وادی کشمیر میں سردیوں کی پہلی دستک کے ساتھ ہی محکمہ بجلی کی بے بیان ستم ریزیاں شروع ہو گئی ہیں اور عام لوگ اس کی زد میں آکر زخم زخم ہو رہے ہیں۔ ایک طرف جاری ہڑتال کے گزرے چار مہینوں کے بجلی بل صارفین کوتھمانے میں مستعدی کے ساتھ کام لیا جا رہا ہے تو دوسری طرف کسی باضابطہ شیڈول کے اعلان کے بغیر ہی بجلی کی سپلائی میں کٹوتی شروع کر دی گئی ہے۔ رواں برس موسم سرما نے پہلے ہی اپنے دانت دکھا ئے اور ساری وادی شدید سردی کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے لوگ لازمی طور متواتر برقی سپلائی کے ضرورت مند ہیں، خاص کر صبح و شام اور رات کے اوقات پر مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ ان ہی اوقات پر متعدد علاقوں میں سپلائی بند رہتی ہے، جس سے لوگوں کو بے بیان مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ ایک افسوسناک امرہے کہ وادی کے بیشتر علاقوں میں برقی رو کی فراہمی سکڑسمٹ کر 6سے 8گھنٹوں تک محدود ہوگئی ہے جو ایک ٹارچر سے کچھ کم نہیں ہے۔ اس ستم ناک صورتحال کے خلاف صارفین سخت برہم ہیںمگر انتظامیہ نے بس ایک چپ سادھ رکھی ہے ، صرف پانی کی سطح گرجانے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں تخفیف کے دلائل پیش کرکے صارفین کو خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سردیوں کے ایام میں وادی کے دریائوں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح ہمیشہ کم ہوجاتی ہے اور حکومت اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بجلی کی درآمد کا بندوبست کرتی رہی ہے اور تھوڑے بہت پھیر بدل کے ساتھ برقی رو کی فراہمی یقینی بنا کر سردیوں کے ایام میں صارفین کی پریشانیوں کا خیال رکھا جاتا تھا مگر اب کی بار یہ سارے انتظامات دھرے کے دھرے کیوں رہے ، پر صورتحال پاور سیکٹر میں ریاستی انتظامیہ کی ساٹھ سالہ کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اکثر محکمہ کا یہ دعویٰ ہوتاہے کہ 1050میگاواٹ کی ضرورت کے مقابلہ میں عمومی طور پر صرف750 میگاواٹ کے آس پاس کی سپلائی میسر رہتی ہے ، جس میں ریاست کے اپنے پروجیکٹوں سے حاصل ہونے والی بجلی کی مقدار برائے نام ہے اور لگ بھگ سارا زورشمالی گرڈسے درآمد کرنے پر مرکوز ہے ، مگر محکمہ کے پاس اس درآمد کے لئے بھی بنیادی ڈھانچہ میسر نہیں ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے کئی نئے ریسوینگ سٹیشن زیر تعمیر ہیں ، جو نامعلوم وجوہات کی بناء پہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے پارہے ہیں۔شمالی گرڈ اکثر وبیشتر ریاست کے نام بقاجات کی عدم ادائیگی کی آڑ میں اکثر سردیوں کے لئے درکار اضافی سپلائی کی فراہمی سے منکر رہتی ہے اور اگر تھوڑا بہت اضافہ ہوتابھی ہے تو مزید بجلی کی درآمدگی کے لئے محکمہ کے پاس ترسیلی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ موجودہ صورتحال کودیکھتے ہوئے آنے والے ایام میں بجلی کی سپلائی میں مزید ابتری کا اندیشہ ہے ، جو یقینی طور پر اس قیامت خیز سرما میں صارفین کیلئے اضافی مصائب کا سبب ہوگا۔ایسے حالات میں عام لوگوں کا احتجاج کرنا نہ صرف منطقی ہے بلکہ ان کی مجبوری بھی ہے۔ فی الوقت وادی میں 10ویں اور بارہویںجماعتوں کے امتحانات بھی چل رہے اور طلبہ امتحانات کی تیاریوں کے سلسلہ میں رات دیر گئے تک پڑھائی کرنے پر مجبور ہیں، لیکن بجلی کی بے ہنگم کٹوتی کے بہ سبب اُنہیں بھی زبردست مشکلات کا سامنا ہے۔ دربار کی سرینگر سے جموں منتقلی کے ساتھ ہی ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ انتظامیہ وادی میں عوام کو فراموش کرنے لگی ہے۔یہ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ گرم گرم دیوان خانوں میں بیٹھ کر قوموں کی تقدیریں لکھنے والے حکام ،خواہ وہ سیاستدان ہوں یا انتظامی افسران ، کو مہنگائی اور بے کاری کی مار جھیل رہے عام لوگوں کی مشکلات کا احساس چھوکر بھی نہیں گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کو وہ عذرخواہی کا روّیہ اختیار کرنے کی بجائے صارفین کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرے ، کیونکہ جلد یا بدیر ہرحکومت کو اس طرح کے معاملات عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتاہے۔