نئی دہلی//آج عام انتخابات ہوتے ہیں تو جس این ڈی اے کو سال 2014 میں 336 سیٹیں ملی تھیں اس کو محض276 سیٹیں ہی مل سکتی ہیں اور یہ سروے عام انتخابات سے چھ ماہ پہلے کا ہے یعنی مودی کے لئے سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ سی ووٹر کے تازہ’’ اوپینین پول‘‘ کو اگر باریکی سے دیکھا جائے تو جس پارٹی نے عوام کو اچھے دن لانے کے وعدے کئے اس پارٹی کے اچھے دن بھی اب چند ماہ کی بات رہ گئی ہے۔ عام انتخابات سے چھ ماہ پہلے ہوئے سروے میں ویسے تو بی جے پی اور این ڈی اے کو 60 سیٹیں کم ہونے کے با وجود بھی سب سے بڑی پارٹی اور بڑے اتحاد کے طور پر دکھایا گیا ہے لیکن اس میں جو بی جے پی کے گرنے کا گراف ہے اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ جب چھہ ماہ پہلے یہ حال ہے تو آنے والے دنوں میں بی جے پی کے گراف کے بہت تیزی سے نہ گرنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کیونکہ حکومت کے پاس اپنی شبیہ ٹھیک کرنے کے لئے وقت نہیں ہے اور ہر نئے دن کے ساتھ حزب اختلاف کے حملوں میں تیزی آ رہی ہے۔اس سروے کے مطابق بی جے پی کو28 سیٹوں کے نقصان کے ساتھ اپنے بل بوتے پر اکثریت سے بہت دور یعنی صرف248 سیٹیں حاصل ہو سکتی ہیں یعنی سروے نے ایک بات تو طے کر دی ہے کہ نریندر مودی ملک کے اگلے وزیر اعظم نہیں ہوں گے۔ عام انتخابات سے چھہ ماہ قبل ہوئے اس سروے میں کانگریس کو بہت پیچھے دکھانے کے با وجود بھی سال 2014 کے مقابلہ بہت آگے دکھایا گیا ہے۔بی جے پی کے لئے نیند اڑانے والی بات یہ ہے کہ اڈیشا کے علاوہ کوئی بھی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں سے بی جے پی اپنے نقصان کی بھرپائی کر سکتی نظر آ رہی ہو۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کو عام انتخابات میں اچھا کرتا ہوا دکھایا گیا ہے ان ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی حالت خراب دکھائی گئی ہے۔ جیسا کے یہ عام خیال ہے کہ بی جے پی مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات میں اچھا نہیں کرتی نظر نہیں آ رہی تو اگر ان ریاستوں میں بی جے پی اقتدار کھو دے گی تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کو عام انتخابات میں 180سیٹیں بھی نہیں مل پائیں گی کیونکہ عوام پھر ریاستی حکومتوں کے نتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے ووٹ کریں گے۔ادھر بی جے پی کے لئے سب سے بڑی پریشانی اتر پردیش اور بہار ہے۔ سروے کے مطابق اگر آج بھی اتر پردیش میں عظیم اتحاد اپنی حتمی شکل اختیار کر لیتا ہے تو ریاست میں بی جے پی کو زبردست نقصان ہوگا۔واضح رہے اتر پردیش کی وجہ سے ہی بی جے پی سال2014 میں اقتدار میں آئی تھی کیونکہ یہاں کی 80 سیٹوں میں سے 73 این ڈی اے نے جیتی تھیں۔ ادھر اس سروے سے یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اتر پردیش میں بی ایس پی، ایس پی اور کانگریس نہیں ملے تو نہ صرف بی جے پی کو فائدہ ہوگا بلکہ ایس پی اور بی ایس پی ہندوستانی سیاست کی ایک تاریخ بن جائیں گی کیونکہ علاقائی پارٹیوں کے لئے دس سال اپنی ریاست سے نمائندگی کا ختم ہونے کا مطلب ہے ان کے وجود کا ختم ہونا۔ بہار میں اگر کشواہا اور پاسوان این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو این ڈی اے بہار میں ختم ہو جائے گا۔ پاسوان اور کشواہا کا این ڈی اے میں بنے رہنے کے امکان بہت کم ہیں۔بی جے پی کی پریشانی کی دو بڑی وجہ یہ بھی ہیں کہ وہ شمالی رہاستوں کے اپنے نقصان کی بھرپائی جنوب سے کرتی نظر نہیں آ رہی ہے اور جن ریاستوں میں وہ اقتدار میں ہے وہاں اس کی کارکرد گی بہت خراب ہے۔ بی جے پی جن ریاستوں میں کئی سالوں سے اقتدار میں رہی ہے وہاں اس کو یہ فائدہ تھا کہ مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی تو وہ مرکز کو برا بلا کہہہ کر ریاست کی حکومت بچا لیا کرتی تھی لیکن اب مرکز میں بھی بی جے پی ہے اس لئے دونوں حکومت کے خلاف عوام کی ناراضگی کو بی جے پی کو جھیلنا بہت مشکل ہے۔