سبدر شبیر
دنیا کے ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی رہنما ہوتا ہے، کوئی آئیڈیل، کوئی ایسا چہرہ جس کی روشنی میں وہ اپنے راستے تلاش کرتا ہے۔ کسی کے لئے وہ رہنما کوئی مفکر ہوتا ہے، کسی کے لئے کوئی سیاست دان، کسی کے لئےکوئی فلسفی یا سپہ سالار۔ مگر وہ لوگ جو ایمان کے چراغ سے منور ہیں، ان کے لئے سب سے بڑا اور کامل رہنما محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ آپؐ کی سیرت نہ صرف ایک مسلمان کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے رہنمائی کا روشن مینار ہے۔ یہ سیرت فقط ایک تاریخی داستان نہیں بلکہ ایسا زندہ نظامِ حیات ہے جو ہر دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور جو ہر دل کے درد کی دوا ہے، ہر سوال کا جواب، اور ہر پریشانی کا حل۔
زندگی کی دوڑ میں آج کا انسان شدید اضطراب اور بے سکونی کا شکار ہے۔ اس کی صبحیں بے برکت اور شامیں بے مقصد ہو چکی ہیں۔ اس کے رشتے کھوکھلے ہو چکے ہیں، دل مردہ ہو گئے ہیں، آنکھیں خشک اور روح بے چین ہو چکی ہے۔ انسان بظاہر ترقی کی بلندیوں پر پہنچ چکا ہے مگر باطن کی گہرائی میں اندھیروں میں بھٹک رہا ہے۔ ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹنا۔ یہی سیرت وہ چراغ ہے جو دلوں کے اندھیروں کو روشنی دے سکتی ہے، جو انسان کو اس کے ربّ سے جوڑ سکتی ہے اور جس کے ذریعے انسان دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
آپؐ کی سیرت کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ ایک مکمل اور جامع نمونہ حیات ہے۔ آپؐ کی زندگی کا ہر لمحہ، ہر ادا، ہر فیصلہ، ہر جذبہ، ہر عمل انسان کو سکھاتا ہے کہ وہ زندگی کو کس انداز میں گزارے۔ آپؐ کی ذات میں والد، شوہر، دوست، معلم، قائد، سپہ سالار، قاضی اور مبلغ سب کچھ یکجا ہے۔ آپؐ نے محبت کو فروغ دیا، نفرت کو جڑ سے اکھاڑا، ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوئے، مظلوموں کا سہارا بنے، دشمنوں کو معاف کیا، غلاموں کو آزاد کرایا، عورت کو عزت دی، بچوں کو شفقت عطا کی اور معاشرے کو عدل و رحم کے اصولوں پر استوار کر کے ایک مثالی تمدن کی بنیاد رکھی۔ اگر آج کا انسان سچائی، عدل، رحمت، مساوات، امن اور انصاف چاہتا ہے تو اُسے سیرتِ رسولؐ کو اپنا راہنما بنانا ہوگا۔
آپؐ کی ایمانداری کا یہ عالم تھا کہ دشمن بھی آپ کو ’’الصادق، الامین‘‘ کہتے تھے۔ آپؐ کی شفقت کا یہ حال تھا کہ مدینے کے بچے بھی آپؐ کے چہرے سے خوشی تلاش کرتے تھے۔ آپؐ کی رحمت کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہیں تھا بلکہ جانور، درخت، چرند پرند، سب آپؐ کی شفقت سے فیضیاب ہوتے تھے۔ آپؐ نے طائف میں پتھر کھا کر بھی بددعا نہیں دی، بلکہ اُن کے لیے ہدایت کی دعا کی۔ آپؐ نے مکہ میں ظلم برداشت کیا، ہجرت کی، مگر فتح مکہ پر انتقام نہیں لیا بلکہ سب کو معاف کر دیا۔ یہ ہیں وہ روشن نقوش جو انسان کو اپنے کردار کی تعمیر میں مدد دیتے ہیں۔ یہی وہ سیرت ہے جسے آج ہمیں اپنے دل و دماغ میں بسانا ہے۔
آج ہم اپنی زندگیوں میں جس انحطاط، بدامنی اور اخلاقی زوال کا شکار ہیں، وہ اسی لئے ہے کہ ہم نے سیرتِ رسولؐ کو صرف کتابوں میں قید کر دیا ہے۔ ہم نے اسے صرف میلاد کی تقریبات تک محدود کر دیا ہے، ہم نے سیرت کو صرف تقریر کا عنوان بنا دیا ہے، عمل کا حصہ نہیں۔ حالانکہ یہ سیرت عمل کی دعوت دیتی ہے، زندگی کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے، اور معاشروں کو سنوارنے کی قوت رکھتی ہے۔ اگر ہم سیرت کو اپنے گھروں میں، بازاروں میں، تعلیمی اداروں میں، عدالتوں میں اور دلوں میں جگہ دیں تو دنیا جنت کا منظر پیش کرنے لگے۔
آپؐ کی عبادت کا انداز بھی کمال تھا۔ آپؐ ساری ساری رات قیام کرتے، اللہ سے فریاد کرتے، اپنی امت کے لیے آنسو بہاتے۔ مگر اسی کے ساتھ آپؐ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے، اُن کے دُکھ سکھ میں شریک ہوتے، اُن کی بات تحمل سے سنتے، غصہ ضبط کرتے اور چھوٹوں سے محبت، بڑوں سے ادب اور دشمنوں سے بھی حسنِ سلوک کرتے۔ یہی وہ توازن ہے جو سیرتِ رسولؐ کو دیگر تمام شخصیات سے ممتاز کرتا ہے۔ نہ آپؐ نے دنیا کو ترک کیا نہ دنیا میں ڈوبے۔ بلکہ آپؐ نے دنیا کو آخرت کی کھیتی بنایا اور لوگوں کو یہی راستہ دکھایا۔نوجوان نسل جو آج سب سے زیادہ فکری بحران کا شکار ہے، اُن کے لیے سیرتِ رسولؐ سب سے مؤثر نسخۂ شفا ہے۔ وہ نوجوان جو کردار کی پستی میں گرے ہوئے ہیں، جو خود اعتمادی سے محروم ہو چکے ہیں، جو غلط آئیڈیلز کے پیچھے بھٹک رہے ہیں، اگر وہ نبی کریمؐ کی جوانی، اُن کی سچائی، اُن کی امانت، اُن کی اخلاقی جرأت، اُن کی عفت و پاکدامنی اور اُن کے علم و حلم کو اپنا آئیڈیل بنائیں تو یہ نسل دنیا کو بدل سکتی ہے۔
سیرتِ رسولؐ ایک ایسا خزانہ ہے جس میں سے جتنا لیا جائے، کمی نہیں آتی۔ بلکہ انسان کا باطن نکھرتا چلا جاتا ہے۔ آپؐ کا اخلاقِ حسنہ، حلم، بردباری، حکمت، شجاعت، علم، قیادت سب کچھ ایسا ہے کہ جس کا کوئی بدل نہیں۔ یہ وہ سیرت ہے جس کی ایک جھلک بھی انسان کو صراطِ مستقیم پر ڈال سکتی ہے۔ جب دل پر گناہوں کی گرد جم جاتی ہے، جب روح تھکن سے نڈھال ہو جاتی ہے، جب عقل اُلجھ جاتی ہے تو یہی سیرت وہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن کر آتی ہے جو سب کچھ تازہ کر دیتی ہے۔لہٰذا سیرتِ رسولؐ کو محض تحسین کے الفاظ تک محدود نہ کریں، اُسے زندگی کا حصہ بنائیں۔ اُسے صرف میلاد اور محافل تک نہ رکھیں بلکہ دلوں میں اُتاریں، عمل میں ڈھالیں اور اپنی نسلوں تک منتقل کریں۔ یہ سیرت ہمارے دلوں کا سرمایہ ہے، ہمارے کردار کا معیار ہے اور ہماری زندگیوں کا چراغ ہے۔ جو قوم سیرتِ رسولؐ کو سینے سے لگاتی ہے، دنیا اُس کے قدم چومتی ہےاور جو قوم سیرت کو چھوڑ دیتی ہے، وہ خواہ کتنی بھی ترقی کر لے، آخرکار زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ پس اگر ہم دنیا میں عزت، امن، سکون، ترقی اور آخرت میں نجات چاہتے ہیں تو ہمیں سیرتِ رسولؐ کو اپنا مکمل سرمایۂ حیات بنانا ہوگا۔ یہی نجات کی کنجی ہے، یہی کامیابی کا راستہ ہے اور یہی اللہ کے محبوب بندوں کی پہچان ہے۔
[email protected]