صبح کی سردی اور ٹرانسپورٹ کی کمی طلباء وعملہ کیلئے پریشانی کا باعث،نظر ثانی کی مانگ
محمد تسکین
بانہال// ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن جموں کی جانب سے سرمائی زون کے سکولوں میں اوقات کار میں حالیہ تبدیلی نے چناب ویلی کے اساتذہ، طلباء اور والدین میں غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔نئے شیڈول کے مطابق صوبہ جموں کے سرمائی زونز بشمول چناب ویلی اور پیر پنچال کے علاقوں میں سکول اب صبح 9:30بجے سے شام 3:30بجے تک چلیں گے۔ضلع رام بن کے کئی والدین نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ جاری سرد موسم، دن کے کم ہوتے اوقات اور صبح سویرے ٹرانسپورٹ کی کمی کے باعث یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وادی چناب بالائی علاقوں میں تازہ برفباری کے باعث صبح کے اوقات نہایت سرد ہو چکے ہیں جس سے بچوں خاص طور پر دور دراز دیہات کے لیےسکول پہنچنا مشکل بن گیا ہے۔بلال احمد نے نامی ایک والد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ حکومت کو سرمائی زون کے زمینی حقائق کو دیکھنا چاہیے یہاں بچوں کو بہت جلدی گھر سے نکلنا پڑتا ہے اور واپسی شام کے وقت ہوتی ہے جس سے جنگلی جانوروں کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔کئی اساتذہ انجمنوں نے بھی ڈائریکٹر سکول ایجوکیشن جموں کے اس فیصلے پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کئی طلباء اور اساتذہ کو دور دراز علاقوں میں روزانہ سفر کرنا پڑتا ہے اور عام طور پر صبح کے اوقات میں ٹرانسپورٹ کی کمی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بانہال، رامسو، کھڑی، رام بن اور حتیٰ کہ کشمیر سے بھی اساتذہ ضلع رام بن میں آتے ہیں اور اس فیصلے سے صبح سویرے ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث ان کا وقت پر پہنچنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ انہوں نے ڈائریکٹوریٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا جموں کے عالیشان اور ایئرکنڈیشن دفاتر میں بیٹھے افسران ہمارے سرد اور پہاڑی علاقوں کی حقیقتوں سے ناواقف ہیں اور یہی وجہ سے کہ ان کے فیصلے زمینی حقائق کے برعکس ہوتے ہیں۔ اساتذہ اور والدین نے مطالبہ کیا ہے کہ جموں کے سرمائی زون کیلئے علیحدہ ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے تاکہ زمینی حالات کے مطابق وادی چناب اور پیر پنجال خطے کی پالیسیوں کو مرتب کیا جاسکے ۔والدین نے مطالبہ کیا ہے کہ سکول کا وقت صبح 10بجے سے شام 3:30بجے تک رکھا جائے اور لنچ بریک کو ایک گھنٹے سے کم کر کے 30منٹ کیا جائے تاکہ یہ اوقات تمام لوگوں کیلئے راحت کا باعث بن سکیں ۔انہوں نے وزیر تعلیم سکینہ ایتو اور ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن جموں سے اپیل کی کہ وہ اس فیصلے پر نظرِ ثانی کریں تاکہ اساتذہ اور طلباء کی مشکلات میں کمی لائی جا سکے۔