سرینگر// لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے کہا ہے کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور این آئی اے کو مزاحمتی لیڈر شپ کے خلاف ایک ہتھیار کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے،تاہم وہ کسی بھی صورت میں سرنڈر نہیںکریں گے۔ محمد یاسین ملک نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انہیں ابھی تک اس کیس کے سلسلے میں کوئی بھی نوٹس انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے موصول نہیں ہوا ہے،بلکہ اانہیں بھی میڈیا کے ذریعے ہی اس کی خبر ملی۔انہوں نے کہا’’ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں نوٹس بھیجنے سے قبل ای ڈی نے یہ نوٹس میڈیا کیلئے جاری کردیا تاکہ حسب دستور میڈیا ٹرائل کو شروع کیا جاسکے‘‘۔ملک نے کہا کہ نئی دہلی کی طرف سے کشمیری آزادی پسند لیڈر شپ کو جھکانے کے حربے کے برعکس وہ اپنی تمام زندگی تہاڑ جیل میں گذارنے کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا’’ بنیادی طور پر مزاحمتی قائدین کو نوٹسز بھیجنے کا مقصد انہیں سرنڈر کرانا ہے،میں نئی دہلی کو بتانا چاہتا ہوں، میں اپنی پوری زندگی تہاڑ جیل میں گذارنے کیلئے تیار ہوں، لیکن انکے سامنے سرنڈر نہیں کروں گا‘‘۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کی تحریک ہمارے لئے محبت ہے اور جو محبت کرتے ہیں وہ سرنڈر نہیں کرتے، ہم تیاڑ جیل میں مرجانا بہتر سمجھیں گے، نہ کہ سرنڈر کریں۔
پستول کی نوک پر مذاکرات
محمد یاسین ملک نے کہا حقیقت میں بھارت کشمیریوں کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرنا چاہتا ہے،اور’’این آئی اے اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘‘ اس کا ایک حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پیلٹ اور گولیوں سے جب وہ کشمیریوں کو زیر نہ کرسکے،تو این آئی ائے اور ای ڈی کا ہتھیار لیکر آئے۔انہوں نے کہا ’’ہوسکتا ہے،کہ اب کی بار مجھے جیل بھیجنے کی تیاری ہو،تاہم میں بے صبری سے انتظار کر رہا ہوں‘‘۔ملک نے کہا ’’دہلی ہماری کنپٹی پر بندوق رکھ کہ ڈاکو گبر سنگھ والا رویہ کر رہا ہے،اور ایک طرف ہمیں بات چیت کی دعوت دیتی پھر رہی ہے اور اگر ہم انکار کردیتے ہیں تو ہمیںفرضی کیس کھولنے اور نت نئے نوٹس ارسال کرکے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی جاتی ہے‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ سیدعلی گیلانی،میرواعظ عمر فاروق اور میرے(محمد یاسین ملک) کے افراد خانہ،رشتہ داروں اور دوستوں و ساتھیوں کو این آئی اے کی طرف سے ڈرایا دھمکایا گیا،جبکہ سید صلاح الدین کے بیٹے کو بھی نظر بند رکھا گیا ۔ملک نے کہا ’’ دہلی میں حکمران لوگ اور فسطائیت والی سوچ کے حامی ہمیں کہہ رہے ہیںکہ ہم ناجائز تسلط کے خلاف اپنی مزاحمت ختم کر دیں اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو وہ ہمیں بدنام کر دیں گے۔ ہمیں قتل کروادیں گے اور تہاڑ جیل میں ڈال دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہلی نشین میڈیا کا ایک حصہ بھی کشمیر میں ہو رہی بدترین پامالیوں پر پردہ پوشی کر رہا ہے،اور فورسز کارروائی کو جواز بخشتا ہے۔انہوں نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’’موصوف ہماری مزاحمت کو 2022ء تک ختم کردینے کے خواب بُن رکھے ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ عوامی تحاریک اور قومی مزاحمتوں کو کچل دنیا اور ختم کرنا کس کے بس میں نہیں ہوا کرتا ہے‘‘۔
کیس پوٹا عدالت میں
ملک نے کہا کہ مارچ2001میں انتخابات سے قبل متحدہ حریت نے ایک متوازی الیکشن کمیشن کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد جموں کشمیر کے حوالے سے کون نمائندہ ہے،اورکون نہیں کافیصلہ کیا جانا تھا،اور اس سلسلے میں معروف حقوق انسانی کارکن تپن بوس کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا۔انہوں نے کہا کہ اسی دوران یہ خبر آئی کہ مشتاق احمد ڈار کو گرفتار کیا گیا،اور ایک لاکھ ڈالر پکڑے گئے،جو انہیں محمد یاسین ملک کو سونپنے تھے۔ملک نے کہا کہ اس کیلئے جب پریس کانفرنس بلائی گئی،تو پولیس نے انہیں گرفتار کر کے جموں پہنچایا،اور پوٹا کے تحت بند کر کے سخت ترین اذیتیں دی گئیں،جس کی وجہ سے انکی قوت سمائی بھی متاثر ہوئی۔انہوں نے کہا کہ کچھ ماہ کے بعد انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے پوٹا عدالت میںجج سے کہا ’’ حکومت کا دعویٰ ہے کی نیپال میں الطاف قادری نے مذکورہ ڈالر مشتاق احمد ڈار کے حوالے کئے ہیں اسلئے اگر حکمران یہ ثابت کردیں گے کہ الطاف قادری بھی نیپال آیاہے تو میں سبھی الزامات قبول کرلوں گا‘‘۔ یاسین ملک نے کہا کہ میں نے متعلقہ جج کو یہ بھی کہاتھا ’’ چونکہ بھارتی حکومت کہے گی کہ الطاف قادری کسی اور نام پر نیپال آیا تھا اسلئے نیپال کے ساتھ قریبی مراسم ہونے کے باعث اُن کے لئے قاردی کا پاسپورٹ اور ویزے پر لگے فوٹو کوحاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ملک نے کہا کہ عدالت نے اُس وقت مجھے ضمانت پر رہا کردینے کے احکامات جاری کئے تھے۔انہوں نے کہا’’ 2001ء سے آج تک یعنی 16برس سے جموں کی پوٹاعدالت میں یہ کیس چل رہا ہے اور باضابط ماہانہ بنیادوں پر اس کیس کو سناجارہا ہے‘‘ ۔ انہوں نے کہا کہ اب معمہ یہ ہے کہ ایک کیس جو 16برس سے عدالت میں چل رہا ہے اورنوٹس بھیجنے کا کیامقصد ہے۔