علی گڑھ//علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی سی پی ڈی یو ٹی( اردو اکادمی) کی جانب سے ''سرسید احمد خاں اور ان کی بصیرت'' کے موضوع پر منعقدہ سہ روزہ سیمینار کا اختتامی اجلاس سرسید اکیڈمی میں منعقد ہوا۔سب سے پہلے اردو اکادمی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے تین روزہ سیمینار کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ آئندہ مزید ایسے پروگرام منعقد کئے جائیں گے جس میں مدرسۃ العلوم اور ایم اے او کالج میں علی گڑھ کے عطیہ دہندگان کے ورثاء کو مدعو کیا جائے گا اور ان کی عزت افزائی کی جائے گی۔تقریب کے مہمان خصوصی مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے شیخ الجامعہ پروفیسر اختر الواسع نے اپنے خطاب میں کہاکہ جب انگریزوں نے جدید تعلیم کے حوالہ سے مدرسوں کی بالادستی اور مسلمانوں میں موجود یونیفائیڈ سسٹم آف ایجوکیشن کو ختم کیاتو اس وقت سرسید نے جدید تعلیم کو مسلمانوں کے ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور عالم اسلام کا پہلا جدید سیکولر ادارہ 22؍مئی 1875میں قائم کیا، سرسید کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے تعلیم کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرایا اور سائنس و مذہب میں تضاد کو دور کیا۔انھوں نے کہا کہ سرسید زندگی کے ہر پہلو میں ہمیں ساتھ نظر آتے ہیں ، انھوں نے نہ صرف قرآن کی تفسیر لکھی بلکہ انجیل کی بھی تفسیر لکھی اور اس میں معروضیت کو پوری طرح برقرار رکھاجس کا اعتراف عیسائی پادری نے بھی کیا اور سرسید کی تفسیر کو سراہا۔پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ ہماری مذہبی تحریروں میں عقلیت پسندی کا عنصر سرسید نے جس طرح داخل کیا بعد میں ہمارے مفسرین اس سے اپنا دامن نہیں بچا پائے ۔انھوں نے بتایا کہ سیکولرزم کا لفظ اردو میں سب سے پہلے سرسید نے استعمال کیا۔پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ سرسید نے غیرضروری باتوں سے حتی الامکان گریز کیا اور ہمیں یہ سبق دیا کہ کوئی ایسی رائے جو مفاد عامہ میں نہیں ہے اس پر اصرار نہ کریں۔ پروفیسر اختر الواسع نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب ایم اے او کالج میں دینیات کے نصاب و نظام کا معاملہ آیا تو سرسید نے دیوبند کی طرف دیکھا اور مولانا قاسم نانوتوی کو خط لکھا کہ اس کے لئے کوئی عالم بھیج دیجئے ۔ انھوں نے کہاکہ تاریخ میں بہتیرے موڑآئے ہیں اور علی گڑھ نے اپنا رول نبھایا ہے ، یہ سلسلہ جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ انھوں نے کہاکہ مدرسۃ العلوم کا یوم تاسیس اور بانئ درسگاہ کا یوم پیدائش دونوں ہمارے لئے یکساں اہمیت رکھتا ہے ۔اردو زبان و ادب اور تحریک کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ ہندوستان میں اردو زبان و ادب کا کوئی بھی سفر علی گڑھ کے بغیر ادھورا ہے ، جدید اردو ادب ہو یا رومانی ادب، ترقی پسند ادب ہو یا جدیدیت و مابعد جدیدیت کا دور سب میں علی گڑھ ممتاز رہا ہے اور رہے گا۔ پروفیسر اختر الواسع نے مزید کہاکہ آج اکیسویں صدی میں کوئی ایسا لائحہ عمل ہونا چاہئے جو سرسید کی غیرموجودگی کی تلافی کرے ، آج سچر کا سچ کچھ اور کہہ رہا ہے ، ہمارا معاشرہ پسماندہ ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نیا لائحہ عمل بنائیں اور دنیا میں ایک انقلاب کے بانی بن جائیں۔فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین پروفیسر محمد زاہد نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ دو سو سالہ سرسید تقریبات کے تحت ڈاکٹر راحت ابرار اور دیگر تمام حضرات کی خدمت میں ایک شاندار سیمینار کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔انھوں نے کہا کہ سرسید ایک نابغئہ روزگار شخصیت کے مالک تھے ، وہ ایک عظیم دانشور، مفکر، مدبر،ماہر تعلیم، تاریخ داں، ماہر قانون، مفسر قرآن، اسلامک اسکالر، ادیب و مصلح ، سیاست داں و صحافی تھے ۔ دانشگاہِ علی گڑھ سرسید کی بے پناہ کاوشوں کا ثمرہ ہے جس کے علمی سرچشموں سے ملک و ملت کے لاکھوں نونہال فیضیاب ہورہے ہیں۔ اس سیمینار میں جو مقالات پیش کئے گئے ان سے سرسید کی بیش بہا خدمات کے بے شمار مخفی گوشے سامنے آئے ۔