کاشف احمد جامعی
اللہ تبارک و تعالی کا بے حد احسان ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات یعنی انسان بنایا۔ بے پناہ صلاحیتوں سے ہمیں نوازا ،بالخصوص حواس خمسہ جیسی عظیم نعمت سے نوازا جس کے ذریعے سے ہم دیکھ سکتے ہیں، کسی بھی چیز کا ذائقہ معلوم کر سکتے ہیں، اسی طرح سُن اور سونگ سکتے ہیں اور کسی چیز کو چھو کر اسے محسوس کر سکتے ہیں ۔حواس خمسہ کے ذریعے ہمیں اپنے ارد گرد کی چیزیں نیز اطراف کے ماحول کا علم ہو جاتا ہے اور معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہم باخبر ہو جاتے ہیں، انہی قدرتی صلاحیتوں کے ذریعے ہم ٹھنڈے گرم ،سخت اور نرم جیسی چیزوں کا احساس کرتے ہیں۔ موسم کےتغیرات کا ہم پر اثر پڑتا ہے جس کے سبب ہم اپنی حفاظت و بقا ءکے لیے حالات کے مطابق انتظام و انصرام کرتے ہیں، مثلاً بارش کے موسم میں بارش سے بچنے کے لیے چھاتے اور رین کوٹ کا استعمال کرتے ہیں ،اسی طرح گرمیوں میں رومال اور سن گلاسز کے ذریعے خود کو شدید گرمی سے محفوظ رکھتے ہیں اور بالخصوص موسم سرما میں ہم اپنی حفاظت کے لیے بہت محتاط رہتے ہیں۔ ٹھنڈ سے بچنے کے لیے ہم سویٹر، جیکٹ، مفلر، ٹوپیاں اور کمبلوں کا پورا اہتمام کرتے ہیں نیز اسی موسم میں گرم پانی کے لیے گیزر وغیرہ کو بھی اپنے استعمال میں لیتے ہیں، اسی طرح باطنی گرمی کے لیے ہم گرم غذائیں اور میوہ جات کو صبح و شام کھاتے ہیں کیونکہ ہم ان تمام چیزوں کی ضرورت کو اپنے لیے محسوس کرتے ہیں لیکن افسوس کے اللہ کی دی ہوئی ان قدرتی صلاحیتوں کے ذریعے ہم ان چیزوں کو دوسروں کے لیے یعنی ضرورت مندوں کے لیے محسوس نہیں کرتے، ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
بالخصوص موسم سرما میں کہ شدید ٹھنڈ سے بچنے کے لیے ہم اپنے لیے تو خوب انتظامات کرتے ہیں لیکن ہماری توجہ پاس پڑوس میں رہنے والے غربا ءو مساکین پر نہیں ہوتی، اگر اللہ نے ہمیں صاحب استطاعت بنایا ہے تو ہمیں ان غربا و مساکین کی مدد کرنی چاہیے جو ہماری مدد کے منتظر رہتے ہیں اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے، مگر افسوس کہ انسان اتنا مطلب پرست ہو گیا ہے کہ سوائے اپنے مطلب کے اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ انسان اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات کی تکمیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا، جن چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، انہیں بھی اظہارِ دولت کے لیے خرید لیتا ہے۔ اگرچہ وہ زائد ہونے کے سبب برباد ہوجائیں اس کی پرواہ بالکل نہیں کرتا، اگر گھر میں جانور ہو تو ان کا خیال اپنی اولاد کی طرح رکھتا ہے، ہر موسم کے اعتبار سے ان جانوروں کی دیکھ بھال کرتا ہے، گرمی میں ان کے غسل اور دیگر ضروریات اور بارش میں پانی سے حفاظت، اسی طرح سردی میں ان کے لیے گرم کپڑوں کا انتظام کرتا ہے، بنی آدم کی پوری توجہ اپنے گھر حتیٰ کہ گھر کے جانوروں پر بھی ہوتی ہے لیکن گھر کے آس پاس رہنے والے فقرا ءاور سڑکوں پر زندگی گزارنے والے مساکین پر نہیں ہوتی، اگر اللہ نے ہمیں دولت دی ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اردگرد بھی نظر رکھیں، ضرورت مند لوگوں کو تلاش کرکے ان کی مدد کریں، دسمبر اور جنوری کی ٹھنڈ کا عالم تو یہ ہوتا ہے کہ موٹے موٹے گدے اور دبیز دبیز کمبلوں میں بھی لوگ ٹھِٹھرکر رہ جاتے ہیں حالانکہ وہ چہار دیواری میں قید ہوتے ہیں لیکن ذرا ان لوگوں کے بارے میں سوچئے جوکھلی فضا میں سڑکوں کے کنارے پتلی سی چادر میں خود کو لپیٹے ہوئے ٹھِٹھر رہے ہوتے ہیں۔
بعض اہل ثروت حضرات کا حال تو یہ ہے کہ سردی میں اپنے جانوروں تک کو سویٹر پہنا دیتے ہیں لیکن انہیں راستے پر بغیر کپڑوں کے گھومتے ہوئے بچے نظر نہیں آتے، ہر سال اخبار میں یہ خبر آتی ہے کہ اس سال شدید سردی کے سبب اتنے لوگ فوت ہو گئے، ان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو وسائل کی عدم دستیابی کے سبب موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات حضرت انسان کے لیے تسلیم کرنا تھوڑا مشکل ہے لیکن کہیں نہ کہیں ہم بھی ان کی موت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان ضرورت مند لوگوں کی مدد کریں، ہم میں جو صاحب ِ استطاعت ہیں، وہ ہر سال کم سے کم ایک ضرورت مند کی مدد ضرور کریں اور مدد کی بہترین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کم از کم ایک سویٹر یا جیکٹ یا پھر کمبل خاموشی سے انھیں دے دیں اور اگر تینوں مجموعی طور پر دے دیں تو کیا کہنے۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو چیزیں گھر میں قابل استعمال ہوں لیکن استعمال میں نہیں آتی ہوں ،وہ بھی ہم ان ضرورت مندوں کو فراہم کر سکتے ہیں تاکہ یہ لوگ ہلاک کر دینے والی سردی سے محفوظ رہیں۔
مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کرنے کے مختلف مواقع سال بھر آتے رہتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رب کی بارگاہ سے برکات و حسنات کے حق دار بنیں اور لوگوں کی محبتیں اور دعائیں حاصل کریں۔
اسلامک اسکالر، البرکات ،علی گڑھ
<kashif963744@@gmail.com
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)