اوسرفراز صاحب۔۔۔اقصٰی نے پیار سے اپنے شوہر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے ایک بار پھر پکارا۔۔۔!
ہوں۔۔۔!
سرفراز نے آنکھیں کھولے بنا ہی جواب دیا۔۔۔!
سنیں! فجر پر اْٹھاؤں گی آپ کو۔۔۔!
کتنی مرتبہ کہا ہے میں نیند سے نہیں اْٹھ پاتا۔۔۔دن بھر کی بھاگ دوڑ۔۔۔تھک جاتا ہوں میں۔۔۔آخر انسان ہوں میں۔۔۔رات سکون کے لیے ہوتی ہے اور تم۔۔۔!
سرفراز کی آنکھوں کا غصہ اور ماتھے پر اْبھری شکنیں بتا رہی تھیں کہ ابھی حلق کے گرداب میں پھنسے بہت سے الفاظ نکلنے کے لئے مچل رہے ہیں۔۔۔!
سب کچھ سمجھتے ہوے بھی اقصٰی نے بات کو جاری رکھا۔۔۔!
پر نماز تو فرض ہے نا۔۔۔!
آپکو پتہ ہے سرفراز ہم اور ہمارا خالق روز ایک چیز نظر انداز کر دیتے ہیں۔۔۔ہم اْسکی عطاؤں کو اور وہ ہماری خطاؤں کو۔۔۔ہم ناشکرے ہیں۔۔۔پر ہمارا مالک کریم ہے۔۔۔!
باطنی کائنات دعاؤں کی کائنات ہوتی ہے۔۔ سرفراز۔۔۔جب نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اْٹھتے ہیں۔۔۔اْسوقت جس سکون اور طمانیت کا احساس ہوتا ہے اْسے الفاظ کا لبادہ پہنانا مشکل ہے۔۔۔!
چھت کو گھورتی آنکھیں یہ ظاہر کر رہی تھیں۔۔۔ اقصٰی اسوقت خیالات کی حسین وادیوں میں کہیں دور پرواز کررہی ہے۔۔۔اور لبوں سے سحر انگیز الفاظ خود بخود نکل رہے ہیں۔۔۔!
بس اقصٰی بس۔۔۔ سرفراز ایک جھٹکے سے اْٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔بند کرو یہ لیکچر اپنا۔۔۔!
سرفراز کی گرجدار آواز نے اقصٰی کی خوبصورت محویت کو توڑ دیا۔۔ تم نماز پڑھتی ہو۔۔۔اچھی بات ہے۔۔۔مگر بار بار مجھے یہ لیکچر مت دیا کرو۔ سب کو اپنا اپنا حساب دینا ہے۔۔۔اب پلیز سونے دو اور یہ لائٹ بند کر دو۔۔۔!
اور سرفراز پھر بستر پر لیٹ گیا۔۔۔!
اچھا سنیں…!
قدرے سکوت کے بعد ایک بار پھر پکارنے پر سرفراز کا ضبط جواب دے گیا۔۔۔!
اقصٰی ایک بار کہہ جو دیا۔۔۔ کیوں بحث کر رہی ہو بار بار۔۔۔!
وہ کچھ دیر کے توقف کے بعد بولی۔۔۔!
نماز کا نہیں کہہ رہی، دوسری بات ہے۔۔۔!
کیا۔۔۔؟
سرفراز کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اقصٰی اب کیا پوچھنا چاہ رہی ہے۔
مجھے کل پیسوں کی ضرورت ہے۔۔۔ آپ نے جو دئیے تھے سب ختم ہو گئے۔۔۔!
سب ختم ہوگئے۔۔۔؟
ہیں۔۔۔!
سرفراز کے لہجے میں بلا کی حیرت عود کر آئی۔
خدا کی بندی۔۔۔ کہاں خرچ کر دئے پیسے۔۔۔؟
ابھی آدھا مہینہ باقی ہے تنخواہ ملنے کو۔۔۔اور تم نے مہینے بھر کا بجٹ ابھی سے ختم کر دیا۔۔۔!
میں آپ کو حساب نہیں دینا چاہتی۔۔۔یکلخت اقصٰی کا لہجہ تلخ ہو گیا اور آواز بلند۔۔۔!
بس ہو گئے خرچ۔۔۔ کل بندوبست کر دیجئے گا پیسوں کا۔۔۔!
اقصٰی کے بدلتے لہجہ نے سرفراز کے تن بدن میں آگ لگا دی اور وہ جھٹکے سے ایک بار پھر اْٹھ بیٹھا۔۔۔!
کیوں حساب نہیں دینا چاہتیں۔۔پیسے کیا درختوں پر اْگتے ہیں۔۔۔دن رات خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔۔۔!
اقصٰی کی خاموش تکتی نگاہوں نے سرفراز کے غصہ کو ہوا دی اور آواز کا ارتعاش گہرا ہوتا چلا گیا۔۔ !
ایسا تو آج تک تم نے کبھی نہیں کیا ۔۔۔پھر اس بار کیوں۔۔۔؟
کچھ بھی ہو مجھے ساراحساب چاہئیے۔۔۔ ابھی کے ابھی۔۔۔!
سرفراز کا چہرہ غصہ سے تمتما رہا تھا۔
اچانک اقصٰی کے چہرے پہ پر کشش مسکراہٹ نمودار ہوئی اور سرفراز کا غصہ حیرت میں بدل گیا۔
تم مسکرا رہی ہو اقصٰی۔۔۔یہ کیا مذاق ہے ۔۔۔!
نہیں سرفراز میں آپ سے مذاق نہیں کر رہی۔۔اقصٰی ایک بار پھر سنجیدگی سے گویا ہوئی۔۔۔!
اللّہ پاک نے آپ کو اس گھر کا سربراہ بنا یا۔۔۔ جب آپ کی سربراہی میں ،میں حساب نہ رکھ پائی تو آپ کو غصہ آ گیا۔۔۔اور آپ سب رشتوں کو بھول گئے۔۔۔اب سوچیں کل کو آپ سے بھی وہ رب محشر میں حساب مانگے گا تو کیا آپ دے پائیں گے۔۔۔؟
اقصٰی کے الفاظ سرفراز کے شعور کے ساتھ ٹکرائے۔
اور ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔۔۔!
چند لمحوں بعد اقصٰی پھر گویا ہوئی ۔۔۔آپ کا میرا حساب تو چند ہزار روپیوں کا ہے۔۔ پر بندے اور رب کا تو پوری زندگی کی ایک ایک عطا کا ہے۔۔ ایک ایک نعمت کاہے۔۔۔اور تم اْس رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔۔ اْن عطاؤں کا نہ کوئی بدل ہے اور نہ ہی نعم البدل۔۔ !
سرفراز جیسے سُن ہوا جارہا تھا۔۔۔!
وہ پھر بولی۔۔۔!
میں نے تو آپ کو مزے سے کہہ دیا میرے پاس حساب نہیں اور آپ کو غصہ آگیا۔۔۔اور آپ سب کچھ بھول گئے۔۔۔!
کیا آپ روزِ محشر اس رب کے سامنے یہ کہہ سکیں گے۔۔۔جواب دے پایئں گے۔۔۔کیا حساب دے پائیں گے۔۔۔اور شعور کی گہرایوں سے کوئی پکار اْٹھا۔۔۔!
روزِ محشر کہ جانگداز بود
اولین پرسشِ نماز بود
سرفراز کا پورا وجود کانپ گیا۔۔۔!
چہرے کے بدلتے ذاویے بتا رہے تھے کہ اقصٰی کی ہر بات دل پر اثر کر رہی تھی۔۔ !
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اقصٰی ایک بار پھر گویا ہوئی۔۔۔!
پر اِس بار اقصٰی کی آواز دھیمی تھی۔۔۔آپ فکر نہ کریں، ہر مہینے کی طرح اس بار بھی پورا ہو جائے گا۔ کہیں خرچ نہیں ہوئے پیسے، یہ تو بس اس لئے کہا کہ۔۔۔!
سو جائیں میں لائٹ بند کر دیتی ہوں۔۔۔ اور اقصٰی نے لائٹ بند کر دی۔
اقصٰی۔۔۔ !
سرفراز نے دھیرے سے آواز دی۔۔۔!
جی۔۔۔!
تم اٹھو تو فجر کے وقت مجھے جگا دینا۔۔۔!
جی۔۔۔!
اور اقصٰی مسکرا دی۔۔۔ایک ایسی مسکراہٹ جسے صرف اقصٰی نے محسوس کیا،
کیونکہ
فجر میں ایک نئی پوہ پھوٹنے والی تھی۔۔۔!
��
گنگل اْوڑی،رابطہ نمبر(9797852221)