سرسید احمد خان کا یہ بھی ایک عظیم کارنامہ ہے کہ انھوں نے قرآن کو قرآن کی مدد سے سمجھنے کے عمل میں فنی تعبیر یا (Textual Interpretation) کے جدید سائنٹفک اصول کی بنیاد رکھ کر اس معاملہ میں اہل التاویل کی تقلید کے برخلاف ابن حزم کے اصول کو اپنا رہنما بنانے کی کوشش کی ۔ انھوں نے پٹنہ میں ایک لیکچر کے دوران دین اور دنیا کے گہرے تعلق کو واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ دین چھوڑنے سے دنیا نہیں جاتی مگر دنیا چھوڑنے سے دین بھی جاتا ہے ۔ اس طرح سے انھوں نے دین اور شریعت میں فرق کرتے ہوئے دین کو ابدی جان کر شریعت میں حسب ضرورت نئی تشریحات اور ترجیحات کی اہمیت کو واضح کیا ہے ۔
علامہ اقبال بھی سرسید کی طرح قرآنی تعلیمات کو بنیادی طور پر دنیا کے لئے متحرک نظامِ فکر کی جانب مبذول کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسی اصول کے تحت وہ اجتہاد اسلامی کو قانون کا ماخذ قرار دیتے ہیں ۔ یہاں وہ اسلامی فقہ کو ناقابلِ تغیر قانو ن نہیں سمجھتے ہیں ۔ اُن کا ستدلال یہ ہے کہ اجتہاد کے ذریعے معاشرے کی عصری ضروریات کے مطابق اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ عہد زوال میں اسلامی شریعت کا منجمد ہو جاناایک عارضی حالت ہے ، جسے ایک تو عصری تقاضوں کے مطابق قرآن کے حوالے سے اور دوسرے حدیث سے احتیاط سے رجوع کر کے اور تیسرے اجماع (Consenses)کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے ۔ ۱۰؎
جنوبی ایشیا کے مغربی تعلیم یافتہ مسلم طبقے نے اقبال کے اس نظریہ کو توجہ اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور یہ نظریہ رائے عامہ کے اداروں اور مقنّنہ کی مساوی حیثیت کا حامل سمجھا گیا۔ دیگر مسلم ممالک خاص طور پر ترکی اور مصر اور پھر ایران میں اس نظرئیے کے مماثل نظریات دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس طرح اقبال کی فکر اپنے اثرات کے لحاظ سے عالم اسلام کے دیگر مفکرین کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتی نظر آتی ہے ۔
۱۸۵۷ء کے بعد جب برصغیر ہند میں مغلیہ سلطنت بالکل ختم ہو گئی اور اس سے پہلے ہی میسور اور اودھ جیسی ریاستیں بھی اپنا وجود کھو بیٹھی تھیں تو برصغیر ہند میں ملتِ مسلمہ کے سامنے لاتعداد مسائل پیدا ہوئے ۔ ان میں کچھ اہم ترین مسائل یوں تھے:
کیا مسلمانوں کے لئے انگریزی زبان و ادب سیکھنا جائز ہے ؟ کیا مسلمان قرآن و حدیث کے مطابق انگریزوں کو اپنا حاکم تسلیم کر سکتے ہیں ؟ مسلمان ملت کے لئے انگریز مملکت کے ساتھ تعاون کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ انگریزی حکومت کی ملازمت حرام ہے یا حلال۔ اُس وقت بعض علمائے اسلام نے انگریزی زبان و ادب اور سائنس وغیرہ سیکھنا قطعاً حرام قرار دیا اور مغربی علوم و فنون کی تحصیل مسلمانوں کے ایمان کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا ۔ اس لئے کہ انگریز مملکت کو اسلام دشمن اور مسلم کُش مانا جاتا تھا اس لئے اس کے ساتھ کسی بھی معاملے میں تعاون کی کوئی صورت جائزنہیں سمجھی جاتی تھی۔ انگریزوں کے ساتھ ہاتھ ملانا، اُن کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ ۔ شرعاً ناجائز قرار دیا گیا ۔
ان حالات میں بعض علمائے ہند نے برصغیر ہند کو دارالحرب قرار دیا اور انگریز کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا فتویٰ صادر کر دیا۔ اس ہیجانی کیفیت اور پریشان کن صورت حال میں سرسیّد احمد خان پورے اعتماد و یقین کے ساتھ اٹھے اور انھوں نے نہایت معاملہ فہمی، دُور اندیشی ، حقیقت پسندی اور اجتہادی اسپرٹ کا ثبوت دیتے ہوئے متعدد فیصلے کر کے قوم و ملت کو اس ہیجان کن تقلید پرستانہ روش سے باہر نکالنے کے لئے کچھ عملی قدم اٹھائے۔ انھوں نے ملت کو سمجھایا کہ بدلے ہوئے حالات میں انگریز کے ساتھ جنگ جاری رکھنا دانشمندی کی علامت نہیں ہے کیونکہ انگریز مضبوط اور آہنی قوتوں سے برصغیر پر قابض ہو چکا ہے ۔ اس امر واقعہ کو تسلیم کر کے ہمیں آگے بڑھنے کے لئے اپنا سامانِ حرب و ضرب خود پیدا کرنا ہے ۔ سردست اُس وقت انھوں نے مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ انگریز سے تعاون کرو اور اس کا تعاون حاصل کرنے کے ذرائع ڈھونڈو۔ اُنھوں نے ملّت کو سمجھایا کہ انگریزی سیکھنے کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ۔ ان اجتہادی افکارات کے حصول کے لئے انھوں نے علی گڈھ کالج قائم کیاجس میں انگریزی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے تعلیمی نصاب میں اسلامیات اور اسلامی تاریخ و فلسفہ کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون پڑھانے کا مکمل انتظام عمل میں لایا گیا۔
سرسیّد نے علوم و فنون سے بیگانہ رہنے کو پرلے درجے کی حماقت اور نامرادی سے تعبیر کیا۔ سرسید کے ان عملی اقدامات سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ آپ کے یہ فیصلے اور اقدامات خواہ سیاسی تھے یا تعلیمی یا سماجی یاثقافتی سب کے سب اعلیٰ درجے کے اجتہادات تھے اور آپ کے انہی فیصلوں اور اقدامات نے یقیناً اُس وقت مسلمانانِ ہند کو انتشار ، صغف، بددلی اور بے یقینی کے دلدل سے نکال کر ترقی و اعتماد کی ایک کھُلی فضاء میں لاکھڑا کیا۔
علامہ اقبالؒ نے بھی اپنے دور میں اسی روش کو اپناتے ہوئے اپنے افکار کے ذریعیٔ نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں بلکہ عالم اسلام کو علمی طور پر اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں تھیں تو انھوں نے مشاہدانی علوم کی بنیاد رکھی جو قیاسی علوم سے مختلف ہے ۔ اسی مشاہداتی علم کے لئے مغرب میں جدید سائنس کی بنا ڈالی گی اور اسی سائنسی علم نے مغربی دنیا کی چار چاند لگائے۔ آپ نے مسلمانوں کو جدید سائنس کا موجِد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ مغرب سے اب سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم سیکھیں تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ آپ کسی دوسرے تمدن کی چیز اپنا رہے ہیں بلکہ کل شیٔ یرجع الیٰ اصلہ کے مصداق ہم وہی کچھ اُن سے لے رہے ہیں جو کہ عالم بیداری مین انھوں نے ہم سے اخذ کیاتھا۔؎
علامہ اقبال اس اعتبار سے زبردست مضطرب دکھائی دے رہے تھے کہ کسی نہ کسی طریقے سے علوم اسلامیہ کا علوم جدیدہ سے ٹوٹا ہوا رابطہ از سر نو جوڑا جائے۔ فکر اسلامی کی تشکیل جدید کے علاوہ اُن کی پیامی شاعری میں ہمیں جابجا یہی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔
اس سلسلے میں صرف چند اشعار یہاں ثبوت کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں ؎
خرد افزدو مرا درس حکیمان فرنگ
سینہ افروخت مرا صحبتِ صاحب نظراں
ۭ ( پیام مشرق)
کھلے ہیں سب کے لئے غربیوں کے مسے خانے
علوم تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں
مشرق سے ہو بیزار ، نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
علم و تحقیق میں غوطہ زن رہنے والے غیر مسلم نا بغات کے متعلق تو آپ یہاں تک کہتے ہیں ؎
کافر بیدار دل پیش صنم
بہِ ز دیندارِ کہ خفت اندر حرم
یا
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافرو زندیق
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرسید احمد خان کی تفسیر القُرآن، خطبات الاحمدیہ اور کلام اقبال کے علاوہ اُن کے انگریزی خطبات اسلامی ہند کی فکری ترقی کے روشن مینار ہیں جنھیں کوئی بھی صاحب عقل و فہم نظر انداز نہیں کر سکتا ہے ۔
بعض دانشوروں کے مطابق علامہ اقبال اپنے ابتدائی دور میں سرسید کے بارے میں رطب اللّسان تھے لیکن بعد میں انھوں نے اُن کے افکار کے ساتھ شدید اختلاف ظاہرکیا ہے ۔‘‘
راقم کے خیال میں اس بیان میں کوئی صداقت نہیں ہے بلکہ آپ ابتداء سے لے کر آخر تک سرسید کے مداّح تھے ۔
انھوں نے سید نذیر نیازی کو مخاطب کر کے ایک بار فرمایا کہ ’’سرسید کی ذات بڑی بلند تھی، بڑی ہمہ گیر ، افسوس ہے مسلمانوں کو پھر ویسا کوئی رہنما نہیں ملا‘‘نذیر نیازی مزید لکھتے ہیں کہ اقبال نے پرویز صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا:۔
’’میرا تو جی چاہتا تھا سید احمد بریلوی اور سید احمد دہلوی ( سرسید احمد خان) کی روحوں کو بھی اس میں ( جاوید نامہ) جمع کردوں ، لیکن خیال نہ رہا‘ ‘
علامہ اقبال نے آخری دور کے ایک مکتوب میں سرسید احمد خان کے متعلق یہاں تک کہا ہے کہ :
"He was the first Indian Muslim, who felt the need of a fresh orientation of Islam and worked for it. We may differ from his religious views, but there can be no denying the fact that his sensitive soul was the first to react to the modern age."
یعنی ’’وہ پہلے ہندوستانی مسلمان تھے جنھوں نے اسلام کی جدید تئیں سمت کی ضرورت کو محسوس کیا بلکہ اس موضوع پر کام بھی کیا ۔ ہم سرسید کے مذہبی خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ سرسیّد کی بے چین روح نے ہی سب سے پہلے عہد جدید کے چلینج کو محسوس کیا ۔ پھر اسلام کی نئی تعبیرکی ضرورت محسوس کر کے اس کے لئے سعی بھی کی ۔‘‘ ۱۵؎
الطاف حسین حالی ؔ کی حیات جاوید کے بعد تین مقتدر دانشوروں نے سرسید کی دینی تدوین کو اسلامی فکر کے وسیع تناظر میں دیکھا ہے ، جن میں پروفیسر عمر الدین ، مولانا سعید اکبر آبادی اور مولانا قاسم ناناتوی شامل ہیں ۔مولانا سعید اکبر آبادی اور مولانا قاسم ناناتوی دیوبند سے تعلق رکھتے تھے ۔ سرسید کی دینی خدمات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے مذہبی فکر کے دائرے میں سرسید سے سخت اختلاف بھی کیا ہے ۔ مگر پروفیسر عمر الدین نے حالی کے بعد سرسید کے دینی نظرئیے کو نئی فکر کے سانچے میں ڈھال کر دیکھا ہے ۔ انھوں نے سرسید کی اس دینی فکر پر ایک تحقیقی مقالے میں ایک بلیغ تبصرہ کیا ہے اورمیں اس مقالے کو اُسی تبصرے کے حوالے سے اختتام تک پہنچتا ہوں۔ اس میں وہ فرماتے ہیں :۔
’’اس میں شک نہیں کہ سرسیّد کے مذہبی فکر کا یہ مرکزی عقیدہ کہ ’’ الاسلام ھو الفطرۃ والفطرۃ ھو الاسلام‘‘ آج اصولی اعتبار سے تمام مفکرین و موئیدین اسلام کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کر چکا ہے ۔ اقبال، مودودی بلکہ قدیم طرز پر تعلیم پائے ہوئے حضرات علماء بھی اسلام کو دین فطرت تسلیم کرنے میں سرسیّد کے ہم خیال و ہمنّوا ہیں ۔ یہی اُن کے کارنامے کا سب سے بڑا ثبوت ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سرسیّد نے اپنے زمانے کی شبہات اور ضروریات کے لحاظ سے اُس زمانے کے مسلمات اور معلومات کی روشنی میں اپنے اجتہادات پیش کیے ٔہیں ۔
ان میں سے بعض چیزیں صرف وقتی اہمیت کی حامل تھیں لیکن بعض مستقل قدر و قیمت بھی رکھتی ہیں ۔ ہمیں اُن کے فلسفے اور تصانیف میں سے اُن عناصر کو جو زندہ رہنے والے ہیں اور مستقل قدر و قیمت رکھتے ہیں ، لینا چاہئے اور اُن کی بنیاد پر نئی ضروریات، نئے مسائل اور نئی معلومات کی روشنی میں اسلامی فکر کو آگے بڑھانا چاہئیے ۔ اس میں شک نہیں کہ کچھ لوگ اپنی اپنی جگہ پر اپنی بساط کے مطابق یہ کام کر رہے ہیں لیکن بڑے پیمانے پر وسعت اور جامعیت کے ساتھ سیّد کی طرح اس کام کو سنبھالنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی فرد یا جماعت اس کار عظیم کو اہلیت کے ساتھ انجام دے سکے تو یہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا اسلامی کارنامہ ہو گا ۔ ‘‘ ۱۶؎
حواشی و حوالے
۱ ۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ’’زندہ رود‘ سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور ۲۰۰۴ء ص ۸۳
۲۔ پروفیسر عبدالحق شبلی اور معاصرین، نومبر ۲۰۱۴ء ، ص ۸۱
۳۔ روایات اقبال ( مرتبہ) عبداللہ چغتائی ، اقبال اکادمی پاکستان ۱۹۸۹ء ، ص ۱۲۲۔
۴۔ الطاف حسین حالی ’ ’حیات جاوید‘‘ اکادمی پنجاب ٹرسٹ لاہور ۱۹۵۷ء ، ص ۱۱۱۔
۵۔ خطوط سرسید ( مرتب) سید راس مسعود نظامی پریس ، ۱۹۳۱ء ص ۵۵
۶ ۔سر محمد اقبال ’’دی رکانسٹرکشن آف ریلجس تھاٹ اِن اسلام ( انگریزی) ، کتاب باؤن نئی دہلی ۱۹۷۴ء ، ص ۹۷
۷۔سر محمد اقبال ’’دی رکانسٹرکشن آف ریلجس تھاٹ اِن اسلام ( انگریزی) ، کتاب باؤن نئی دہلی ۱۹۷۴ء ، ص ۹۷
۸۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی ’’تلاش اقبال‘‘ کتابی دنیا دہلی ۲۰۰۴ء ص ۸۹-۹۰
۹۔ حیات جاوید، حصہ دوم ، ص ۱۲ – ۱۴۔
۱۰۔ دی رکانسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ اِن اسلام ( انگریزی)، ص ۱۳۵-۱۳۶۔
۱۱؎۔ اصل میں جس دور کو تاریخ اسلام میں جمود و انحطاط کا دور کہا جاتا ہے اس کا آغاز تیرہویں صدی میں منگولوں کے حملوں سے شروع ہوتا ہے اور کوئی پانچ سو برس تک قائم رہتا ہے ۔ یہ مسلمانوں کے لئے معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور عملی زوال کا دور تھا۔ اسی دور کی طرف اقبال خطبات میں اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔
"During last five hundred years religious thought in Islam has been practically stationary. There was a time, when European thought received inspiration from the world os Islam. During all the centuries of our intellectual stuper Europe has been seriously thinking on the great problems in which the Philosophers & Scientists of Islam were so keenly interested."
مزید دیکھئے اقبال کی انگریزی کتاب’’ دی رکانسٹرکشن ۔ کتاب باؤن دہلی سن ۱۹۷۴ء ، ص ۷
۱۲۔ اقبال اور سرسید از ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ( مشمولہ) اقبال اور مشاہیر ترتیب و تہذیب طاھر تونسوی، مکتبہ نعیمیہ مٹیا محل دہلی ۱۹۸۱ء ، ص ۱۳۹-۱۴۰۔
۱۳۔ سید نذیر نیازی ’’اقبال کے حضور میں ‘‘ اقبال اکادمی پاکستان (۱۹۸۱ء ، ص ۲۴۔
۱۴۔ سید نذیر نیازی ’’اقبال کے حضور میں ‘‘ اقبال اکادمی پاکستان (۱۹۸۱ء ، ص ۶۴۔
۱۵۔ علامہ اقبال ’’اسلام اور احمد تھریک‘‘ انجمن خدّام الدین لاہور ۱۹۶۳ء ، ص ۱۴۔
یہ دراصل اقبال کے انگریزی پمفلٹ Islam and Ahmadisim سے ماخوذ ہے جو اقبال نے پنڈت نہرو کے جواب کے ساتھ لکھا تھا۔ ( م۔ ا۔ گنائی )
…………………
رابطہ :اسسٹنٹ پروفیسرریسرچ اینڈ کارڈی نیٹر اقبال انسٹی آف کلچر اینڈ فلاسفی،کشمیر یونیورسٹی
(ختم شد)