہوئے ہے۔مغربی دنیا کے ممالک کی سرکاریں تعلیمی شعبے کو تر جیح دیتے ہیں اور اس کے لئے الگ سے بجٹ مختص رکھتے ہیں۔ مذہب ِ اسلام میں بھی اس مقدس پیشے کو خاص مقام حاصل ہے مگر ہمارے ملک اور خاص کر ہماری ریاست جموں و کشمیر کا معاملہ تعلیمی لحاظ سے مختلف ہے۔یہاں ہر دور میں تعلیم کا شعبہ ہی نامساعدحالات سے سب سے زیادہ متاثر رہا ہے ۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے جب بھی جموں و کشمیر میں دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات کے نتائج منظر ِعام پر آجاتے ہیں تو جہاں ایک طرف پرائیویٹ اسکولوں کے لئے ان کی معیاری کارکردگی کی بنیاد پر تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں ، وہیں دوسری جانب سرکاری اسکول اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے سرخیوں میں آجاتے ہیں اور سماج کے ہر طبقے میں موضوع بحث بن جاتے ہیں۔سماج کا ہر طبقہ اپنی اپنی رائے دے کر سرکاری اسکولوں کے اساتذہ صاحبان کو ہی اس ناقص کارکردگی کے لئے مورد الزام ٹھہراتے ہیںمگر راقم الحروف کی ایک نجی تحقیق کے مطابق سرکاری اسکولوں کی ناقص کارکردگی کے لئے اکیلے سرکاری اساتذہ صاحبان کو ہی ذمہ دار نہیں گردانا جاسکتا ہے بلکہ ناقص کارکردگی کے لئے استاد،شاگرد ،والدین، سماج اور انتظامیہ برابر کے ذمہ دار ہیں ۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پرایئویٹ اسکولوں کے اساتذہ صاحبان کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اچھے نتائج فراہم کرتے ہیں اور اس کے برعکس سرکاری اسکولوں کے اساتذہ صاحبان اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کے باوجود بھی اچھے نتائج فراہم نہیں کرپاتے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کے ا ساتذہ اپنے فرائض خوش اسلوبی اور پابندی کے ساتھ انجام نہیں دیتے ہیں۔ان میں نظم و نسق کا فقدان عروج پر ہے۔وہ اپنے آپ کو جوب دہ نہیں سمجھتے ہیں ۔ اسکول دیر سے آنے اور اسکول سے وقت سے پہلے رخصت ہونے کے جراثیم بیشتراساتذہ صاحبان کی رگوں میں سرایت کر چکے ہیں۔راقم الحروف کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ سرکاری اساتذہ صاحبان کی ایک اچھی خاصی تعداد تجارت کے شعبے سے وابستہ ہوگئی ہے۔بیشتر اساتذہ صاحبان کو سیبوںکے کاروبار سے منسلک پایا گیاہے۔ایک وہ پرایئویٹ اسکول کا استاد جس کی ماہنا تنخواہ چار ہزار یا پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہے اپنے قوم کو اچھے نتائج فراہم کرتا ہے وہیں تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے کہ سرکاری اسکول کا استاد جس کی ماہنا تنخواہ چالیس یا پچاس ہزار سے زیادہ ہے اپنے قوم کو ہمیشہ اپنی کارکردگی کی وجہ سے مایوس کر دیتا ہے۔حکومت نے اگرچہ بائیومیٹرک ایٹنڈینس کی مشینیں ہر ہائیر اسکینڈری اور ہائی اسکول کو فراہم کی ہیں اور جس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں لیکن حکومت کا یہ احسن اقدام تب ہی نتیجہ خیز بن جائے گا جب بایئومیٹرک ایٹننڈینس کی مشینیں مڈل اور پرائیمری اسکولوں میں بھی نصب کی جائیں گی۔بہرحال بایئومیٹرک ایٹنڈینس ہو یا روایتی ایٹنڈنس ،جب تک سرکاری اسکولوں کے اساتذہ صاحبان کے ضمیر نہیں جاگ جائیں گے تب تک تعلیمی نظام میں سدھار نہیں آسکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ ہمارے سماج میں اچھے اور ایماندار اساتذہ صاحبان کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے اور ان ہی اساتذہ صاحبان کی وجہ سے ابھی تک سرکاری اسکولوں میں علم کی شمع روشن ہے۔جب تک سرکاری اسکولوں کے اساتذہ صاحبان اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھیں گے اور جب تک وہ یہ بات محسوس نہیں کریں گے کہ اگر ہم دوسروں کے نونہالوں اور ادھ کھلے پھولوں کو دھوکہ دیں گے تو ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ ہمارے خود کے پھول یعنی ہمارے اپنے بچے دوسروں کے ہاتھوں دھوکہ کھائیں گے۔ ہمارے سامنے اساتذہ صاحبان کی کئی ایسی زندہ مثالیں موجود ہیں جہاں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ صاحبان نے اپنے فرضِ منصبی کے تیئں غفلت شعاری کا مظاہرہ کیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے خود کے بچے ان پڑھوں کی فہرست میں شمار ہوگئے۔ مجموعی طور اساتذہ صاحبان کو اپنے فرض ِ منصبی کو سمجھنا چاہیے تب ہی ہمارا سماج ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔
سرکاری اسکولوں کی ناقص کارکردگی کے لئے جہاں ایک طرف اساتذہ صاحبان ذمہ دار ہیں تو وہیں دوسری جانب طلاب بھی اس عمل میں برابر کے شریک ہیں ۔بیشتر اساتذہ صاحبان کی یہی شکایت رہتی ہے کہ طلبہ کو جو ہوم ورک دیا جاتا ہے وہ اسے گھر پر اچھی طرح سے نہیں کرتے ہیں اور اساتذہ کا یہ بھی مانناہے کہ طلبی وطالبات اسکولوں سے اکثر غیر حاضر رہتے ہیں ۔طلبا ء کا کا م ہے روز پابندی کے ساتھ اسکول آنا اور اگر وہ اسکول نہیں آتے ہیں پھر اس ضمن میں استاد کو ذمہ دار گرداننا نا نصافی ہے۔راقم الحروف نے کئی اسکولوں کا دورہ کرکے شدت سے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد کے پا س موثر اسٹیشنری نہیں ہوتی ہے ۔خاص کر پرائمری سطح اور مڈل سطح کے اسکولوں میں یہ عام بات ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پرائمری سطح کے طلبہ کے پاس اکثر وبیش تر لکھنے کے لئے ایسی پنسل ہوتی ہے جس کا سائز دوائی کے کیپسول سے بھی چھوٹا ہوتا ہے اور جس کاپی پر وہ اسکول کا کام لکھتا ہے، اس کاپی کے ایک طرف گھر میں بیچے ہوئے دودھ کا حساب کتاب لکھا ہوا ہوتا ہے۔اب اگر اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم استاد کو ہی خامیوں کا ذمہ دار اور خرابیوں کی جڑ قرار دیں، تویہ بھی نا انصافی ہوگی۔
سرکاری اسکولوں کی ناقص کارکرددگی کی تیسری وجہ غیر ذمہ دارن والدین ہیں ۔ کئی اساتذہ صاحبان نے راقم الحروف کو بتایا کہ کئی بار انھوں نے بچوں کے والدین کو تحریری طور آگاہ کیا کہ ان کے بچے تعلیمی لحاظ سے کمزور ہیں اور مہر بانی کرکے ہم سے رابطہ کیجیے تاکہ ہم جان سکیں کہ اگر بچے میں تعلیمی لحاظ سے کمزوری ہے تو اس کی وجہ کیا ہے اور ہم اور آپ مل بیٹھ کر اس تعلیمی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔لیکن کوئی بھی والدین ان حساس معاملوں میں اساتذہ صاحبان کے ساتھ تعاون نہیں کرتا ہے۔حیرانی کی حد تو تب ہوئی جب ایک والدہ نے راقم الحروف سے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں اس لئے داخل کرتے ہیں تاکہ ہم گھر کا کام آرام سے کرسکیں اور ہمارے بچے ہمیں پریشان نہ کریں اور پورا دن آرام سے گزر جائے۔دوسرے لفظوں میں اس والدہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے نہیں بلکہ اپنے آپ کو تنہا رکھنے کے لئے اسکول بھیجتے ہیں ۔کئی اساتذہ صاحبان نے اس سچائی سے بھی پردہ سرکایا کہ خدا نخواستہ اگر کبھی کسی والد صاحب کے ساتھ ان کی ملاقات ہوجاتی ہے تو ان کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل پڑتے ہیں کہ ماسٹر جی !ہمارے بچے کی اسکالر شپ آگئی کیا؟پچھلے سال کی یونیفارم بھی ہمارے بچوں کو ابھی تک نہیں ملی؟یہ ہیں ہمارے آج کے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین۔خدارا مجھے بتائے کہ کیا کبھی کسی والد نے اسکول جاکر اساتذہ صاحبان سے یہ باتیں پوچھی ہیں کہ کیا میرا بچہ روز اسکول آتا ہے؟میرا بچہ کسی مضمون میں کمزور تو نہیں ؟کیا میرا بچہ نظم وضبط کا پابند ہے؟وغیرہ وغیرہ۔مان لیا جائے کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء کے والدین زیادہ تر اَن پڑھ ہیں مگر جس طرح ایک اَن پڑھ والد جب سیبوں کے باغات میں جاتا ہے تو اگر اس کو وہاں پر سیبوں کے درخت یا سیبوں میں کوئی گڑبڑ محسوس ہوتی ہے تو بے چین ہوجاتا ہے، فوراًاپنے کسی ہمسایہ کے ساتھ مشورہ کرتا ہے اور اگر مطمیٔن نہ ہوجائے تو سیدھے ماہرینِ باغات کا رخ کرتا ہے مگر جب اسی والد سے کوئی استاد کہتا ہے کہ آپ کا بچہ فلاں مضمون میں کمزور ہے تب وہ بے چین کیوں نہیں ہوجاتا ہے؟تب وہ کسی ماہرین تعلیم کے ساتھ رابطہ قائم کیوں نہیں کرتا؟یہ سب سوچنے اور غور کرنے کی باتیں ہیں ۔پھر جب سالانہ نتائج آجاتے ہیں تو ایسے ہی والدین استاد کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے ناقص نتائج کی تلوار استاد کے گلے میں لٹکا دیتے ہیں۔سرکاری اسکولوں میں زیادہ تر تعداد ان طلباء کی ہے جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔پرائیویٹ اسکول کی انتظامیہ پہلے اسکول میں داخلے کے لئے باضابطہ ایک تحریری امتحان لیتی ہے اور جو اس تحریری امتحان میں پاس ہوجاتا ہے اسی کو اسکول میں داخلہ مل جاتا ہے۔حالانکہ عدالت ِ عظمیٰ کا واضح حکم ہے کہ نرسری یا پری نرسری کے بچے کا امتحان نہیں لیا جاسکتا مگر اس حکم پر کوئی عمل نہیں ہوتاہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں وہی بچے آتے ہیں جنہیں پرائیویٹ اسکول کی انتظامیہ داخلہ نہیں دیتی ہے۔پرائیویٹ اسکولوں کے طلاب اچھے امتحانی نتائج کا مظاہرہ اس لئے کرتے ہیں کیوں کہ وہاں پر والدین اپنے بچوں پر تعلیمی لحاظ سے کڑی نگاہ رکھتے ہیں ۔ابھی بچہ اسکول کی یونیفارم ہی اُتار رہا ہوتا ہے کہ والدین پرئیویٹ ٹیوشن کے لئے بھیج دیتے ہیں ۔ پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین اپنی ذمہ داری پوری طرح سے نبھاتے ہیں۔جب کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین خوابِ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔سرکاری استاد اپنی جیب سے کاپی اور پنسل کے لئے پیسہ دیتا ہے اور کبھی کبھی غریب طلباء کے لئے مخصوص رکھے گئے فنڈ میں سے بھی اسٹیشنری لا کر دیتا ہے ۔ مگر دوسرے دن نہ طلبہ وطالبات کے پاس پنسل ہوتی ہے اور نہ ہی کاپی۔
سرکاری اسکولوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی چوتھی ذمہ داری خود سرکار پر عائد ہوجاتی ہے۔ہر بار سرکار دعویٰ کرتی ہے کہ اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے گا اور تعلیمی معیار کو بڑھایا جائے گامگر یہ تمام وعدے کبھی وفا نہیں ہوتے ۔ بقولِ مسرور انورؔ ؎
دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی
سرکار ابھی تک تعلیمی نظام کو درست نہیں کر پائی ہے۔دوہزار سترہ کی اساتذہ صاحبان کی تبدیلی کا معاملہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ محکمہ تعلیم کے پاس اپنے اساتذہ صاحبان کی مکمل جانکاری موجود نہیں ہے۔کیوں کہ مذکورہ ٹرانسفر لسٹ میں ایسے اساتذہ صاحبان کو بھی شامل کیا گیا تھا جو ایک سال یا چھ مہینے پہلے اپنے عہدوں سے سبکدوش ہوچکے تھے۔۔سرکار کی طرف سے اس سے بڑھ کر اور کیا ستم ظریفی ہوگی کہ پرائمری اسکولوں اور مڈل اسکولوں میں ماسٹرس اور پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ عملے کو تعینات کیا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس ہائی اور ہائر اسکینڈری اسکولوںمیں گریجویٹ ڈگری یافتہ اور بارہویں پاس اساتذہ صاحبان کو تعینات کیا جاتا ہے۔اساتذہ صاحبان کی تعلیم کے درمیانی دورانیہ میں تبدیلی بھی تعلیمی نظام پر بـرا اثر ڈالتا ہے۔محکمہ تعلیم کے اساتذہ صاحبان دوسرے محکموں کا کا ج سنبھال رہے ہیں اور بطورِ کلرک یا دوسرے عہدوں پر دوسرے محکمہ جات میں کام کر رہے ہیں ۔ حالانکہ تمام اساتذہ صاحبان کا اولین فرض ہے طلباء کو تعلیم کے نور سے آراستہ کرنا۔ مندرجہ بالا معاملات بھی تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو تہس نہس کرنے میں پیش پیش ہیں۔
مختصراًجب تک اساتذہ صاحبان اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نہیں نبھائیں گے ،طلباء بھی اساتذہ صاحبان کے ساتھ جب تک تعاون نہیں کریںگے ،والدین بھی جب تک اپنی ذمہ داری بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ نہیں نبھائیں گے اور انتظامیہ بھی جب تک خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوگی تب تک نظام تعلیم کی کشتی ڈگماتی رہے گی۔ جب تک اساتذہ صاحبان،طلاب ،والدین اور انتظامیہ مل کر اور ایک ٹیم بن کر کام نہیں کر یں گے اور اپنے اپنے فرائض کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام نہیں دیں گے تب تک نظام تعلیم میں سدھار نہیں آسکتا ہے ۔جس دن نظام تعلیم میں سدھار آجائے گا اُسی دن استاد کو سماج میں کھویا ہوا مقام واپس مل جائے گا اور اس عظیم پیشے کی عظمت کا احساس سماج کے ہر فر دکو محسوس ہوگا۔پرجوش اور تازہ دم اساتذہ صاحبان سے اب یہی امید ہے کہ وہ محکمہ تعلیم میں نئی روح پھونک کر ایک تاریخ رقم کریں گے۔ الغرض اگر طلبہ ،والدین اور انتظامیہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے تو دعوے کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سرکاری اسکولوں کے نتائج حوصلہ افزا ء ہوںگے اور ریاست جموں و کشمیر اور بالخصوص وادی کشمیر میں تعلیم کا منظر نامہ ہی بدل جائے گا ،کیونکہ ہمارے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ صاحبان میں قابلیت کی کوئی کمی نہیں ہے ع
ہمت کرے انساں تو کیا نہیں ہوسکتا
…………………….
رابطہ : گورنمنٹ ہائی اسکول سندو شیرمال شوپیان کشمیر
ای ۔میل:۔[email protected]