مرحوم سرسید احمد خان ؔکے فکر کی اساس یہ ہے کہ وہ اسلام کو دین ِ فطرت اورمطابق عقل مانتے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ قرآن خداکاقول ہے اورفطرت خدا کافعل۔خدا کے قول و فعل میںتضاد ہوہی نہیںسکتا۔ قبل ازیں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (۱۷۰۳ء تا ۱۷۶۲ء) نے اپنی مشہور تصنیف ’حجتہ اللہ البالغہ‘میںاسلام کودین فطرت قراردیا تھا ۔ شاہ ولی اللہ سے بھی بہت پہلے جب یونانی فلسفے نے اسلام پر یورش کی تھی توعلماء کے ایک گروہ نے ،جوکہ بعدازاں معتزلہ کے نام سے مشہور ہوا،اسلام کوعقل کی کسوٹی پرکھرا ثابت کرکے اس یورش کامقابلہ کیا۔ارنسٹ رینان (Ernest Renan{1823-1892}) نے جب یہ دعویٰ کیاکہ اسلام کی تعلیمات جدیدسائنس وعلوم کے مخالف ہیں تو سیّد جمال الدین افغانی (1838-1897) نے اس سے نہایت فاضلانہ مباحثہ کیا اوراپنے تبحر علمی کاسکہ یورپی مستشرقین پربٹھادیا ۔اور رینانؔ نے ان مضامین کو بہت سراہا۔یہی کام انیسویں صدی میں سرسیدؔ نے ہندوستان میںانجام دیا ۔ انہوںنے بھی مستشرقین کے اعتراضات اورحملوں کواپنے علم اورمحنت سے رد کیا، بقول حالیؔ :’’اس نے جب دیکھاکہ انگریزی تعلیم سے کسی طرح مسلمانوں کومفرنہیں تواپنی عمرکاایک تہائی حصّہ اسلام کوانگریزی تعلیم کے مضر نتائج سے بچانے میںصرف کیا ‘‘۔(حیات جاوید ،ج۲۔ص ۱۳۴)
بلاشبہ سرسیدؔ نیک نیت تھے اور وہ دین اسلام کو چوطرفہ حملوں سے حفاظت کرناچاہتے تھے مگر اسلام کو مطابق فطرت ومطابق عقل ثابت کرنے کی دُھن میںوہ حد سے تجاوزکرگئے ۔مثلاً شیطان اورفرشتوں کوتمثیل قراردینا،جنت وجہنم کواستعارہ ،جزاوسزا ان کے نزدیک روحانی کیفیتوں کانام ہے۔حضرت عیسی ؑ کا اللہ کے اذن سے مُردوں کازندہ کرنا،آسمان سے منّ وسلو ٰ ی اترنا ، فرعون کادریائے نیل میںغرق ہونااورموسی ؑ کابچ کرنکلنا علاوہ ازیں حضرت موسی ؑ کاکلیم ہونا اوراُن کے عصا کااژدھابن جاتا…. یہ وہ مذہبی امور تھے جنھیں سرسیدؔ ان کے ظاہری معنی میںقبول نہیںکرتے بلکہ ان سے وہ معانی اخذ کرتے ہیں جوقرین عقل ہوںحالانکہ عقل کے اپنے حدودہیں۔وہ بھول گئے کہ عقل کے نظریات ہرلحظہ متغیر ہیں۔محسن الملکؔ نے ایک دفعہ سرسیدؔ مرحوم سے کہاتھا کہ اگرفلسفہ یاسائنس کل کسی نظریے کورد کرکے کوئی دوسرا نظریہ پیش کردے توکیاآپ نئے سرے سے تفسیر لکھیںگے۔ ڈاکٹر ظفرحسن نے اپنے تحقیقی مقالے’’سرسیدؔ اورحالیؔ کاتصور فطرت ـ‘‘میںیہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سرسیدؔ کی تہذیبی اوراصلاحی کاوشوں کاسارا نقص ان کے تصور فطرت میںمضمر تھا اوروہ بھی بالخصوص اس سبب سے کہ وہ مغرب کے اُس تصور فطرت کے گرویدہ تھے جو گزشتہ تین چارصدیوں میںانسانی زندگی اورکائنات کی تشریح وتعبیر کاسب سے بڑا وسیلہ سمجھ لیاگیا تھا،لکھتے ہیں’’سرسیدؔ پہلے مسلمان تھے جنہوںنے مغربی افکار کومسلمانوںسے قبول کروانے کی خاطر مہم چلائی اورایک منظم تحریک کی بنیادڈالی ….. سرسید ؔ کی تمام خیال آرائیوں کی بنیاد دولفظوں پرتھی، ایک تو،فطرت ،اوردوسرے ،عقل فطرت کوانہوںنے خصوصیت کے ساتھ ہرچیز کامعیار بنایا تھا۔ اتنی بات یہیں عرض کرتے چلیںکہ انسانی تاریخ کی تمام دینی روایتوں اورتہذیبوں میںفطرت کے معنی ایک ہی رہے ہیں اوریہ وہ معنی ہیں جوسرسیدؔ کی نیچر سے مطابقت نہیںرکھتے ۔صرف یورپ ہی ایک جگہ ہے جہاںفطرت کے ایک دوسرے معنی پہنائے گئے ہیں اوریورپ میںبھی اس سلسلے کاآغاز بہت دیرمیں یعنی سولہویں صدی میںہوا اوریہ رجحان اپنے عروج کوانیسویں صدی میںپہنچا‘‘۔(سرسیدؔ اورحالی ؔ کاتصورفطرت ۔ص ۱۱۶)
حالانکہ ابولکلام قاسمیؔ فاضل معترض کی اس بات پراعتراض کرتے ہیں۔ اُن کامانناہے کہ جہاں تک سرسیدؔ کے تہذیبی شعور کاسوا ل ہے تواسے صرف تصورفطرت کازائید ہ قراردینادرست نہیں۔ تصور فطرت کی مغربی روایت میںسرسیدؔ نہ تو ڈیکارٹؔ (متوفیّٰ ۱۶۵۰ء) کوقبول کرتے ہیں، نہ ہابسؔ (۱۶۷۹ء) کواورنہ نیوٹنؔ اوراس کے بعد کے دوسرے مادیت پرست سائنس دانوں کو ۔سرسید ؔ اگرکسی ایک فطرت پرست کو اپنے تصور تہذیب ومعاشرت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کسی حد تک مثالی نمونہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تووہ جان لاک ؔ (Locke) ہے، جواپنے عہد کے مفکروں اورسائنس دانوںسے الگ اورمختلف بھی ہے اور مادّے کو ماورائیت سے ہم آہنگ کرنے کاتاثر دینے کے باعث سرسیدؔ کے مذہب پسندذہن کے ایک سہارے کاکام بھی دے سکتاہے۔
ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے اس نیچریت اورمادّیت کواستحکام بخشنے اورمدلل ومنظّم علمی نظریہ کی حیثیت دینے میں سب سے بڑھ کر حصّہ لیا ۔اس کی کتاب ’’اصل الانواع‘‘ (Origin of Species) سرسیدؔ کے انگلینڈ جانے سے دس سال قبل ۱۸۵۹ء میںشائع ہوچکی تھی اوراس کتاب نے سرسیدؔ کے فکروخیال میںانقلاب بپاکردیا۔ ڈارونؔ نے ایک ایسے طریق استدلال سے جوانیسویں صدی کے سائنٹفک دماغوں کے نزدیک استدلال کااکمل ترین طریقہ تھا، اس نظر یہ پرمہر تصدیق ثبت کردی کہ کائنات کاکاروبار خداکے پیغمبر بغیرچل سکتاہے ۔ آثارومظاہر فطرت کے لئے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اورعلّت کی حاجت نہیں ،زندگی گے ادنیٰ مراتب سے لے کراعلیٰ مراتب تک موجودات کاارتقاء ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کانتیجہ ہے جوعقل وحکمت کے جوہرسے عاری ہے ۔انسان اوردوسری انواعِ حیوانی کوپیدا کرنے والا کوئی صانع حکیم نہیںہے بلکہ ایک جاندار مشین جوکبھی کیڑے کی شکل میںرینگا کرتی تھی، تنازع بقاء صلح اورانتخاب طبیعی کے نتیجہ کے طورپر ذی شعور اورناطق انسان کی شکل میںنمودارہوگئی ۔
یہی وہ فلسفہ اورسائنس ہے جس نے مغربی تہذیب کوپیداکیا۔ اس میںنہ کسی علیم وقدیر کاتصور ہے اور نہ نبوّت اوروحی والہام کی ہدایت کاکوئی وزن، سرسیدؔ نے انسان کی تخلیق سے متعلق ڈارونؔ کے نظریۂ ارتقا ء کوقبول توکیا لیکن اپنے اصول’’ورک آف گاڈ‘‘(Work of God) اور ’’ورڈ آف گارڈ ‘‘(Word of God) پراٹل رہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہم اس بات کوبھی نہ مذہباً اور علماً ضروری سمجھتے ہیں کہ تمام دنیا کی مختلف قومیں،ایک ہی آدم کی نسل سے ہیں…..اس زمانے میںکہاجاتا ہے کہ ابتدا میںہرایک نوع حیوان کے پیدا کرنے کے لئے نیچر نے ایک ہی شئی جاندارپیدا کی اوراس کی جسمانی اورذہنی حالت نے ایک ترقی یافتہ حالت پیداکی، رفتہ رفتہ وہ اعلیٰ درجے پر پہنچ گئی۔ مثلاً حیوانات میںسے جس نوع میںبندرکوداخل کیا وہ ترقی،وران،وتان اورابیشیکوس بندروں تک ترقی کر گئی اورپھروہ ترقی کرتے کرتے انسان کی حالت میںپہنچ گئی…..اگرہم اس مسٔلے کوبھی مان لیں توہمارے اصول مذہبی میںجوہم قرآن مجیدسے پاتے ہیں کچھ نقصان نہیں آتا،کیونکہ قرآن مجیدمیںوہ حیوان مخاطب ہے جوانسان کی صورت میں آیاتھا گوکہ وہ کسی طرح پرآیاہو۔
انسان ابتدا میں نہایت ادنیٰ حالت میںتھا مگر ترقی کامادہ جوخدانے اس قسم کے حیوان یااس قسم کے بندر یاآدم کودیاتھا اس میںموجود تھا۔پھر رفتہ رفتہ …..ترقی ہوتی گئی، یہاں تک کہ وہ اس درجہ ترقی پرپہنچا ہے جس پروہ آج ہے اورمعلوم نہیںکہ ابھی کس حد تک ترقی کرنی باقی ہے۔اس پر قیاس ہوسکتاہے کہ آدم ؑ سے کس قدر طویل زمانہ گزرنے کے بعدحضرت نوح ؑ کوکشتی بنانے کافن آیاہوگا‘‘۔(مقالات سرسیدؔ جلد ۴۔ص ۴۷۔۴۱)
پاکستانی محقق بشیراحمدڈار کے نزدیک سرسیدؔ نے انیسویں صدی کے نیچری سائنسدانوںکے اصول کی طرف تنقیدی رویہ اپنائے بغیر اس کوقبول کرلیاتھا اوریقینا سرسیدؔ کے اسی رویے نے سیدجمال الدین افغانی ؒ کوانھیں نیچری اور دہریہ کہنے پرآمادہ کیاتھا۔ مزیدبراں سرسیدؔ کایہ رویہّ حقیقی نہیں تھابلکہ ظاہری تھا جس کامقصد ان تعلیم یافتہ نوجوانوںکے درمیان اسلام کوفطری ثابت کرنا جواس فلسفے کے دام میں پھنسے ہوئے تھے ۔آگے چل کروہ کہتے ہیں کہ فلسفیانہ طورپرسرسیدؔ ایک عقل پرست (Rationalist) نہیںتھے ،اسی لئے وہ جس عقل (Reason) کی بات کرتے تھے وہ تجریدی (Abstract) اور غیر بدیہی (Discursive) نہیںتھی بلکہ وہ تجربی تھی ۔ اسی بنیاد پربشیر احمدڈار سرسیدؔ کی عقلیت کوعمومی فہم (Common Sense) کی عقلیت کی اصطلاح دیتے ہیں۔ڈاکٹرسیدعبدالباری ؔ رقمطراز ہیں:’’سرسید یورپ میںعقلیت ونیچر کاوردکرنے والے فلسفیوں کی حقیقت کونہ سمجھ سکے کہ یورپ میں خداپرستی اورنیچریت ۱۷ویں صدی میںضرور ساتھ ساتھ چل رہی تھی اورکیپلرؔ ،گلیلیوؔ اور نیوٹن وغیرہ خدا کے منکر نہ تھے مگر بہرحال وہ خداسے قطع نظران قوتوں کوتلاش کررہے تھے جواس دنیا کے نظام کوچلارہی ہیں‘‘۔( بیسویں صدی کے اردوادب کاجائزہ ….ص ۷۹)
اٹھارویں صدی میں بقول مولانا سیدابولاعلیٰ مودودیؒ یہ حقیقت نمایاں ہوگئی کہ جوطریق فکرخدا کونظرانداز کرکے نظام کائنات کی جستجو کرے گا وہ مادیت ، بے دینی اورالحادتک پہنچے بغیر نہیںرہ سکے گا۔ چنانچہ پریسٹلے ؔ ،والٹئیرؔ ،روسوؔ نے یاتواعلانیہ خداکاانکارکیا یااگرتسلیم کیا توایسے وجودکی طرح جوکائنات بنانے کے بعدگوشہ نشین ہوگیاہے۔پھر انیسویںصدی کے آتے آتے خداپرستی اورنیچریت کے درمیان مصالحت کی کوششیں بھی ترک کردی گئیں۔ اورمادیت اپنے کمال کوپہنچ گئی۔فلسفہ میںتجربیت اورافادیت پرستی کامکمل دوردورہ ہوا۔ اسپینسرؔ نے نظام کائنات کے خودبخود پیداہونے کانظریہ پیش کیااوریہ خیال پختہ ہوتاگیا کہ جوکچھ روئے زمین پرہے خودبہ خود وجودمیںآگیاہے۔ڈارونؔ کے نظریہ نے نیچریت ومادیت کومدلل ومنظم علمی نظریہ بنانے کی کوشش کی ۔ اوراس پرایمان تھاکہ حیوان وانسان سب مشین ہیں جوطبعی قوانین (Laws of Nature) کے تحت چل رہی ہیں۔ انیسویںصدی میں سرسیدؔ مغرب کے جس فلسفے اورسائنس سے واقف ہوکراس کے معتقدہوئے ،وہ یہی تھا ۔چنانچہ اس کانتیجہ یہ سامنے آیا کہ تشکیک کے امراض میں اس عہدکے نوجوان بُری طرح مبتلا ہونے لگے اورمغربی تہذیب انہیںاسلام سے منحرف کرنے لگی، مزیدبراں اسلام میںبنیادی ردوبدل پرانہیں آمادہ کرنے لگی۔
سرسیدؔ سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی کہ عقل ونیچرکی میزان پراس طرح مذہب کوتولنا شروع کیا کہ وہ باتیں جوعقائد کاجُز ہیںاورجن کامابعدالطبعی دنیاسے تعلق ہے ،ان کے لئے سوالیہ نشان بن گئیں۔ مولانا قاسم نانوتویؔ (بانی ومہتمم دارالعلوم ،دیوبند) جوکہ سرسیدؔ کی دیگرخدمات کوبے حد قدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے ،سرسیدؔ کومشورہ دیتے ہیں کہ قرآن کی آیات میںجوچیزیں ان کوخلاف واقعہ نظرآتی ہیں،وہ خودان کے نقص عقل کی علامت ہیں،جسے وہ دورکریں۔ سرسیدؔ کویہ احساس نہ تھا کہ وحی وکتاب اللہ کی طفلانہ اندازسے تاویل وتوجیہہ سے اسلام کے مستحکم فکری نظام کووہ نقصان پہنچارہے تھے۔ اگروہ معتزلہ سے شاہ ولی اللہ تک اسلامی مفکرین کی حدودمیںاسلام اورعقل ونیچر میںمطابقت کی کوشش کرتے توشایدانہیں نیچری ہونے کاطعنہ نہ دیا جاتا ۔ سرسیدؔ نے اپنے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے ذریعہ سبھی غیر عقلی اورغیرافادی رسوم کوترک کرنے کامشورہ دیا اورسبھی مروجہ رسموں کی عقلی چھان بین کی ،یہ سچ بات ہے کہ اُس دورمیں ہندوستان کے مسلمان رسمِ بد میںپھنس کررہ گئے تھے اورتوہم پرستی بھی عروج پرتھی لیکن سرسیدؔ نے جاہلانہ رسوم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے کچھ پختہ عقائد کوبھی نشانہ بناناشروع کیا ،بقول حسن عسکریؔ :’’انہوںنے بقا کے راستے کوپہچانا ،ہمیں ان کی عظمت تسلیم، مگر بقاکے یہ معنی نہیںکہ نئے خیالات میںاپنے آپ کواس طرح بدلیںکہ اپنی اجتماعی شخصیت باقی نہ رہے ۔اصلی بقا تووہی ہے کہ قوم کی تخلیقی صلاحیتیں بھی نہ مریں اورانفرادی شخصیت بھی برقرار رہے۔ حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں ان لوگوں سے ایسی غلطیاں سرزدہوئیں جس کاخمیازہ اب تک بھگتنا پڑرہاہے‘‘۔(انسان اورآدمی ۔ص ۱۲۴)
عقیل احمد صدیقی کے الفاظ میںعقلی تجربیت پسندی کے وسیلے سے حاصل علم کی صداقت ہمیشہ ناپائدار ہوتی ہے۔ سرسیدؔ اس تفہیم میںناکام رہے کہ کلچرل مظاہر اصلاً نشانات ہیں جن کی پُشت پرتصورات کاایک نظام ہوتاہے جن کی مدد سے کسی سماج میں موجود وضعی پیچیدگیوں کاتجربہ ویقین ممکن ہوتاہے۔ بہت سے ثقافتی مظاہر غیرعقلی ہونے کے باوجود اس لئے کارآمد ہیںکہ ان کی حیثیت تصورات کی ہے اوریہ کسی قسم کی شناخت کاوسیلہ ہوتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ پروفسیر ابوالکلام قاسمیؔ کے الفاظ میںسرسیدؔ کے تہذیبی تصورات کے جائزے کے وقت ان کے زمانے کی غیرمعمولی صورت حال ،مسلمانوںکی اجتماعی ہزیمت اوربے یقینی کے احساس جیسے تناظر کونظرانداز نہیںکرناچاہیے اور انہوںنے یورپ کی عقلیت پرستی اور فطرت پرستی کی حمایت میںیقینا اس حدتک جانے سے گریز کیاجس نے مغرب کے انکار اورالحاد کی حدتک پہنچادیاتھا ۔سرسید ؔ نے اسلام کے سلسلے میں قائدانہ کے بجائے معذرت خواہانہ اندازاختیار کیااوردشمنانِ اسلام کے اعتراضات پراسلام کی واضح موقف میںلچک پیدا کرتے گئے۔ غرض سرسیدؔ مرحو م کی رہنمائی میںتعقل اورفطرت پسندی کی طرف خاص میلان ہوا۔توہمات اور تصنع کی دنیاسے نجات حاصل کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ سرسیدؔ کے رفقا میںمحسن الملک ریفارمیشن کے بڑے مویّد تھے لیکن وہ اس حدتک جانے کوتیار نہ تھے جہاںتک سرسید ؔجاناچاہتے تھے ۔سرسیدؔنے انگریزوں کے ساتھ کھاناشروع کیاتوانہوںنے اسے ناپسند کیا اورجب سرسید ؔ نے ’’تبئین الکلام‘‘ لکھی تو محسن الملک ؔ نے اس کتاب میں موجود بہت سے خیالات سے اختلاف کیا۔سرسیدؔ نے نرمی سے ان کوجواب دیا کہ ’’اب تنقید کازمانہ نہیں،عقل ودانش سے کام لینے کاوقت ہے‘‘۔انیسویںصدی میںبہت سے روشن خیال یہ تصور کرتے رہے کہ مغرب کے مادّہ پرست تہذیب میںمشرقی روایات کی کچھ پیوندکاری سے کام چل سکتاہے اور اس سانچے میںڈھل کرجواینگلو محمڈن اوراینگلو انڈین برآمدہوںگے ،وہ مستقبل کوتابناک بناسکیںگے اورقدامت وجدیدیت کاایک دلکش امتزاج بن کرسامنے آئیںگے۔ حالانکہ مشرقی ومغربی روایات کامرکب تیارکرنے کی یہ کوشش اکثرمضحکہ خیزثابت ہوئیں۔ اس لئے کہ دونوں عناصر بقول مولانا مودودیؒ ’’نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہے بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کرکے طلبہ کے ذہن کودومختلف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں‘‘۔ علمائے وقت نے مغرب کی مادّہ پرستی کے سلسلے میںجو رویہّ اختیارکیا اورعلی گڑھ تحریک کی جومخالفت کی وہ بے محل نہ تھی،لیکن سرسیدؔ پرمفادپرستی یا ذاتی مصلحت کی پاسداری کاالزام بیجا تھا، ڈاکٹر سیدالباری مرحوم لکھتے ہیں:’’دراصل سرسیدؔ پورے خلوصـ کے ساتھ انگریزی تعلیم اور عقلیت وفطرت پسندی کی حمایت کررہے تھے۔جن لوگوں نے علمی انداز سے سرسیدؔ سے اختلاف کیاان کی باتوں پرلوگوںنے توجہ دی ،لیکن جومحض تمسخر اوراستہزا سے کام لے رہے تھے ان کی باتوںکوکسی نے توجہ نہ دی۔ اسی ماحول میںبہت سے ایسے لوگ بھی منظرعام پرآئے جنہوںنے مغرب کی اخلاق وروحانیت کے معاملہ میںدرماندگی کوسامنے رکھتے ہوئے صرف مادّی وسائل میں اس کی تسخیر فطرت اورایجاد وانکشاف سے فائدہ اُٹھانے کی حدتک اس کی طرف تعاون کاہاتھ بڑھانا مناسب قراردیا‘‘۔( بیسویںصدی کے اردوادب کاجائزہ ۔ص ۸۵)
سرسیدؔ کے اصلاحی غوروفکر کااصلی محورمذہب نہ تھا ۔ مذہبی بحث ان کی مجبوری تھی کیونکہ مذہب اس عہدکی زندگی پرحاوی تھا،اس لئے انہیںمذہبی مسائل سے دلچسپی تھی ۔وہ جانتے تھے کہ کسی قوم کی تہذیب اورترقی کاتعلق اس کے مذہب سے بھی ہوتاہے اوراپنے عہد کے حالات کے پیش نظر ان کاخیال تھاکہ جس قدر اس قوم کے مذہب میںعیوب پائے جائیںگے ،اسی قدر اس کی تہذیب میںنقص اورترقی میںجمودہوگا ۔ مسلمانوں کوتہذیب یافتہ کرنے کے جذبے نے سرسیدؔ کومذہبی اصلاح کی طرف متوجہ کیا۔ کیونکہ ان کاخیال تھا کہ اسلام کی حالت کااندازہ مسلمانوں کے حالات سے لگایاجاسکتاہے۔ لیکن یہی انہوںنے ٹھوکر کھائی ۔ بایں ہمہ سر سیدا حمد خان کی تعلیمی خدمات آب ِ زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں اور ان حوالوںسے وہ مسلمانا ن ِ ہند کے محسن ہیں ۔
رابطہ: ریسرچ اسکالر کشمیر یونیورسٹی،سرینگر